پاکستان کو احترام کیسے ملے گا؟


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نظریاتی جنگ قرار دیا ہے اور انتہا پسند عناصر پر واضح کیا ہے کہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے ملک و قوم کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ یوم دفاع کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے یہ بھی واضح کیا کہ جہاد کا فیصلہ صرف ریاست کر سکتی ہے اور جو عناصر اپنی تخریب کاری کو جہاد قرار دیتے ہیں، وہ دراصل فساد کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ہر سطح پر پوری قوت سے ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان میں ستمبر 1965میں ہونے والی جنگ کی برسی کے موقع پر جی ایچ کیو میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے عالیشان تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے فوج کے دفتر تعلقات عامہ نے جنگ ستمبر کے حوالے سے پرجوش ٹیلی ویژن اشتہارات جاری کئے تھے جن میں پاک فوج کو ناقابل تسخیر اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے چوکس و تیار بتایا گیا تھا۔ اس اشتہاری مہم اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے آخری جوان تک مقابلہ کرنے کے پرجوش بیانات سے جو ماحول پیدا ہوتا ہے، وہ امن اور استحکام، ترقی و خوشحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کو نظریہ کے طور پر اختیار کرنے کا مزاج پیدا نہیں کر سکتا۔ پاک فوج کی یہ تشویش بجا ہے کہ اسے بھارت کے علاوہ افغانستان کی طرف سے بھی جنگ کا اندیشہ ہے۔ متعدد دہشت گرد گروہ اس ملک میں موجود ہیں جو پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن اس شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے لڑ مرنے کا قصد کرنے کی بجائے جینے کا حوصلہ اور اس کے اسباب پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے آج دنیا بھر میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خطے کے بدلتے ہوئے حالات کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کو تیزی سے نئی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے اپنی سمت تبدیل کرنا ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان نئی خارجہ پالیسی اختیار کرے گا، جسے فوج کی مشاورت سے تیار کر کے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ کی یہ بات تو خوش آئند ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں ملک کی خارجہ اور سلامتی پالیسی پر مباحث ہوں اور اجتماعی سوچ اور دانش کی بنیاد پر ضروری فیصلے کئے جا سکیں لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے ماضی کی روایت کو ترک کرنے کی توقع بھی عبث ہو گی۔ اب تک تو جمہوری حکومت کو اگر کوئی پالیسی بیان دینا ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ اسے ایک قرارداد کی صورت میں ایوان میں پیش کیا جاتا ہے پھر اس پر کسی تفصیلی بحث کے بغیر اسے منظور کر کے قومی اتحاد اور عزم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کو اس طرح پہلے سے طے شدہ اہداف کے لئے آلہ کار بنانے ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے اہم ترین سیاستدان بھی یہ نہیں بتا سکے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے اور قومی سلامتی کے حوالے سے ملک کون سے راستے پر گامزن ہے۔

خواجہ محمد آصف کی طرف سے ملک کی پالیسی میں تبدیلی کے بیان کو اگر 6 ستمبر کی تقریب میں پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے کی گئی تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تصادم نہیں تو لاتعلقی کا اعلان کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی آرمی چیف یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو امریکی امداد کی نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کے احترام کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور دنیا یہ بات تسلیم کریں کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو پچھاڑ دینے میں کئی اہم سنگ میل عبور کئے ہیں۔ اس رائے کا اعادہ بعد میں قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد میں بھی کیا گیا تھا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے کامیاب جنگ کی ہے اور سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم دفاع پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا تو دنیا میں کسی بھی ملک نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اب دنیا دہشت گردی کے خلاف مزید اقدامات کرے اور اس عفریت سے نجات پانے کے لئے پاکستان سے بھی تعاون کیا جائے۔ تاہم اگر دنیا کے ملک پاکستان کو ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تو وہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد کرنے کی کوشش نہ کریں۔

اس واضح اور دو ٹوک اعلان کے بعد ملک کے وزیر خارجہ آخر کون سے حالات کو نئے طریقے سے سمجھتے ہوئے نئی پالیسی لانے کی کوشش کریں گے۔ یہ حالات گزشتہ دو دہائیوں سے اس خطے میں موجود ہیں اور پاکستان نے مسلسل یہ بات دہرائی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ اسٹیٹ کا درجہ رکھتا ہے، اس لئے اس کی حکمت عملی پر انگلی نہ اٹھائی جائے۔یہ حکمت عملی دو وجہ سے موضوع بحث بنتی ہے۔ ایک تو یہ دنیا بھر میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کے کسی نہ کسی طرح پاکستان آنے یا یہاں تربیت پانے کے شواہد سامنے آتے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ پاکستان یکے بعد دیگرے متعدد فوجی آپریشنز کرنے کے بعد بھی ملک میں امن و امان بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ جب کوئی حکومت یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت میں پوری طرح کامیاب ہے تو وہ دوسرے ملکوں سے کس طرح کہہ سکتی ہے کہ اس کی پالیسی بے داغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے انتہا پسند گروہوں اور مختلف عسکری عناصر کی جنگ جوئی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کئے رکھی ہے، اس پر اب امریکہ ہی نہیں چین جیسا دوست اور روس جیسا ہمدرد بھی آواز اٹھانے پر مجبور ہو چکا ہے۔ وزیر خارجہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کا جو اشارہ دے رہے ہیں، وہ تو رونما ہو چکی ہے۔ اس کا فیصلہ اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں کیا گیا ہے۔ پاکستان صرف اسے سمجھنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ البتہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل کر کے چین اور روس کے ساتھ مراسم استوار کرنے کی جو خواہش درون خانہ قوت پکڑ رہی ہے وہ بھی موجودہ طرز عمل کے ساتھ پوری ہونے کا امکان نہیں ہے۔ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا چاہتا ہے۔ سی پیک منصوبہ اس کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ کا اہم حصہ ہے جس کے ذریعے وہ متعدد ملکوں اور براعظموں کو مواصلاتی رابطوں کے ذریعے جوڑ کر اپنی تجارت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ برصغیر میں کشیدگی، تصادم اور دہشت گردی ختم ہو۔ اگر پاکستان اس مقصد کے لئے آزمائے ہوئے ہتھکنڈے ہی اختیار کرے گا اور صرف حلیف بدل لینے سے کامیابی کی امید کرے گا تو ناکامی کو نوشتہ دیوار سمجھنا چاہئے۔ اس صورت میں اب نہیں تو چند برس بعد چین بھی وہی مطالبہ کرے گا اور اسی لب و لہجہ میں بات کرے گا جو اس وقت امریکہ نے اختیار کیا ہوا ہے۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نظریہ بنانے کے لئے قوم کو جذباتی نعروں اور اس خوف سے نجات دلانے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہر پل حملہ کرنے اور پاکستان کو تباہ کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ جب تک ملک میں یہ بیانیہ مذہبی جماعتوں سے لے کر ملک کی فوجی قیادت کی طرف سے اختیار کیا جاتا رہے گا، ملک کے عوام حالت جنگ میں رہیں گے اور انتہا پسند عناصر اس ماحول سے پریشان حال نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ نصف صدی ہونے والی جنگ کو آج کے سیاسی ماحول، اسٹریٹجک اور سفارتی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ماٹو کے طور پر استعمال کرنا درست رویہ نہیں ہے۔ اس لئے یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے فوجی قوت اور قومی غیرت و حمیت کے جو مظاہرے سامنے آتے ہیں، انہیں تبدیل کر کے اپنی صلاحیتوں کا رخ موجودہ حالات میں نئے سلوگن تلاش کرنے پر صرف کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ سلوگن تعلیم کا حصول، تعلیمی اداروں کو عقلی اور سائنٹیفک بنیاد پر استوار کرنا، مذہبی منافرت کے خلاف مزاج سازی، فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی، اقلیتوں کے خلاف رویوں کی حوصلہ شکنی اور بقائے باہمی کے تصور کو عملی طور پر اختیار کرنے کے اقدامات کی صورت میں سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ ملک سے جنگ، تصادم، دشمنی، نسلی و قومی برتری کے مزاج کو تبدیل کر کے امن ، بھائی چارے، علم کی جستجو، رواداری اور تحمل و بردباری کے تصور کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ بنیادی کام کرنے کے لئے ملک کے تمام ادارے اور شعبے مل کر پوری قوت سے سرگرم نہیں ہوں گے، خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے اشارے پاکستان کا نام روشن کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

پاکستان کو دنیا کی ناراضی کا مقابلہ کرنے کے لئے دوست بدلنے، سمت تبدیل کرنے، نئی خارجہ پالیسی لانے یا یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سرحدوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہیں۔ اس کے برعکس ساری توجہ ہمسایہ ملکوں کی صورتحال یا دور و بزدیک دوست ملکوں کے اشاروں کو سمجھنے کی بجائے داخلی حالات کو درست کرنے، ملک میں باہمی احترام کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے کام کرنے، تعلیم کے ذریعے ملت اسلامیہ کے سپاہی تیار کرنے کی بجائے انسان پیدا کرنے پر مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر امن ہو، یہاں کے شہری دنیا بھر میں جاری تنازعات کو حل کرنے کے لئے تعلیم اور کاروبار حیات ترک کر کے سڑکوں پر نکلنے کی بجائے اگر اپنے ملک کو خوشحال بنانے، غربت ختم کرنے، پانی، بجلی اور وسائل کی قلت کو ختم کرنے پر توجہ دیں اور ملک کے تعلیمی ادارے مسخ شدہ حقائق پر مبنی کتابوں کو ازبر کروانے کا طریقہ چھوڑ دیں تو پوری دنیا پاکستان کو وہ احترام دینے پر مجبور ہو گی جو جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ سے طلب کرتے ہیں۔ احترام مانگا نہیں جاتا۔ یہ اعلیٰ کارکردگی پر ازخود حاصل ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali