مسلمان ممالک روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں


میانمار (برما) میں جوکچھ ہو رہا ہے اسے مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے سواکوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کا شکار بننے والوں کا کوئی والی وارث نہیں،وہ تو بھلا ہو انٹر نیشنل اور سوشل میڈیا کا کہ آگ اور خون کے اس کھیل کو پوری دنیا کے سامنے لے آئے۔ لوگوں کو زندہ دفن کرنے، ذبح کرنے،ڈنڈے اور ٹھڈے مار مار کر جان سے مار دینے، گھروں کو مکینوں سمیت جلانے، بھاگنے والوں کو گولیوں اور گولوں کا نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آنے پر بھی مذمت کی حدتک ہی سہی، بہر حال ایک لہر تو اٹھی۔ واحد توانا آواز ترک صدر طیب اردگان کی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی ایک حد سے آگے نہیں جاسکتے۔ وہ عالمی استعمار کی نظروں میں پہلے ہی سے کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ انہیں اپنی ہی فوج کے مہلک حملے سے بال بال بچے ہوئے ابھی ایک سال ہی گزرا ہے۔ بہرطور ترک صدر نے جو کچھ بھی کہا اس سے کرہ ارض کے تمام مسلمانوں کی ترجمانی ہوگئی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک اس بہیمانہ ظلم پر فوجی مداخلت کا راستہ اختیار کرتے مگر کسی میں دم نہیں۔ ہر کسی کو علم ہے کہ سرحدوں سے باہر جا کر لڑنے میں سچ مچ کی جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر ہر مسلم ملک کسی نہ کسی عالمی طاقت کا عملاً پٹھو بنا ہوا ہے۔ ان کی افواج عالمی استعمار کی اجازت کے بغیر مسلح کارروائی کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔ سب سے زیادہ تنقید جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں بننے والے 34مسلم ممالک کے فوجی اتحادپر کی جارہی ہے کہ وہ حرکت میں کیوں نہیں آرہے ؟پتہ نہیں سادہ لوح مسلمان کس کس سے توقعات باندھ لیتے ہیں۔ اس فوجی اتحاد میں شامل بیشتر ممالک کے حکمران خود اپنے ہی عوام سے خوفزدہ ہیں۔ اقتدار بچائے رکھنے کے لیے طاقتور غیر مسلم ممالک کو اپنا آقا اور رہبر بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ غریب روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے آئیں ۔

میانمار کے سب سے قریبی ہمسایہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت ہے۔ اتنی مضبوط کہ ہمیشہ مارشل لا لگائے رکھنے کی نیت رکھنے والی اپنی ہی فوج کے ’کڑاکے‘ نکال کر تیر کی طرح سیدھا کر دیا۔ جرنیل جیلوں میں ڈالے اور انکے ساتھی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بھی خوب درگت بنائی، سازشوں میں جتے رہنے کے عادی ججوں اور جرنیلوں کے حامی میڈیا کی بھی خوب خبر لی۔ مگر جیسے ہی روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ پیدا ہو ا حسینہ واجد نے آنکھیں بند کرکے کانوں میں گویا سیسہ انڈیل لیا۔ وہ تو بھلا ہو سرحدی فورسز کا کہ جنہوں نے جان بچانے کےلئے آنے والے مسلمان خاندانوں کو بارڈر کراس کرنے کی اجازت دی۔ عالمی دباﺅ بھی کا م آیا۔ ذرا تصور کریں کہ بنگلہ دیش حکومت اس معاملے پر برما کی حکومت سے براہ راست احتجاج کرتے ہوئے سٹینڈ لے لیتی تو روہنگیا مسلمانوں کو کس قدر ریلیف مل سکتاتھا۔ غریب اور کمزور کا کوئی دوست نہیں۔ احمق تھے وہ لوگ جو میانمار کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے رحم کی توقع لگائے ہوئے تھے۔ اس نے تو 2013ءمیں ہی اپنی اصلیت خود ظاہر کردی تھی اس وقت بھی روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔ بی بی سی کی مشعل حسین نے خالصتاً صحافیانہ انداز میں اس حوالے سے سوالات پوچھے تو اس بڑھیا نے تنک کر جواب دیا کہ ”مجھے علم نہیں تھا کہ میرا انٹرویو کوئی مسلمان کرے گا“۔ ایسے میں بھی کئی ہونق سوچ رہے ہیں کہ برما کا حقیقی اقتدار آنگ سان سوچی نہیں بلکہ فوج کے ہاتھ میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو مگر جب مسلمانوں کو مارنے کا موقع آتا ہے تو ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتا ہے۔ امن کے نام نہاد پر چارک بدھ راہبوں نے جس طرح سے مسلمان مردوں،عورتوں، بچوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ اس نے سب کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ آنگ سان سوچی بھی انہی کی نسل ہے۔

جن مسلمانوں کا دنیا کے کئی مقامات پر قتل عام جاری ہے، میانمار میں انہیں تحفظ دینے کی بات کرکے وہ اپنی ’روشن خیالی‘ کو خطرے میں کیوںڈالے گی۔ اب قتل عام کا دفاع کرنے پر اتری اسی خاتون رہنما نے بیان جاری کیا ہے کہ مسلمانوں کے کشت وخون کا مرکز بننے والے صوبے رخائن میں حکومت ہر کسی کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔ ترک صدر طیب ا ±ردگان سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تصادم سے متعلق بہت زیادہ غلط اطلاعات سے لڑائی میں دہشت گردوں کے مفاد کو تحفظ ملے گا۔ انہوں نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا کہ ہم کئی افراد سے بہت زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ انسانی اور جمہور ی تحفظ سے محروم ہونا کیا ہوتا ہے ؟اس بیان کے ساتھ ہی میڈیا میں وہ مناظر بھی گردش کررہے ہیں کہ جس میں برما کی فوج اور بدھ مت ملیشیاکے ارکان گھروں سے بھاگتے مسلمانوں کا شکار کھیل رہے ہیں، بندوقیں دھڑا دھڑ گولیاں برساتی ہیں،توپوںکے منہ کھول دیئے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو مارنے کےلئے اس قدر وحشیانہ طریقے استعمال کیے جارہے ہیں کہ کوئی اس طرح سے جانوروں بلکہ کیڑے مکوڑوں کوبھی نہیں مارتا۔

 ایسے ماحول میں آنگ سان سوچی کی ڈھارس بند ھانے کےلئے بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم مودی بھی برما پہنچے ہیں۔ مسلم کشی دونوں کا مشترکہ شوق ہے۔ برما میںتو جو ہورہا ہے سو ہو رہا ہے کروڑوں کی مسلم آبادی والے بھارت میں مودی کے آنے کے بعد خون مسلم کی ارزانی کااندازہ لگانا مشکل ہے۔ جس کا جہاں جی چاہتا ہے مسلمان مردوزن، بچوں، بوڑھوںکو روک کر موت بانٹنا شروع کر دیتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ہی درجنوںمسلمان نوجوانوں کو سرعام تشدد کر کے مارا جارہاہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے مگر ایک بے بسی ہے۔ شام میں بشار الاسد چھ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارچکا۔ ایک کروڑ سے زائد ملک چھوڑ کر دربدرہو گئے۔ صدام حکومت کے دوران مضبوطی کی علامت عراق میں امریکی حملوں اور غیر ملکی مداخلت کے بعد لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ ہنستے بستے لیبیا کو خونخوار قبائل کا جنگل بنا دیا گیا۔ افغانستان میں لاکھوں مسلمان خون کا خراج دے چکے۔ مسلم دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا یہ کھیل اب بھی پوری رفتار سے جاری ہے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حملہ آوروں کی اپنی تاریخ کیا ہے ؟حالیہ تاریخ میں ہٹلر سے اوبامہ تک کیا کرتے رہے ؟کسی کی نگاہوں سے کچھ اوجھل نہیں۔ مسلم ممالک کو ایک منصوبہ بندی کے تحت تقسیم کیاجارہا ہے، آپس میں لڑایا جارہا ہے۔ ایک دوسرے سے لڑنے والے درحقیقت ایک ہی ”ماسٹر مائنڈ“ کے منصوبے میں رنگ بھر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی گروہ بدلے کے نام پر کارروائیاں شروع کرتا ہے تو جلد یا بدیر اسے بھی ہائی جیک کرکے استعمال کرلیا جاتا ہے۔ ایک عام مسلمان ایسے میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔ یہ تو حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کےلئے احساس تحفظ کا سبب بنتے۔ ایسا کرنے کےلئے صرف مالی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ دفاعی طور پر مضبوط ہو نا بھی ضروری تھا۔

بدقسمتی سے وہ مسلم ممالک جو قدرتی وسائل اور دولت سے مالا مال ہیںفوجی حوالے سے بہت کمزور ہیں۔ عیا شیوں کے رسیا انکے حکمرانوں نے دفاع پر توجہ دینے کی بجائے اپنی خود مختاری عالمی استعمار کو ٹھیکے پر دیدی ۔ اگر انہی ممالک نے اپنی دولت اور وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ دفاعی سازو سامان خود تیا رکرنے اور مضبوط فوج بنانے پر توجہ دی ہوتی توآج عالمی سطح پر مسلمانوں کا تشخص ہی کچھ اورہوتا۔ گنے چنے مسلم ممالک جو فوجی طاقت کے حوالے سے قابل ذکر ہیں ان کو اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔ میانمار اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کاحل خود کو اقتصادی اور دفاعی حوالوں سے مضبوط بنانے میں ہی پوشیدہ ہے، ورنہ بدھ راہب بھی خونخوار بھیڑیے بن کر بے گناہوں کو نوچتے رہیں گے۔ شمالی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ اقتصادی طور پر مضبوط نہیں بلکہ بے حد غریب ہے۔ ہر سال ہزاروں شہری قحط اور فاقوں سے مرجاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود اپنے ایٹمی اور ہائیڈروجن بموں کے دھماکے کرکے امریکہ سمیت پوری دنیا پر لرزہ طاری کررکھا ہے۔ شمالی کوریا کے ابنارمل سمجھے جانے والے سربراہ کم جونگ کا انجام چاہے کچھ بھی ہو مگر اس نے ایک بات تو ثابت کردی کہ لڑنے کا عزم اور تباہ کن ہتھیار ایک ساتھ ہو جائیں تو ”سپر پاور“ کی بھی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کوسزا صرف اور صرف جرم ضعیفی کے باعث مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو اپنی پناہ میں رکھے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا عمل کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ ہوا ہوتا تو عالمی ردعمل کیا ہوتا؟

ایسٹ تیمور میں تو کچھ زیادہ ہوا بھی نہیں تھا مگر انڈونیشیا سے کاٹ کر آزاد کر دیاگیا۔ کرہ ارض پر موجود مٹھی بھر یہودیوں کے بارے میں تو سچ بولنے کی بھی اجازت نہیں۔ انہیں نقصان پہنچاناتو دور کی بات ”ہولوکاسٹ“ کے بھونڈے جھوٹ پربات کرنا بھی جرم ہے کیونکہ اسرائیلی نہ صرف عالمی معیشت پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ اسلحہ سازی میں بھی بے پناہ آگے بڑھ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ روہنگیا سمیت دنیا بھرکے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ ان کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے دنیاوی اسباب کےلئے ابھی تک کوئی بھی مسلم ملک دوردور تک نظر نہیں آتا،کوئی معجزہ ہی رونما ہو سکتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب بوسنیا کے مسلمانوں کو بھی خوفناک طریقوں سے مارکر لاشوں کو ٹکڑوں میں تبدیل کیا جاتارہا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمران تو ڈھنگ سے احتجاج بھی نہ کر سکے۔ غیر مسلم امریکہ کے صدر بل کلنٹن کا دل پسیج گیا۔ جس نے حملہ آور یوگو سلاویہ پر حملہ کرکے اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).