شادیاں پہلے سادی سی کیوں ہوتی تھیں


میرے منجھلے چچا کی شادی سن نوے میں ہوئی، پچاسی گز کے اُس مختصر سے مکان کی مرکزی بیٹھک میں دادی نے بڑی سی  چاندنی بچھا کر اس پر باسمتی چاولوں کی دو بوریاں اُلٹ دیں، مقصد یہ کہ جو بھی مہمان عزیز رشتہ دار آئے وہ اِدھر اُدھر کونوں کھدروں میں اوپر نیچے بیٹھنے کے بجائے چادر کے اطراف میں کہیں جگہ بنائے اور چاول بیننے میں مصروف ہوجائے، یوں اس چھوٹے سے دودھیہ ٹیلے کی بدولت ایک دوسرے سے آئی کانٹیکٹ بنا رہے، باہمی گفتگو ہو، رونق لگے اور سب یہ ماحول انجوائے کریں، ورنہ چاول بِنوانا تو یقیناً ایک بہانہ ہی تھا۔ ایک ہفتے پر مشتمل اُن تقریبات کی کئی اور یادیں کم و بیش ستائیس سال گزرنے کے بعد بھی میرے ذہن پر نقش ہیں۔  اُس زمانے میں شادی ہالوں اور مہنگے پرتعیش بینکوئٹس کے چونچلےنہیں تھے، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں تقریبات کا شوق بھی جدی پشتی رئیس ہی پورا کیا کرتے ہونگے۔ عام آدمی ناشتے سے فراغت پاکر دن بارہ بجے کے  قریب  نزدیکی ڈیکوریشن والے سے شامیانے اور اشیائے ضروریہ کی چِٹ کٹواتا، عصر تک گھر کے سامنے سڑک پر کھونٹے گڑتے اور مغرب ہوتے ہوتے تنا ہوا شامیانہ روشن ہوجاتا۔

اس دوران لائٹنگ والا عمارت کی بالائی منزل سے برقی قمقوں کے رنگ برنگے جھالر گراتا اور شادی مبارک کا جھلملاتا الیکٹرک بورڈ بھی روشن ہوجاتا۔  ڈیکوریشن والوں کی قناطوں کا پیٹرن ایک عرصے تک نہ   بدلا۔ ضرورت بھی محسوس نہ  ہوئی۔ جیسے نیلے اور سرخ رنگوں کی بڑی بڑی رِلیّاں تان دی گئی ہوں، آٹھ ضرب چھے کے دائرے میں کئی مثلث اور چوکور خانے اُس دور کے شامیانوں کا شاید واحد اور پسندیدہ ڈیزائن تھا۔ قناتوں کے کناروں پر لچھے دار سوراخ رسیاں پِرونے کے مقصد سے  بنائے جاتے لیکن ان سے زیادہ فائدہ محلے کے بچے اور ٹو میں رہنے والیاں تانکا جھانکی کر کے اٹھاتے۔ یہ دائرے والی میزوں کا رواج بھی زیادہ پرانا نہیں ورنہ اُس وقت کرسیاں قطار در قطار لگتیں اور سب کا منہ اسٹیج رو ہوا کرتا تھا۔

نارجنی رنگ کے چار عدد پلاسٹک کے ٹکڑوں پر مشتمل کرسی کو لوہے کا فرہم سہارا دیتا تھا،  یہ وہی کرسی تھی جس کی نشست پر بیٹھتے ہوئے اُس دور کے تقریبا ہر باراتی کی کھال پلاسٹک کے دوٹکڑوں کے درمیان کم از کم ایک مرتبہ ضرور آئی ہوئی ہوگی، اور جن کو پچھلی تقریب یاد ہوتی تھی وہ ذرا سنبھل کر بیٹھا کرتے تھے۔ اُس طرح کے سیٹ اپ میں اکثر گنجائش کا مسئلہ ہوجایا کرتے تھا جسے مہمان اور میزبان دلوں میں موجود گنجائش سے حل کر لیا کرتے تھے۔ اوروں کی طرح چچا کی شادی میں بھی کھانے کا مینو روایتی اور چوں چرا سے آزاد تھا  یعنی بریانی کے ساتھ رائتہ اور قورمے کے ساتھ شیرمال یا تافتان،  میٹھے میں سبز سرخ اشرفیوں والا زردہ یا کھیر کی ڈھوبریاں،  کولڈ ڈرنکس کے کریٹ،  چلو جی اللہ اللہ خیر صلا۔  چونکہ نکاح شامیانے کے اسٹیج پر ہی پڑھنے کا رواج تھا لہذا دعا کے فوراً بعد عموماً دس ساڑھے دس تک کھانا کھول دیا جاتا تھا۔

کھانا لگ گیا ہے، یہ خبر براتیوں تک پہنچانے  کے لئے بیرے اسٹیل ڈشز کے ڈھکن میزوں کے نیچے کھردری سڑک پر زور سے چھوڑ دیتے، بلکہ بعض مرتبہ تو  کنڈے پکڑ کر فرش کے ساتھ باقاعدہ ڈرم کی طرح بجاتے، اس سے جو آواز پیدا ہوتی اسے طبل طعام کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے بعد مہمان کھانے کی میزوں پر یلغار کر دیتے تھے، چونکہ پلیٹیں رکھنے کے لئے میزوں کا کوئی انتظام نہ ہوتا تھا اس لئے جنھیں کھڑے کھڑے سالن کی پلیٹ اور شیرمال ایک ہاتھ میں لیکر دوسرے ہاتھ سے ٹکڑا توڑنے،  لقمہ بنانے اور اُسی ہاتھ سے نوالہ منہ تک پہنچانے کا ہنر نا آتا وہ کسی بھی خالی ہوئی کرسی کو اپنی جانب سرکالیتے، بے شک کوئی برا مانتا ہے تو مانتا رہے، جنگ اور شادی کے کھانے کے دوران سب جائز ہے۔

غالباً پہلے اس بات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا کہ پلیٹ میں چاول یا سالن پیٹ میں گنجائش اور بھوک کے حساب سے نکالا جائے، اس وقت کے بڑے بھی بچوں کو ٹوک دیا کرتے تھے یا کوشش کرتے کہ انہیں اپنے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں شامل کرلیں۔  ہاتھ سے کھانے والوں یا چاولوں پر قورمے کا مصالحہ ڈالنے والوں کو خلائی مخلوق کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔  پانی کے بعد گلاس رائتہ انڈیل کر پینے کے لئے استعمال میں آتے تھے اور ہر مرتبہ پودینے والے رائتے کو نظام ہاضمہ ٹھیک رکھنے کا بہترین نسخہ بتایا جاتا تھا۔

اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ کسی وجہ سے شرکت  نہ کرنے والے عزیز رشتہ داروں کا کھانا انکے کسی اپنے یا ساتھ رہنے والے کے سپرد کر دیا جائے، غیر حاضری کے گلے شکوے کبھی بعد کے لئے اٹھا کر رکھ دئیے جاتے تھے، تقریب کے اختتام پر فوٹو سیشنز کے لئے قطار میں لگنے کے بجائے میزبان کو لفافہ پکڑانے، نوبیاہتا جوڑے سے ملنے اور بڑوں سے سر پر ہاتھ پھروانے کا رواج عام تھا، شاید اب بھی ہے لیکن بگڑی ہوئی شکل میں ۔ مجھے آج کل کی شادیوں میں جاکر  اس لئے بھی مزا نہیں آتا کہ ہر بار گاڑی میں بیٹھنے کے بعد پتہ لگتا کہ درجن بھر ڈشوں میں فلانی ڈش بھی تھی جو میں نہیں چکھ سکا اور جو بہت لذیز تھی، فلانے رشتہ دار بھی موجود تھے لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کے سبب نہ ان کی نظر مجھ پر پڑی نہ  میری اُن پر ۔۔

اسٹیج پر نہ  نکاح کا خطبہ پڑھا جارہا ہے نہ دولہے کا سہرا،  نہ بچے چھوارے بانٹنے والے انکل انٹیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں نہ بیروں کو بھاگو دوڑو کی ڈانٹ سنائی دے رہی ہیں ۔ اے سی بینکوئٹس ہال میں اچانک  اندھیرا کر کے دولہے دولہن کے چہروں پر اسپاٹ لائٹ ڈالی جاتی ہے اور تیز آواز میں گانا چلتا ہے کہ ۔۔ گلی میں آج چاند نکلا ۔۔ یقین جانیے اُس اندھیرے میں جب کسی کرسی سے اٹک کر کوئی بچہ گرتا ہے تو اس کا رونا ساتھ بیٹھی ماں کو بھی سنائی نہیں دیتا ۔ اسٹیج کسی منی اسٹوڈیو کا منظر پیش کرتا ہے جس پر فوٹو گرافر سمائل سمائل پکارتے آپ کی مسکراہٹ کو قید کرنے کی کوششوں میں ہوتے ہیں۔

نیکسٹ کی آواز پر آپ کو اس مسکراہٹ کا بلب بجھا کر اگلے کے لئے جگہ خالی کرنی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ دولہے کو گلے سے لگانے یا دولہن کے سر پر ہاتھ رکھنے، ان سے دو باتیں کرنے کا وقت ملتا ہے بعض دفعہ نہیں ملتا ، لیکن اب کسی کو کوئی جیسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، نظریں گھڑی پر ہوتی ہیں۔ بارہ بجے لائٹیں بند ہوں اس سے پہلے پہلے ایگزٹ گیٹ پر پہنچ کر پان منہ میں رکھنا ہے اور گھر کی راہ لینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).