ایک سینئیر صحافی حلقہ 120 کی خفیہ خبر دیتے ہیں


حلقہ 120 کی رپورٹ یہ ہے کہ لاہور بھر کے تمام لیگی کونسلروں اور کارکنوں کی صبح روز حلقہ 120 میں باقاعدہ رجسٹر پر حاضری لگائی جاتی ہے۔ ہر ایم این اے اپنے اپنے حلقے کے کونسلروں کی گنتی کرتا ہے اور ان کے ذمے کام لگاتا ہے۔ شام کو وہ دیر تک ادھر موجود ہوتے ہیں اور اپنی دن بھر کی کارکردگی کی رپورٹ جمع کروانے کے بعد ان کو چھٹی دی جاتی ہے۔ لیگی کارکنوں کو یہ تو پکا یقین ہے کہ ان کو فتح ہو گی مگر لیڈ کتنی زیادہ ہو گی، اس کے بارے میں مشکوک ہیں۔ کہتے ہیں کہ میاں صاحب کی طرح بیگم کلثوم نواز کو دگنی لیڈ تو نہیں ملے گی، مگر اچھی خاصی ہو گی۔

ہمیں یہ اطلاع پا کر یقین ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ ن بہت بڑی لیڈ سے جیت جائے گی۔ اگر آپ کی ہماری طرح تاریخ پر ایک عمیق نگاہ ہو تو آپ کو اتفاق کرنا پڑے گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ حاضری ایم کیو ایم کی ایک اہم روایت ہے۔ ہم افواہیں سنتے رہے ہیں کہ ادھر نائن زیرو پر وقت پر نہ پہنچنے کی پاداش میں رابطہ کمیٹی کے معزز اراکین کو بھی دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ الطاف بھائی کی اسی بہترین تربیت کا اثر تھا جس نے کارکن تو کارکن راہنما بھی نہ چھوڑے اور سب کراچی کے بحر ظلمات کے الیکشن میں خوب دوڑے۔ کسی نے دوڑنے میں کوتاہی کی تو اس کی گنجی چندیا پر کفش کاری کر کے اس کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ لگتا ہے کہ شریف برادران ادھر لندن میں الطاف بھائی سے تنظیمی سیاست کی کلاسیں لے رہے ہیں۔

دوسری طرف تحریک انصاف والے پتہ نہیں کیا کر رہے ہیں۔ ان کے متعلق سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار تک کوئی خبر نہیں پہنچی ہے۔ صرف یہی پتہ چلا ہے کہ جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے لیگی لیڈر بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا کر دیا ہے جو عمران خان کا ووٹ توڑے گا۔ تحریک انصاف والے بتا رہے ہیں کہ ملک بھر کی یوتھ ان کے ساتھ ہے اور ملی مسلم لیگ کا امیدوار مسلم لیگ نون کا ووٹ توڑے گا کیونکہ وہ زیادہ محب وطن لیگ ہے۔ پیپلز پارٹی کے چھوٹے چھوٹے لیڈر بتا رہے ہیں کہ ان کے امیدوار نے کیس کر دیا ہے اور کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔

اب آپ پوچھیں گے کہ یہ سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار کون ہے جس نے اتنی اہم خبریں دی ہیں۔ وہ بھی آپ کو بتاتے چلیں۔

ہماری ایک فضول سی روایت ہے کہ لکھنے والے اپنی خودی کو نہایت گرا کر خود کو عاجز، خاکسار، درویش، ہیچمدان، ننگ اسلام لکھتے تھے۔ اب ان کو احساس ہوا ہے کہ لوگ ان القابات پر ہنستے ہیں تو وہ خود کو طالب علم مشہور کرنے لگے ہیں۔

دوسری طرف آغا حشر کاشمیری کا قول ہے کہ بندہ خود ہی اپنی عزت نہ کرے تو کوئی دوسرا کیوں کرے گا؟ ابن انشا بھی اپنے لافانی مضمون ”استاد مرحوم“ میں اسی حقیقت کے راوی ہیں کہ استاد اللہ دین چراغ ریواڑوی تو بہ سبب انکساری خود کو ننگ اسلاف لکھتے تھے مگر دیکھا دیکھی معاصرین نے بھی ان کو یہی لکھنا شروع کر دیا۔

تو دونوں گروہوں کے دلائل پر عمیق غور و فکر کرنے کے بعد اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ خود کو ”طالب علم/درویش/عاجز/خاکسار/وغیرہ/وغیرہ“ کی بجائے ”سینئر صحافی اور تجزیہ نگار“ لکھا کریں گے۔ اب اسے خودستائی ہرگز مت سمجھیں کہ یہ لقب ہم نے خود اختیار کیا ہے۔ یہ خطاب ہم نے اپنی محنت سے پایا ہے۔

ہوا یوں کہ کوئی ڈیڑھ برس قبل اچانک ایک صاحب نے ہمارے مضامین پڑھ کر نہایت تعجب و تاسف کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ ”حیرت ہے کہ آپ جیسا سینئیر صحافی اتنی زیادہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے“۔ ہم نے سوچا کہ شاید وہ ہمیں کسی دوسرے شخص سے کنفیوز کر رہا ہے اس لئے نظرانداز کر دیا۔ ہمیں خود پر کبھی سینئیر کیا صحافی تک ہونے کا گمان نہیں ہوا تھا۔ مگر جب ایک مختصر عرصے میں کئی افراد نے ایک سینئیر صحافی اور تجزیہ کار کی غلط بیانی پر گرفت کی تو ہمیں بہ امر مجبوری 21 کروڑ عوام کی طرف سے دیا گیا یہ خطاب قبول کرنا پڑا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar