جمہوریت دشمنی ہی انتہا پسندی ہے


چھ ستمبر کی شام آرمی چیف نے یوم دفاع کی تقریب میں ایک اہم تقریر کی۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ جہاد کرنے پر صرف ریاست کو اختیار ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فرمایا ہے کہ پاکستان کی ریاست خود بھی برکس اعلامیے میں نامزد تنظیموں کی مخالف ہے۔ اگر ایسا ہے تو وزیر دفاع خرم دستگیر نے برکس اعلامیے کے کس حصے کو مسترد کیا تھا۔ ادھر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں انتہا پسندی کے بارے میں ایک مسودہ قانون تجویز کیا گیا تھا۔ قائمہ کمیٹی میں اتفاق نہیں ہو سکا کہ یہ معاملہ وزارت دفاع سے تعلق رکھتا ہے یا وزارت داخلہ سے۔ وزیر دفاع خرم دستگیر ہیں اور داخلہ امور احسن اقبال کے سپرد ہیں۔ دونوں زعما میں خوشگوار تعلق بتایا جاتا ہے۔ وہ دن گئے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر دفاع خواجہ آصف باہم بات چیت کے روادار نہیں تھے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو یکسر مسترد نہیں کر سکتے۔ برکس اعلامیے کا سامنا کرنے کی سیاسی اور معاشی سکت نہیں رکھتے مگر یہ کہ ٹیلی وژن کی سکرین پر اور گلی چوراہے میں ایسی دھواں دھار خطابت کو ہوا دے رہے ہیں جس کے حتمی نتیجے میں انتہا پسندوں کے لیے پناہ گاہ نکل آتی ہے۔ ہم شرح صدر کے ساتھ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ انتہا پسندی ہے کیا؟ اس کا تعلیمی نظام اور نصاب سے کیا تعلق ہے؟ انتہا پسندی غیر جانبدار سیاست کا نقاب اوڑھ کر انتخابات میں کیسے اترتی ہے؟ دستور کا آرٹیکل 20 واضح ہے لیکن اس کی تشریح کیلاش بچیوں کے ضمن میں کچھ اور ہے، سندھ کی ہندو بچیوں کے ضمن میں یہ تشریح بدل جاتی ہے۔ واحد بلوچ بازیاب ہوتے ہیں تو ننگر چنا گم ہو جاتے ہیں۔ کتاب ماتم میں ہے۔

طلبہ اور طالبات کے تحقیقی کام پر زبانی امتحان کا مرحلہ درپیش تھا۔ استاذی حسین نقی نے شفقت فرمائی۔ نہایت خراب انگریزی زبان میں لکھے مستعار خیالات کا پلندہ لفظ بہ لفظ پڑھ رکھا تھا۔ ایسی مشقت حسین نقی ہی کا حصہ ہے۔ فانی انسانوں کی طبیعت اوبھ جاتی ہے۔ تحقیقی مقالوں پر جا بجا نشان لگا رکھے تھے۔ سوال پوچھے، حوالے دریافت کیے۔ بچوں کو رخصت کر کے فرمایا کہ بہت طرح دار اور ذہین نوجوان ہیں۔ عرض کی ’استاد محترم، یہ بچے یونیورسٹی میں آئے تو ان کی تعلیمی بنیادیں مضبوط تھیں۔ ہم نے ان کا حلیہ اور عاقبت بگاڑنے کی اچھی خاصی کوشش کی۔ جو کچھ باقی بچا، گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ دوسرے یہ کہ آپ ایسے خورسند نہ ہوں۔ یہ بچے پاکستان میں ٹکنے کے نہیں ہیں۔ ایک آدھ سال میں بیرون ملک چلے جائیں گے۔ ہمارے حصے میں مٹی کے گھگو گھوڑے رہ جائیں گے‘۔ کوئی لمحہ عجیب ناشدنی کی گھڑی ہوتا ہے۔ 2012 کو فقط پانچ برس گزرے ہیں۔ ان طالب علموں میں سے ایک بھی اب پاکستان میں نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی ذہانت چٹیل زمین اور نیلے آسمان کے درمیان تیرتے بادلوں میں پرواز کرنے نکلتی ہے تو معاشرے میں دھندلے بادل کے احترام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ درمیانے درجے کی ذہانت کو معیشت اور سماج میں کھپانا کچھ مشکل نہیں۔ مسئلہ تو ان دماغوں کے ساتھ پیش آتا ہے جنہیں نئی زمینیں دریافت کرنا ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے بارے میں حساس ڈیٹا حساس تر اداروں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس پر صرف ایک شخص بولا، رضا ربانی! چیئرمین سینیٹ رضا ربانی فرماتے ہیں کہ ذاتی معلومات تک ایسی رسائی سے طالب علموں میں خوف و ہراس پھیل جائے گا۔ نصاب اور کمرہ جماعت کے بارے میں زیادہ نفیس ضابطہ اختیار کرنا چاہئیے۔ رضا ربانی کی کیا پوچھتے ہیں۔ وہ تو آزاد دانشور ہیں۔ دائیں بائیں، اگاڑی پچھاڑی، دھول اڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ دانش کا مقام تو آصف علی زرداری نے پہچانا۔ آصف علی زرداری کی سیاست وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے دانش کی حدود ختم ہوتی ہے۔ قائم چاند پوری کی زمین تھی اور استاد ناصر کاظمی نے غزل کہی تھی، دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے…. ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے…. بوئے خوں ہے ایاغ میں گل کے….

آصف علی زرداری کی سیاست میں جمہوریت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔ علم والے لوگ کہتے ہیں کہ سیاست کٹر نظریات کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ سیاست تو موجود اور امکان کے درمیان پل باندھنے کا کام ہے۔ اس میں صرف ایک سخن گسترانہ نکتہ یاد رکھنا ہے کہ ہمارے پیچھے آخری لکیر کہاں ہے؟ ہماری تزویراتی گہرائی کی حدود کیا ہیں؟ کہاں تک پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟ اگر اس لکیر سے پیچھے جانا منظور ہے تو آگے نہیں بڑھ سکتے۔ محمد خان جونیجو کو سندھڑی بھیج کر جو جمہوریت ہم نے حاصل کی، اس میں وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کا اختیار موجود نہیں تھا۔ عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو…. وزارت عظمیٰ ملتی ہے تو وزارت خارجہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ برما میں نصف صدی کے بعد جمہوریت بحال ہوتی ہے تو وزارت خارجہ بخش دی جاتی ہے، وزارت عظمیٰ کی خبر نہیں۔ آج کل کچھ احباب کی سوچ ہے کہ 1990، 1996 اور 2012 کی ناانصافیوں کے ازالے کا وقت آ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1993 میں جمہوریت کی حرمت بیان کرنے کا حق اسے پہنچتا تھا جس نے 1989 میں مڈ نائٹ جیکال کو للکارا ہو۔ میر مرتضی بھٹو کے ماتم میں سیاہ پوشی اسے اچھی لگتی ہے جس نے 1993 میں غلام اسحاق خان سے ہاتھ نہ ملایا ہو۔ پانامہ کیس کے حقائق وہ بیان کرے، جس نے میمو گیٹ پر احتجاج کا آوازہ اٹھایا ہو۔ ہمسایہ ملک میں ایک باہمت صحافی گوری لنکاش کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان نفرت، تعصب اور تفرقے کی فصل کاٹ رہا ہے۔ اس میں ہمارے لیے خوش ہونے کا کوئی مقام نہیں۔ روئے خزاں میں وہ جو ہنسا ہو بہار میں۔

انتہا پسندی نام ہے جبر، زور آوری اور ناانصافی کی کہانی کا۔ جو اصول ہم قانون کی کتاب میں نہیں منوا سکتے، ووٹ کے ٹکڑے پر درج نہیں کر سکتے، اخبار کے صفحے پر لکھ نہیں سکتے، اسے بندوق کی گولی سے جیتنا چاہتے ہیں؟ انتہا پسندی مکالمے سے انکار ہے۔ جمہوریت مکالمے سے عبارت ہے۔ انتہا پسندی سے باہر نکلنے کا راستہ جمہوریت کی گلی میں کھلتا ہے۔ ہم جمہوریت کا دروازہ تیغہ کر دیتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کا مقابلہ کریں گے۔ جمہوریت کے دشمن ہی انتہا پسندی کے پاسبان ہیں۔ جمہوریت کم تعداد والے گروہوں، کمزور طبقات اور دلیل دینے والوں کے ساتھ بات کرنے کی ثقافت ہے۔ جمہوریت میں سوال کو احترام دیا جاتا ہے۔ بادل کو محبت کی آنکھ سے دیکھا جائے گا تو تپتی ہوئی زمین پر بارش کا چھینٹا پڑے گا۔

ہمارے آئین میں ریاست کو مقننہ کے منظور شدہ دستور اور قانون ٍکے تحت طاقت کے استعمال پر اجارہ بخشا گیا ہے۔ یہ اختیار دستور کے آرٹیکل دس الف کے تابع ہے۔ شفاف سماعت کا اصول نطام عدل کی بنیاد ہے۔ دستور کی دفعہ 245 میں دفاعی خدمات کا دائرہ کار بیان کیا گیا ہے۔ آئین میں جہاد کی اصطلاح سرے سے موجود ہی نہیں۔ جہاد کی تشریح پہ اختلاف ہے۔ دستور میں ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع فوج کو سونپا گیا ہے۔ ریاست کے سیاسی اور معاشی مفادات بھی ایک حقیقت ہیں۔ سیاسی اور معاشی مفادات پر مکالمہ جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ریاست کی نظریاتی سرحدوں کا تعین سیاسی عمل اور جمہوری ضابطے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس بحث کو سمیٹ لیں۔ انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے جمہوریت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ قوم کے مفادات کا تعین عوام کی رائے سے ہو گا۔ سوال گردن زدنی نہیں ہوگا۔ اختلاف کا احترام کیا جائے گا۔ اور یہ طے کیا جائے گا کہ انتہا پسندی وزارت دفاع سے تعلق رکھتی ہے، یا وزارت داخلہ سے؟ انتہاپسندی سے فارن آفس کو نمٹنا ہے یا وزیر تعلیم کو؟ اگر یہ منظور طبع نہیں تو آشفتہ خاطر دلوں کے لئے وزارت مذہبی امور سے ایک دفتری سرکلر جاری کرنا بھی کافی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).