برما کے مظلوم مسلمان


یہ بات درست ہے کہ برما کے مسلمانوں کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ عالمی ضمیر اس معاملے پر ہمیشہ کی طرح غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ جس بے دردی سے مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں ہے کہ سوشل میڈیا نے ان مظالم کو اجاگر کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس بات سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ مسلم امہ اس مسئلے پر خاموش ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ترکی کی جانب سے جو ولولہ انگیز بیانات آئے اس کے علاوہ بین الاقوامی دنیا سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ یہ بھی ایک سچ ہے کہ ساری دنیا میں اس بربریت کے خلا ف شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی بھائی اپنے برمی بھائیوں کے لیے خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری اسمبلی اور سینٹ اس معاملے میں مذمتی بیانات سے آگے نہیں گئے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ کسی نے قتل کیے جانے والوں کی تعداد چار سو بتائی ہے کسی نے تین ہزار کا ہندسہ اخذ کیا ہے۔ درست تعداد کسی کو نہیں معلوم اس لئے کہ جنگ میںلاشوں کی گنتی کی کسی کو فرصت نہیں ہوتی۔ یہ بھی سچ ہے کہ آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینی کی قرارداد کسی بین الاقوامی فورم پرمنظور نہیں ہوئی لیکن انٹرنیٹ پر آخری اطلاعات کے مطابق اس پر تین لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دستخط کر دیئے تھے۔ اقوام متحدہ بھی ا س معاملے سے صرف نظر کر رہی ہے۔
پاکستان میں وزیر خارجہ نے روہنگیا مسلمانوں سے مکمل یک جہتی کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے ریلی نکالنے کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔ احتجاج کی صورت میں ممکنہ تباہی سے بچنے کے لیئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں کنٹینر بھی لگا دیئے گیے ہیں۔ ملک میں موجود مختلف مذہبی جماعتوں نے اس مسئلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔جگہ جگہ مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہر فرقے کے پیشواوں نے اس بدترین ظلم کی مذمت کی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ تیس مسلم ممالک کے اتحاد کہ جس کی قیادت پاکستانی سپہ سالار کے سپرد ہے اس نے ابھی تک پائے نازک کو جنبش نہیں دی ہے۔پاکستانی دانشوروں نے اس انسانی المیے پر برما کے مسلمانوں کو یک جہتی کا پیغام دے دیا ہے۔ اینکروں نے ماتم بھرے پروگرام کر دیئے ہیں۔ قوم اس وقت شدید غم وغصے کی کیفیت میں ہے۔ فیس بک پر ایک بچی نے عربی میں تقریر کرکے مسلم امہ کو للکار بھی دیا ہے۔ اپنے جوش خطابت سب مسلمانوں کو شرم بھی دلائی ہے۔ فیس بک پر ہی لوگوں نے برما کے مسلمانوںکے ساتھ یک جہتی میں اپنی ڈٰ ی پی بھی اسی یک جہتی کے پیغام سے رنگ لی ہے۔ ٹوئیٹرپر لوگوں نے بہیمانہ وڈیوز شیئر کر کے لوگوں کو غیرت دلائی ہے۔وٹس ایپ پر ان مسلمانوں کی مشکل آسان کرنے کے لئے دعائیں شیئر کی جا رہی ہیں۔ اخبارات میں خبریں انہی مسلمانوں کے خون سے رنگی ہیں۔ کالم نگاروں نے غم کے اظہار کے لیے وہ، وہ ترکیبیں استعمال کی ہیں جگر پاش پاش ہو جاتا ہے۔شاعروں نے المیہ نظموں میں آنسو بھر دیئے ہیں۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اس ظلم کو اب ختم ہونا چاہیے۔ ہر فرد ، ہر طبقہ اس بات پر یک زبان ہے ۔ سب فرقے متحد ہیں۔ سب سیاسی پارٹیاں متفق ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد برما میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ سویلین اور فوجی شہدا کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ستر ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے دہشت گردی کی اس عفریت پر کبھی بھی مذہبی جماعتوں کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم قاتلوں میں سے اچھے اور برے قاتل تلاش کرتے رہیں ۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیںکر سکتا کہ سیاسی جماعتوں کا اس معاملے میں کبھی بھی ایک مشترکہ، مستحکم موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس بربریت کے باوجود کچھ سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کو دفتر کھولنے کی پیش کش کر چکی ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ مدرسہ حقانیہ کو انکے احسن اقدامات کے صلے میں تیس کروڑ روپے کی امداد بھی دی گئی ہے۔یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بھرپور عوامی موقف کبھی سامنے نہیں آیا۔ کبھی شہر شہر ریلیاں نہیں نکلیں کبھی قریہ قریہ جلوس نہیں نکالے گئے۔یہ بھی سچ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جماعت اسلامی نے کبھی احتجاج کا منصوبہ نہیں بنایا۔ یہ بات سچ ہے پارلیمان کا کردار اس معاملے میں ہمیشہ معذرت خواہانہ رہا ہے۔ یہ بھی سب نے سنا ہے کہ ایک صوبے میں کہا گیا کہ دہشت گردوں کے نظریات ہم سے مطابقت رکھتے ہیں اس لیے وہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں اس معاملے پر کبھی غیرت نہیں آئی۔ جنگ میں لاشوں کی گنتی کی اہمیت نہیں ہوتی لیکن چار سو برمی مسلمانوں اور ستر ہزار پاکستانیوں میں تعداد کا فرق بے پناہ ہے۔سوچنا چاہیے کہ ہمارا خون اتنا ارزاں کہ عالمی ضمیر کو تو چھوڑیں خود ہمارے دل موم نہیں ہو رہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ دہشت گردی کا یہ ظلم ہماری دو جنگوں کا نتیجہ ہے۔ ایک جنگ وہ تھی جب ہم جانے کیوں روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے لگے تھے۔ ہمارے دل میں افغان بھائیوں کا درد جاگا تھا۔ دو ملک یک جان یک قالب ہو گئے تھے۔ روس کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے مجاہدین کی نرسریاں خود اپنے آنگن میں لگائی تھیں۔ خود بم بنانے کی تربیت دی تھی۔ خود جہاد کی تلقین کی تھی۔ خود ہی آتشیں اسلحہ کا استعمال بتایا تھا۔ خود مدرسے قائم کیے تھے۔ خود ہی دوکانوں پر چندے کی صندوقچیاں سجائی تھیں۔ خود ہی فاتح جیسی کتب کی پذیرائی کی تھی۔ خود ہی ایک ڈکٹیٹر کو امیر المومنین کا خطاب دے دیا تھا۔ خود ہی افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کے خواب دیکھے تھے۔ دوسری جنگ وہ تھی جب نائن الیون کے بعد ہمیں حکم ملا تھا کہ اب بند کرو یہ کاروبار۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرو۔ اس بار بھی ہم نے جنگ کا آغاز انہیں کے خلاف کیا جن کو ہم نے پالا ، پوسا اور سینچا تھا۔ اب انہیں مدرسوں سے جنگ تھی جنہیں ہم نے خود تربیت دی تھی۔ اب دونوں طرف سے اللہ اکبر کا نعرہ لگ رہا تھا۔ چہیتے جانباز دشمن بن گئے تھے۔ان دو مسلسل رہنے والی جنگوں میں ہمارے کتنے نوجوان شہید ہوئے،کتنے جسم چھلنی ہوئے، کتنی مانگیں اجڑ گئیں، کتنے بچے جان سے گئے، کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں ، کتنی خوشیاں ماتم ہوئیں اس کا شمار نہ ہم نے کیا ہے نہ مسلم امہ کے پاس اتنی فرصت ہے۔نہ ہمیں ان جانوں کا احساس زیاں ہے نہ ہمارے عوام کو ان جنگوں میں جھونکے جانے کی وجہ معلوم ہے۔نہ اس بارے میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلے ہیں نہ بچوں نے لککار للکار کر تقریریں کی ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ برما کے مسلمانوں پر بات کرنا فیش ہے اور اپنی ہاں کی دہشت گردی کا تذکرہ آوٹ آف ڈیٹ بات ہے۔
یہ بات درست ہے کہ برما میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہیے۔ بربریت کے خلاف مظاہرے بھی کرنے چاہیں لیکن پہلے اپنے گھر کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اپنے آپ پر ہونے والے ظلم کا ماتم بھی کر لینا چاہیے۔ اپنی مسخ شدہ شناخت پر آنسو ضرور بہا لینے چاہیں۔ دنیا کے غم بہت اذیت ناک صحیح لیکن پہلے اپنے جلتے مکان کی آگ کو بجھا لینا چاہیے۔اپنی لاشوں کو دفنا لینا چاہیے۔
آپریشن رد النواز کی شاندار کامیابی کے بعد ہمیں ایک لمحے کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ برکس کا اعلامیہ ہمیں کیا بتا رہا ہے، ٹرمپ کا خطاب کون سی تصویر دکھا رہا ہے؟ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے؟ ہماری اپنی غلطیاں کہا ں ہیں؟ ہمارے اپنے قصور کیا ہیں؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar