اس نے کہا، تم بڑے کافر ہو


’’ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ یہ شعری مجموعہ سید مبارک شاہ کا ہے۔ جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ان کا اک شعر ہے

مکاں اپنی جگہ رکھے ہوئے ہیں
مکیں سارے ٹھکانے لگ گئے ہیں

موصوف ہماری نوکر شاہی کے ستون تھے۔ 2015ء میں انہوں نے پردہ فرما لیا۔ میں ان کی کتاب کے نام پر غور کررہا تھا۔ ان کی یہ کتاب1995 میں شائع ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ مبارک شاہ نے’’ہم‘‘ کیوں لکھا۔ مجھے اپنی ذات کے کافر کی فکر لگی رہتی ہے۔ میری ہی باتوں کو سن سن کر ایک دن میری نصف بولیں ’’بڑے کافر ہو تم‘‘ بس وہی زندگی کا حاصل لگا۔ یہ بات اصل میں خواب کی ہےکہ میں ڈاکٹر شائستہ کو کسی مسئلہ کے بارے میں رائے دے رہا ہوں اور وہ بڑے غصہ میں کہتی ہے بس۔ میں دوبارہ بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو پھر وہی جواب ملتا ہے۔ میں چپ سا ہوجاتا ہوں اور اداس ہوں تو محترمہ مسکرا کر کہتی ہیں’’بڑے کافر ہو تم‘‘ اور اس کے ساتھ مجھے احساس ہوتا ہے کوئی مجھے جاگنے کو کہہ رہا ہے۔

میں آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں کہ خواب کا تسلسل تو نہیں، مگر کھلی آنکھ کے سامنے نظارہ اور تھا۔ میری نصف فرما رہی تھیں۔ اب آپ سوتے میں بھی سوچتے اور بولتے ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، وہ کیسے؟ وہ فرمانے لگیں، مجھے لگا آپ کچھ کچھ بول رہے ہیں یا پھر دبائو پڑگیا ہے۔ سو میں نے آپ کو بیدار کر دیا۔ میں اس کو خواب سنانے لگا۔ وہ بولی، آپ کس مسئلہ پر واعظ فرما رہے تھے۔ وہ تو مجھے یاد نہیں آیا مگر میں نے اس سے شکایت کی تم نے مجھے خواب میں بھی خاموش کروانے کی کوشش کی۔ وہ میرا خواب سن چکی تھی۔ شکر ہے مسکرائی اور کچھ بولی۔ بس میں بھی خاموش ہی رہا اور میری خواہش تھی کہ وہ مجھے کہتی’’تم بڑے کافر ہو‘‘ کاش! وہ مجھے پہچان لیتی۔

مجھے اپنی پہچان سے ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے۔ اس دنیادار معاشرے میں اگرچہ پہچان ضروری ہے مگر مجھے اپنا بہروپ بہت ہی اچھا لگتا ہے اس روپ اور بہروپ کے کارن لوگ احباب، مہر بان، قدردان سب ہی میری تعریف اور توصیف کرتے ہیں۔ میں بھی ان سے خلوص رکھتا ہوں۔ ہاں ذرا مخلص ہونا اور بات ہے۔ ایک تو اچھی نیند میرا مسئلہ ہے۔ اب میری نیند بہت کم ہوگئی ہے۔ اس کی شکایت بھی نہیں کر سکتا معالج حضرات کا کہنا ہے۔ سب ٹھیک سا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے، مگر بے چینی، بے کلی، گھبراہٹ اور نیندکی کمی ضرور ہے۔ میری نصف کو شکایت ہے کہ میں جاگتے میں بھی خواب دیکھتا ہوں۔ میری رائے مختلف ہے۔ میں خواب سوچتا ضرور ہوں اور دیکھ نہیں رہا اور نہ ہی نظر آتے ہیں، مگر نیند کے دوران جو خواب آتے ہیں کہ بتانے اور سنانے سے ڈر لگتا ہے۔ ہماری اس دنیا کے کتنے لوگ اور ناخدا مجھے خواب میں اپنی پہچان کرتے نظر آئے۔ وہ زندگی میں کتنے مضبوط اور جابر نظر آئے، مگر میرے خوابوں میں وہ بےبس اور لاچاری کی تصویر نظر آئے۔

میں کبھی کبھی سیاسی خواب بھی دیکھتا ہوں۔ ابھی چند دن پہلے جب آصف علی زرداری کی سرکار کے سابق وزیر رحمان ملک نظر آئے اسی روز بینظیر کے قتل کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ میں فیصلہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور اس فیصلہ پر جناب رحمان ملک کا تبصرہ بھی سن چکا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک عدالتی کمرہ ہے۔ عدالت کے جج صاحبان کی پشت پر میں ہوں اور سابق وزیر داخلہ بیان دے رہے ہیں۔ جج کی آواز کچھ کچھ خاتون نما ہے۔ مجھے ان کا سوال سمجھ نہیں آیا، مگر رحمان ملک کے چہرے پر ندامت اور پسینہ لگا، وہ کہہ رہے تھے مائی لورڈ آپ کو میری اور حکومت کی مجبوری کا اندازہ ہے۔ ہم کیسے قاتل کا نام لے سکتے ہیں۔ ثبوت تو سب کے سامنے واضح ہیں، پھر جج نے کوئی سوال کیا۔ سابق وزیر بولے، مائی لورڈ دھماکہ کی آواز پر ہماری بھی جان پر بن گئی تھی ا ور فوراً پھر وہ چپ ہو گئے۔ عدالت میں خاموشی تھی، اس دفعہ جج کا سوال تھا آپ نے دھماکہ کے بعد کسی چینل پر کہا تھا کہ ’’بینظیر محفوظ ہیں‘‘ سابق وزیر خاموش رہے۔ جج دوبارہ گویا ہوا، آپ کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے۔ دھماکہ کے بعد کہاں مصروف رہے، سابق وزیر خاموش تھے، پھر سوال ہوا آپ اسپتال کب گئے، وہ لاچاری سے بولے، جی میں میاں نواز شریف کے بعد وہاں گیا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

اب میں سوچتا ہوں تو سارا خواب حقیقت نہیں ہے۔ کچھ ایسا ہوا ضرور ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سابق وزیرداخلہ کسی عدالت میں گئے یا نہیں۔ میں نے اپنے خواب کا ذکر ایک اللہ والے سے کیا اور درخواست کی کہ خواب میں کتنی سچائی ہے۔ وہ مسکرائے، وہ صاحب علم بزرگ ہیں۔ خبروں اور سیاست کی وجہ سے یہ خواب آیا۔ صرف ایک بات قابل توجہ ہے کہ خواب کی عدالت میں جج کون تھا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیا جج نے کوئی فیصلہ بھی سنایا، مجھے بتانا پڑا۔ حضور خواب میرے نزدیک نامکمل ہے اور ہاں فیصلہ تو کوئی نہیں سنایا۔ صرف سابق وزیر داخلہ سے بحث سی ہورہی تھی۔ وہ بزرگ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئے۔ پھر بولے۔ بینظیر کے قتل کا معاملہ طے نہیں ہوسکتا۔ کچھ دوستوں اور مہربانوں کے نام آتے ہیں۔ اصل میں عدالت کی جج مجھے بینظیر لگتی ہے اور سابق وزیر ان کے سامنے کیسے حقیقت بیان کرتے۔ میں بزرگ کی بات سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اظہار بھی کردیا، آپ کا خواب ہے، پھر تعبیر بھی آپ ہی سوچیں۔ رہی آپ کی نیند کا مسئلہ ایسے خوابوں کے لئے ادھوری نیند بھی کافی ہے۔

اب کس سے کہوں مجھے نیند کیوں نہیں آتی۔ روتا ہوا دیکھا ہے خوابوں میں خدا میں نے۔۔۔ میں اس فانی زندگی اور دنیا کے خوابوں سے پریشان بھی ہوں، مگر خوابوں کا کیا کروں، ان کو کیسے روکوں۔ ہماری اصلی زندگی میں سب کچھ صاف اور واضح ہے، جرم بھی ہے، عدالت بھی ہے، نظام بھی ہے اور اس کو چلانے والے سیاسی لوگ بھی ہیں، مگر ان کا سب کا حل عوام کے خوابوں میں ہے۔ ستمبر کا مہینہ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے کافی اہم ہوتا ہے۔ سرحد پار کے باسی پھر جنگ و جدل کی باتیں کررہے ہیں۔ ان کو غرور اور گھمنڈ ہے، کسی صاحب کشف سے پوچھا گیا، داتا کی نگری کے لوگ بھارت کی فوج سے کیا سلوک کریں گے تو ان کا جواب تھا۔ لاہور والے گدھوں کو کاٹ کر کھا جاتے ہیں، کھال چین کو بیچ دیں گے اس لئے خطرہ کوئی نہیں، ان کو ایسے خواب دیکھنے دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).