وکیل تو اچھے ہوتے ہیں


وردی دو ہی لوگوں پر تو سجتی ہے۔ ایک فوجیوں کی خاکی وردی دوسرے وکلا کی کالی وردی۔ یہی وردی تو انہیں عام افراد سے عقل و دانش میں ممتاز بناتی ہے۔ ایسے میں خبر ملے کہ کل سرگودھا میں سیاہ پوش وکلا کے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے تو صدمہ تو ہوتا ہی ہے۔ ہم نے اس معاملے پر تحقیق کی، اور ایف آئی آر، پولیس اور وکلا کے موقف کو پڑھ کر جو ہمیں سمجھ آیا ہے وہ کچھ یوں ہے۔

ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر عدالت لگائے بیٹھی تھیں کہ رانا ولایت صاحب نامی غریبوں کا درد رکھنے والے وکیل ان کی عدالت میں پیش ہوئے اور کہنے لگے کہ میرے کیس پر فیصلہ کیا جائے۔ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کو غالباً وکلا تحریک کے بعد رائج ہونے والے انصاف کے تقاضوں کا علم نہیں تھا۔ ضد کر بیٹھیں کہ دوسرے فریق کو نوٹس دے کر، اس کی بات سن کر، پھر ہی فیصلہ ہو گا۔ وکیل صاحب بجا طور پر حق پر جم گئے۔ جب انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ان کے موکل کا کیس یہ ہے، تو دوسرے فریق کو سننے کی کیا ضرورت تھی؟ بہرحال جج صاحبہ نے ہٹ دھرمی دکھائی اور وکیل صاحب کو کہنے لگیں کہ وہ دوسرے فریق کو سنے بغیر فیصلہ نہیں کریں گی اور اگلے کیس کے لئے عدالت خالی کی جائے۔

وکیل صاحب بہ امر مجبوری باہر نکلے اور تیس پینتیس دیگر وکلا کو بتایا کہ انصاف کا اس طرح خون ہو رہا ہے۔ سب مل کر انصاف کو بچانے کمرہ عدالت میں آن پہنچے۔ بخدا ان کا رعب ایسا تھا کہ کمرہ عدالت کی میز کرسی تھرتھرا کر خود ہی ٹوٹ گئیں اور دیوار پر کیل سے ٹنگی اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کے نام کی تختی خود بخود زمین پر گر گئی۔

وکلا نے تباہی کا یہ منظر یہ دیکھ کر عدالتی عملے اور جج صاحبہ کے تحفظ کی خاطر ان کو تالا لگا کر کمرے میں بند کر دیا اور باہر ان کی حفاظت کی خاطر کھڑے ہو کر نعرے بازی کرنے لگے۔

اب عدالتی عملہ نہ جانے کیوں کسی غلط فہمی کا شکار ہو گیا۔ بلاوجہ ہی ون فائیو پر کال کر دی۔ سرگودھا کے ایس ایس پی سہیل چوہدری صاحب کو نہ جانے کیا اطلاع پہنچی کہ وہ یہ سمجھے کہ معزز سیاہ پوش وکلا خاتون جج کے ساتھ بدسلوکی اور غنڈہ گردی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اے ایس پی سٹی حفیظ بگٹی صاحب کو فوراً موقعے پر پہنچ کر عدالت کی سربراہ اور عملے کو بچانے کا حکم دے دیا اور وہ بھاری نفری کے ساتھ منٹوں میں ادھر پہنچ گئے۔

وکلا نہایت دلیری کے ساتھ کمرہ عدالت کو حفاظت کی خاطر باہر سے تالا لگائے کھڑے تھے تاکہ کوئی موالی غنڈہ جج صاحبہ کو نقصان نہ پہنچا دے۔ پولیس کو دیکھتے ہی انہوں نے جانا کہ اب حفاظت پولیس خود کر لے گی اور ان کی ضرورت نہیں ہے اس لئے وہ موقع سے فوراً غائب ہو گئے۔

بدقسمتی دیکھیے کہ عدالت کی حفاظت کرنے والے معزز سیاہ پوش وکلا پر ہی دہشت گردی اور غنڈہ گردی سمیت سنگین دفعات کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے کہ معزز سیاہ پوش وکلا، جج اور عدالتی عملے کو یرغمال بنائے ہوئے تھے اور توڑ پھوڑ کر رہے تھے۔

بعض سیاہ پوش وکلا نے ایک دوسری وضاحت بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک معزز سیاہ پوش وکیل کمرہ عدالت میں نہایت نرمی سے دلائل دے رہے تھے کہ بلاوجہ ہی جج صاحبہ کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے عدالتی عملے کو حکم دیا کہ وکیل صاحب کو باہر نکالا جائے۔ اس لئے وکلا کی عزت کے تحفظ اور ان کے غصے سے جج صاحبہ کو بچانے کی خاطر ان کو کمرے میں جانے پر بذریعہ طاقت مجبور کرنا پڑا۔

اگر یہ روایت درست ہے تو ہمیں اسسٹنٹ کمشنر جج صاحبہ پر حیرت ہوتی ہے۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہائی کورٹ کے ملتان بینچ میں وکلا اپنی عزت بچانے کی خاطر کیا کیا کرنے پر مجبور نہیں ہوئے اور فیصل آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کو عزت مآب وکلا نے کیسے جوتا مارا تھا؟ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ وکلا تحریک کے بعد اب جج کی نہیں بلکہ وکیل کی عزت کی جاتی ہے۔ وکلا نے شاید ان کو سمجھایا بھی ہو گا کہ خواتین کو گھر میں بیٹھ کر ہانڈی چولہا کرنا چاہیے، یہ عدالتیں لگانا اور وکلا کا سامنا کرنا کسی مرد کا کام ہی ہوتا ہے ورنہ وکلا صنفی تفریق برتنے کے قائل نہیں ہیں اور سب ججوں کو برابر سمجھتے ہیں۔

چند وکلا نے اس معاملے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ وکلا تحریک میں صرف وکلا ہی تھے جو قانون کی سربلندی کی خاطر جنرل مشرف سے ٹکرا گئے تھے۔ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہم نے تو اس تحریک میں کسی عام شہری یا صحافی کو شامل نہیں دیکھا۔ شریف آدمی دنگے فساد سے گھبراتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر میلوں لمبے جلوسوں میں صرف لاکھوں وکلا ہی ہوا کرتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اصل میں سرگودھا اور ملتان کے واقعات میں ایجنسیوں کے اشارے پر صحافی انہیں بدنام کر رہے ہیں۔ ہم نے اس پر غور کیا۔ ملکی ایجنسیوں کو تو وکلا سے ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ضرور وکلا کے خلاف را کی سازش ہے۔ ایک طرف بھارتی ایجنسی را خاکی وردی والی فوج کو بدنام کرتی ہے اور دوسری طرف کالی وردی والے وکلا کو۔

وکلا کا موقف ہمیں درست لگتا ہے۔ اگر قانون میں ایسے ججوں کے خلاف کارروائی کی گنجائش ہی نہیں ہے جو وکلا کے آگے سر جھکانے سے انکار کرتے ہوں، تو پھر مجبوراً بالائے قانون اقدامات ہی آخری حل رہ جاتے ہیں۔ پرانے زمانے میں آپ نے رابن ہڈ، سلطانہ ڈاکو اور جگا ڈاکو وغیرہ کے قصے سنے ہوں گے کہ کیسے وہ قانونی راہ نہ پا کر خود غنڈہ گردی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ وکلا بھی مجبور ہیں۔ ہم ان کی بات سے متفق ہیں کہ جب قانون ختم ہو جائے تو اپنی طاقت سے اپنا قانون تخلیق کرنا چاہیے کیونکہ انصاف ایسے ہی مل سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے متعلق بھی تو ہمارے ذی شعور علما کی یہی رائے ہے کہ ”ان کا مقصد ٹھیک مگر طریقہ غلط ہے“۔ وکلا کا بھی مقصد ٹھیک ہے۔

اب اگر قانون کے ماہر وکلا یہ رائے دے رہے ہیں کہ قانون انصاف نہیں دیتا تو پھر ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قانون کو ختم کر دیا جائے، ججوں کو گھر بھیج دیا جائے، اور وکالت کے پیشے کو ختم کر دیا جائے تاکہ قوم کو لاقانونیت سے نجات ملے۔

انصاف کی خاطر وکلا نے بارہا اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے۔ جنرل مشرف کی کیا حیثیت ہے وکلا تو تھانیداروں سے بھی بھڑ جاتے ہیں اور کچہری میں انہیں پاتے ہی قرار واقعی سبق دے سکتے ہیں۔ یہی ویڈیو ملاحظہ کر لیں۔ اگر یہ وکیل صاحب اس گاڑی کے نیچے آ جاتے تو کیا وہ جان سے نہ جاتے؟ اگر یہ قانون کا احترام نہ کرنے والا موٹر سائیکل والا جو اپنے ننھے بچوں کو سکول سے گھر واپس لے جا رہا ہے، وکیل صاحب کا جذبہ حب الوطنی سے بھرا تھپڑ کھا کر موٹر سائیکل اور اپنے ننھے بچوں سمیت زمین پر گر جاتا تو خود تو بچوں سمیت مرتا ہی، خدانخواستہ وکیل صاحب کو بھی اس کی زد میں آ کر خراش آ سکتی تھی۔ (ختم شد)

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar