روہنگیا مسلمانوں پر مظالم اور مذہبی یا لبرل ریاست


میرا مذہب امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے اور اس دنیا کو امن کا گہوارا بنانے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ میرا مذہب تو چیونٹی تک کو تکلیف دینے سے روکتا ہے کجا کہ انسانوں کے لیے کسی تکلیف کا سوچے بھی۔ میرا مذہب مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ ہم سب شانتی سے مل جل کر رہنے کے قائل ہیں۔

میرا مذہب کہتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں خدا ان کو اگلے جہان میں بڑا اجر دے گا۔ ان کے لیے جنت انتظار کر رہی ہے۔ جو لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے انہیں نرکھ میں ڈال دیا جائے گا۔

میرا مذہب، جھوٹ، رشوت، وعدہ خلافی، چوری، ملاوٹ، جھوٹی گواہی دینے، نا انصافی کرنے یا دوسروں کا حق مارنے سے مجھے منع کرتا ہے۔

اوپر کے چند فقرے تمام مذاہب کے ماننے والے کہتے ہیں۔ ہر مذہب کا دعوی یہی ہے۔ ہم سارے مسلمان خاص طور پر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی کا ہے۔

اسلام کے امن اور سلامتی کا دین ہونے سے اختلاف طالبان کے علاوہ صرف دو پاکستانی مسلمانوں اور ان کے پیروکاروں کو ہے۔ وہ ہیں اوریا مقبول جان اور خادم حسین رضوی صاحبان۔ اوریا صاحب مشہور ماڈرن سیاسی اور سماجی دانشور ہیں اور ان کا پورا زور آخری بڑی جنگ اور غالب آنے پر ہے۔ وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ امن اور دوستی سے رہنے کے قائل نہیں۔ خادم حسین رضوی صاحب بھی اسلام کو امن اور سلامتی کا مذہب کہنے سے انکاری ہیں۔ ان کے خیال میں یہ غلط تشریح ہے اور وہ اپنے عقیدے کے نوجوانوں کو للکارتے ہیں کہ یہ امن کی گردان پر دھیان نہ دیں، اٹھیں اور دوسروں کو تہس نہس کر دیں۔

اگر ہم دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو، بد قسمتی سے، چل وہی رہا ہے جو اوریا مقبول جان اور خادم حسین رضوی صاحبان کہتے ہیں۔ اور یہ بدقسمتی صرف ہمارے مذہب کی نہیں بلکہ سب مذاہب کے ماننے والے اسی مسئلے کا شکار ہیں۔

بھارت میں ہندو غیر ہندو سے کہتے ہیں کہ رہنا ہے تو ہندو بن کے رہو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ مطلب تم ہندو ہو یا نہیں، اپنا کھانا پینا اور رہنا ہندو مذہب کے مطابق ہی کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں مسلمانوں کا ہر فرقہ کہتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ ہم کریں گے کہ کون سی روایت اسلامی ہے اور کون سی نہیں۔ ایک کے نزدیک داتا صاحب، گولڑہ شریف اور عبداللہ شاہ غازی کی زیارت کرنا عین عبادت اور بخشش کا ذریعہ ہے اور دوسرے کے نزدیک کفر۔ ایک کے نزدیک عزاداری عین اسلام اور دوسرے کے نزدیک گناہ۔ ہر کوئی کہتا کہ مسلمان کہلانے کا کون حقدار ہے اور کون نہیں یہ فیصلہ میرا ہی ہو گا۔ اس ماحول کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو میانمار میں ہو رہا ہے۔

میانمار میں مسلمان اقلیت پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی مثال جو ہم پاکستانیوں اور انڈین دونوں کو ہی اپنے اپنے زاویے سے نظر آتی ہے۔ پاکستانی عوام روہنگیا کے لیے جلوس نکالتی ہے اور بھارت کے مذہبی انتہا پسند وزراعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ ہندو روہنگیا کو تو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے لیکن باقیوں کو نہیں۔

یمن کے رہنے والے مسلمان ایران اور سعودی عرب کی آپس کی دشمنی کی بھینٹ چڑہ گئے ہیں اور وہ پاکستان کی ایک بھاری اکثریت کو نظر ہی نہیں آتے۔ مظالم ڈھانے والا جو کوئی اور ہے۔

اگر برصغیر کی پچھلے سو سال کی تاریخ ہی کو لے لیا جائے تو مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات ابھار کر مفاد پرست حکمرانوں نے کتنی ہی بار قیامت برپا کی ہے۔ مذہب کے نام پر لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ مذہبی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور معاشی مفادات کے جھگڑوں کو مذہبی رنگ دے کر بے پناہ خون خرابہ کیا گیا۔ یہ سب مذہبی آزادی نہ ہونے اور مذہبی روایات کو ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ ”مکس“ کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

مذہبی جھگڑے یا مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے سیاسی جھگڑے دنیا کے بہت سارے ملکوں میں عام ہیں۔ سوائے ان ملکوں کے جنہوں نے مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ بنا دیا۔ ان ملکوں میں آئین اور قانون کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ انسان اور انسانی حقوق ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت بھی اسی طرز پر ہوتی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے اور کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نامناسب رویہ ہے۔ دوسروں کے مذہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا سکھایا جاتا ہے۔ وہ معاشرے آہستہ آہستہ بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ ان معاشروں میں مذہب کا نام لے کر لوگوں سے ان کے جان اور مال کی قربانی لینا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے معاشرے اپنے آپ کو سیکولر معاشرے کہتے ہیں۔ وہاں مذہبی آزادی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان ملکوں میں بھی مذہب کے نام پر کچھ مسلمان نوجوان تباہ ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کی تباہی کے ذمہ دار وہ ممالک ہیں جہاں سے ان کے والدین ہجرت کر کے آئے تھے۔

سیکولر لبرل معاشروں میں لوگ اپنی مرضی یا اپنی مذہبی روایات دوسروں پر نہیں تھوپتے۔ ایسے معاشروں میں اپنی اگلی زندگی کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ گوشت خور اور سبزی خور ایک ہی محفل میں بغیر کسی جھجھک کے شامل ہوتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے کھانے پینے یا لباس سے آپ گنہگار نہیں ہوتے اور نہ ہی آپ کی قومی غیرت داؤ پر لگتی ہے۔ ایسے معاشروں میں مذہبی جھگڑے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

ہر معاشرے میں دو قسم کے لوگ ضرور پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو مذہبی روایات سمیت کچھ بھی دوسروں پر تھوپنا نہیں چاہتے۔ یہ لوگ شخصی آزادی کے قائل ہوتے ہیں اور لبرل کہلاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی مذہبی روایات اور خیالات دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ مذہبی روایات کی پابندی کے لیے قانون بنانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ شخصی آزادی کے خلاف ہوتے ہیں اور رجعت پسند کہلاتے ہیں۔ ایسے معاشرے مذہب، رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر انسانوں میں امتیاز کرتے ہیں۔ بھارت، ایران، سعودی عرب، میانمار اور امریکہ کی موجودہ حکومتیں رجعت پسندی کی بد ترین مثالیں ہیں۔

ہم اگر دنیا میں مذہب کی بنیاد پر غریب انسانوں کے قتل عام اور استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہم اپنی دنیا کی ماضی قریب کی تاریخ سے سیکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ صرف لبرل معاشروں میں سارے مذاہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک سیکولر لبرل ملک میں آپ اپنے مذہب کے عین مطابق زندگی گزار سکتے ہیں جب کہ مذہبی معاشرے میں لبرلز اور دوسرے عقائد کے لیے زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔ چوائس ہمارا ہے کہ مذہبی استحصال جاری رکھنا چاہتے ہیں یا مذہب کو ریاست سے الگ کر کے استحصال ختم کرنا چاہتے ہیں۔

میانمار کے مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد جیسے واقعات سے دنیا کو بچانا ہے تو ایسے معاشرے تشکیل دینے ہوں گے جہاں سب مذاہب برابر ہوں اور دوسرے عقائد کے خلاف نفرت پیدا نہ کی جائے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا صرف لبرل اور سیکولر ممالک میں ممکن ہے مذہبی ریاستوں میں نہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik