غدار کی بیس نشانیاں


 

غداری کا ایک تازہ طعنہ سنا تو ایک پرانا مضمون یاد آ گیا۔ کبھی غدار کی بیس نشانیاں لکھی تھیں۔ پتہ نہیں خوش ہونا چاہیے کہ تاسف ہونا چاہیے کہ کوئی نشانی ابھی تک ماتھے سے مٹی نہیں ہے۔ لیجیے اعتراف پھر پیش خدمت ہے

1۔ غدار دو قومی مفروضے پر سوال اٹھاتا ہے

2۔ غدار قرارداد مقاصد کو صحیفہ آسمانی نہیں سمجھتا اور اس کے ذکر پر سجدے میں گرنے کا روادار نہیں

3۔ غدار نریندر مودی کو برا سمجھتا ہے لیکن حافظ سعید، مسعود اظہر اور کمانڈر صلاح الدین کو محسن انسانیت اور امن کا پیامبر ماننے سے منکر ہے

4۔ غدار آر ایس ایس اور لشکر طیبہ میں حق و باطل کا فرق روا نہیں رکھتا ۔ اسے لگتا ہے کہ باز سرحد پار کر کے فاختہ نہیں بن سکتا۔

5- غدار کو بوٹ پالش کرنے نہیں آتے ۔

6۔ غدار فن کو سرحدوں کا قیدی نہیں سمجھتا۔

7۔ غدار کو سمجھ نہیں آتی کہ اگر اڑی کے منظر نامے میں ہندوستانی فلموں پر پابندی لگی تھی تو سلالہ کے بعد ہالی ووڈ فلمیں کیوں کر چلتی رہیں۔

8۔ غدار کو یہ بھی پلے نہیں پڑتا کہ فلمیں بند کرنا غیرت کا تقاضا ہے تو ہندوستانی آلو، پیاز ، پان اور چھالیہ کھانے سے غیرت کے کون سے تقاضے پورے ہو رہے ہیں۔

9۔ غدار سرجیکل اسٹرائیکس کی بھد اڑانے سے زندگی کھو دینے والے دو سپاہیوں کا غم منانے کو زیادہ اہم سمجھتا ہے۔

10۔ غدار سپاہی کی عزت کرتا ہے خواہ وہ لکیر کے اس پار ہو یا اس پار ، اس لیے اسے گالی نہیں دیتا۔

11۔ غدار زندگی کی حرمت کو قومیت اور مزہب کی عینک لگا کر نہیں دیکھتا۔

12۔ غدار کو ہر انسان کا خون سرخ رنگ کا دکھائی دیتا ہے۔

13۔ غدار کو یہ غلط فہمی ہے کہ دشمن سپاہی کے گھر میں بھی بوڑھی ماں ہے، برہا کی ماری سہاگن ہے، گڑیا جیسی بیٹی ہے اور ان کے سینے میں دل بھی ہے اور آنکھوں میں کہیں چھپے آنسو بھی۔

14۔ غدار کو لگتا ہے کہ گولی پاکستانی کو لگے یا ہندوستانی کو ، درد دونوں کو ایک سا ہوتا ہے ۔

15۔ غدار ایٹم بم کو دھاگے والا لٹو نہیں سمجھتا کہ جب چاہے چلا دیا جائے ۔

16۔ غدار ڈرپوک ہے اور زندگی گنوانے کو معراج زندگی نہیں سمجھتا بے شک اس پر شہادت کا ٹھپہ لگا ہوا ہو یا قربانی کا اسٹیکر

17۔ غدار جنگ سے ڈرتا ہے۔ اسے چھپن چھپائ کھیلتے ہوئے بچے، چوپالوں میں گپ مارتے بڈھے اور جھولا جھولتی سکھیاں اچھی لگتی ہیں۔ پر اسے نیپام بموں سے جھلسے ہوئے جسم، خون اور خاک میں لتھڑی لاشیں اور کھنڈر بنے گھر برے لگتے ہیں۔

18۔ غدار ہنسنا چاہتا ہے ۔مسکرانا چاہتا ہے۔ لتا اور نور جہاں کے مدھر گیت سننا چاہتا ہے۔ غدار عید منانا چاہتا ہے ۔ غدار ہولی کے رنگوں میں رنگنا چاہتا ہے۔ غدار شب برات اور دیوالی پر پھلجڑیاں بکھیرنا چاہتا ہے ۔ غدار سرسوں پھولنے پر پتنگیں اڑانا چاہتا ہے۔ پر غدار بارود نہیں چاہتا، گولی نہیں چاہتا، بم نہیں چاہتا۔

19۔ غدار ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے، غدار کشمیریوں کو زندگی کا حق دینا چاہتا ہے ، غدار برہان وانی جسے جوانوں کو طبعی عمر جیتے دیکھنا چاہتا ہے۔ پر غدار یہ مقدمہ جنگ کے میدان میں نہیں لڑنا چاہتا کیونکہ وہ چار جنگیں دیکھ چکا ہےاور ان کے نتیجے بھی بھگت چکا ہے۔ اسے جنگ کی تباہی، بدصورتی، ہولناکی اور حماقت سے خوف آتا ہے۔ وہ صرف غربت، بھوک، بیروزگاری اور جہالت سے جنگ لڑنا چاہتا ہے

20- غدار اپنے سپاہی سے بیٹوں اور بھائیوں جیسی محبت کرتا ہے۔ وہ اسے سیاست کی قربان گاہ پر بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا ۔ وہ اسے جیتا دیکھنا چاہتا ہے ۔ وہ اسے رجزیہ نغموں کا کردار نہیں، محبت اور امن کا سفیر بنانا چاہتا ہے۔ غدار بندوق کی نال میں پھول اگانا چاہتا ہے۔ غدار پاگل ہے

 

 

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad