میکاولی سے گرامچی تک


اشفاق سلیم مرزا صاحب کی حال ہی میں شائع ہونے والی نئی کتا ب,’کتاب میکیاولی سے گرامچی تک” یورپ کے فکری اور سیاسی نظریات کے ارتقا کا ایک تفصیلی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اسے فکشن ہاؤس پبلشرز، لاہور نے چھاپا ہے۔

یہ کتاب بنیادی طور پر یورپ کے فکری دھاروں کا احاطہ کرتی ہے۔ یوں بھی ایک مربوط فکری ارتقا کے طور پر اس کا مطالعہ اہم ہے۔ کتاب کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب میکیاولی سے قبل یورپ کے فکری دھاروں، تصور خدا ، اخلاقیات، سیاسیات، اور یورپ میں نشاة ثانیہ تک کےمقبول تصورات کا احاطہ کرتا ہے۔ اگلے باب میں میکیاولی کے فکر اور اس کے نظریات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ تیسرا باب فلسفہ اورالہیات میں فرق کو واضح کرتا ہے۔ اس باب میں تھامس مور، فرانسس بیکن، سٹوارٹ، اور جون لوک، کے سیاسی اور سماجی نظریات، نظریہ علم اور ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ چوتھا باب اٹھارویں صدی کی فکری فضا کے لئے مخصوص ہے، اور اس میں خاص طور پر روسو کی سیاسی فکر، معاہدہ عمرانی، اجتماعی ارادہ، طرز حکومت اور قانون کے معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ پانچویں باب میں ھیگل اور اس کے معاصر یورپ کے عہد کو زیر بحث لاتے ہوئے حکومت، کیلسا، مذہب، جدلیات، فلسفہ تاریخ، روشن خیالی اور یورپ کے فکری تغیرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹے باب ہمیں مارکس اور اینگلز کے عہد میں لےجاتا ہے۔ اس کے اہم موضوعات میں جرمن کلاسیکی فلسفہ، کانٹ، فیورباخ، آدم سمتھ، ریکارڈو، مالتھس، سینٹ سائمن اور دیگر فلسفوں کے افکار شامل ہیں۔ اسی باب میں مارکس کی فکر کے اجزائے ترکیبی کی پرکھ پڑتال بھی کی گئی ہے۔ مارکسی فکر کے اطلاتی پہلو کا اگلے باب میں لینن کی فکری سوچ اور بالشویک انقلاب میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ باب خاص طور پرمعاصر روس کے سماجی اور فکری پس منظر کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ کتاب میں زیر بحث آخری مفکر گرامچی ہے جس کے خیالات پر آٹھویں باب میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس باب میں گرامچی کے بنیادی تعقلات و نظریات، سیاست اور جدید بادشاہ، سیاسی پارٹی، تحتاتی طبقات( group alternsub)، ریاست، سول سوسائٹی، اور فلسفہ عملیت کی تاریخیت پر نہایت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مصنف نے اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے پرایک سیر حاصل تجزیہ پیش کیا ہے۔

مرزا صاحب نے اس کتاب پر لکھنے میں کئی سال محنت کی ہے۔ علمی معاملات میں مرزا صاحب کا شوق اور محبت اب ایک مثال بن چکا ہے۔ انہوں نے نہایت تندہی سے ایک طویل عرصے تک اسلام آباد کلچرل فورم کو متحرک رکھا جس میں ہر پندرہ روز بعد سماجی، فلسفیانہ اور سیاسی مباحث کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر انہوں نے کئی سال یورپ کے فلسفیانہ افکار پر اسکول کا اہتمام کیا اور نوجوانوں کو جدید فلسفے کے اسرار و رموز سے روشناس کراتے رہے۔ اسی طرح انسانی حقوق اور بڑھتی ہوئی تنگ نظری کے خلاف اب بھی عوامی مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں اور نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ شہر اسلام آباد میں انسانی ضمیر کا ایک جگماتا استعارہ ہیں۔

کتاب میں مصنف نے الہیات اورفلسفےمیں ایک واضح تفریق کی ہے، اور صرف عقلی روایات پر مشتمل سوچ و فکر کو فلسفہ قرار دیا ہے۔ مصنف کے مطابق کسی بھی فلسفیانہ نظام کو اس کے سیاق و سباق کے بغیر سمجھنا مشکل ہے، کوئی بھی فلسفہ، ان کے خیال میں کسی عظیم آدرش کو بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے مخصوص وقت تک کے معلوم حقائق، نکتہ ہائے نظر اور معلوم طرز حیات کے تجزیے تک ہی محدود ہو سکتا ہے۔ ایک آئیڈیل سماج کی تلاش بہت فلسفیانہ نظریات کی بنیاد تو بن سکتی ہے لیکن انسان کے جبلی رجحانات کو مدنظر رکھے بغیر درست تجزیہ ممکن نہیں۔ چونکہ اس کائنات کے مقاصد کو کسی الوہی قوت کے زیر اثر نہیں سمجھا جا سکتا، اس لیے کسی آدرشی سماج کا تصور بھی کسی الوہی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں بلکہ انسانوں کی جبلت کے زیر اثر اس کے اعمال، اور کسی آدرشی یا یوئوٹوپیائی تصورات کے درمیان کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اسی بحث کو سمیٹتے ہوئے مصنف اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اب تک کسی تمام فلسفیانہ تفہیم کے نتیجے میں جنم لینے والی سیاسی فکر یا تو کسی نجی ملکیت کی حمایت یا اس کی مخالفت میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ جہاں افلاطون، تھاس مور، روسو، مارکس، لینن اور گرامچی نجی ملکیت کے مخالف ہیں، وہیں ارسطو، میکیا ولی، بودین، لیوبز اور لوک نے نجی ملکیت کو حقیقی مانتے ہوئے ریاست کی مختلف جہتوں کی تعبیر کی۔

 مصنف کے اپنے خیال میں نجی ملکیت تاریخی طور پر درست اور ایک قابل عمل نظریہ ہے جو انسان کو متحرک رکھتا ہے۔ جو سیاسی فکر اس سے گریز کرے۔ وہ کچھ دیر بھٹکنے کے بعد دم توڑ دیتی ہے۔ اکتوبر انقلاب کے اشتراکی دور کا ستر سالہ تجربہ زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوا اور آئندہ بھی ایسے کسی تجربے کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم مصنف کے اندر چھپا ہوا شاعر اور انقلابی آدرش میں سرگرم رہنے والا انقلابی کتاب کے آخری پیراگراف کا اختتام اسی مستقل سوال اور خواہش کے طور پر کرتا ہے، جس میں ایک ایسے سماج کی آرزو ہے جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کرے اور تمام انسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر آجائیں۔

کتاب میں انگریزی اصطلاحات کو پڑھتے ہوئے اردو زبان کی غربت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ بہت سی اصطلاحات کا ترجمہ جب اردو میں کیا گیا تو وہ انگریزی کی نسبت زیادہ بوجھل اور نامانوس معلوم ہوئیں۔ کتاب میں پروف ریڈینگ کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں۔ کتاب کے پبلشر اس پہلو پر اگرتوجہ سے کام لیتے تو کتاب کو مزید بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔

اس کتاب کا آغاز میکیاولی کے تصورات سے کرنے کا مقصد اسی عہد جدید کے ایک ایسے اولین مفکر کے طور پر پیش کرنا ہے جب یورپ ایک عسکری، سیاسی، سماجی اور فنون لطیفہ میں تغیرات سے گزر رہا تھا ۔ قدیم تصورات اور نظام ہائے فکر سے نکل کر عہد جدید اور اس کے پیداواری رشتوں، سماجی تعلقات، ریاست اور مذہب کے بارے میں خیالات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا۔ اس نئے دور میں مذہب کی بنیادی حیثیت ایک مخمصے اور چیلنج کا شکار ہو رہی تھی ۔ مذہب اور خدا کے بغیر اس کائنات کا تصور کرتے ہوئے انسان، عہد جدید کے فکری، وجودی اور سماجی تغیر سے نبردآزما، سماج کو نئے طریقے سے سمجھنے اور نئی فکری دریافتوں کی بنیاد پر استوار کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔ یہ پندرھویں صدی کی نشاة ثانیہ کا دور تھا۔ اس دور کا تقاضا تھا کہ سیاسی فکر بھی اپنے پرانے تصورات سے باہر نکلے اور نئے زمانے کی حقیقتوں میں اپنے قواعد وضع کرے۔ عام طور پر ہمارے ہاں میکیاولی کو ایک شیطان نما، چالاک اور سازشی چالیں چلنے والے مفکر کا تصور ابھارا جاتا ہے۔ تاہم اس کتاب میں مارکس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے وہ ان اولین اشخاص میں تھا جنہوں نے ریاست کو انسانی آنکھوں سے دیکھا اور جس نے سیاسیات کے قوانین کو پہلے سے طے شدہ دینیاتی بنیادوں کی بجائے عقل اور تجربے کی بنیاد پر مرتب کیا۔

میکیاولی نے پاپائیت کی مخالفت کی۔ میکیاولی ریاست کے امور کو کلیساکے امور پر فوقیت دیتا ہے۔ وہ سماجی علوم کو اخلاقیات کے دائرہ کار سے نکال مثبت علوم کی طرف لے جانے پر طور دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ جو نظر آتا ہے اس کو دیکھو اور اس کی بات کرو۔ وہ انسان کی فکری عادات کو متعین کرتا ہے۔ اس کے خیال میں انسان بنیادی طور پر اپنے مفادات کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کے اندر جبلی طور پر ایک حیوان موجود ہے۔ میکیاولی کی تحریروں میں طاقت اور سرد مہری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کے خیالات سیکولر ہیں اور بقول مرزا صاحبتاریخ کی طرح سرد مہر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).