بے نظیر سے بے نظیر تک


بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کا فیصلہ آنے سے آج تک سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا پیپلز پارٹی کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسا ہونا قطعی غیر فطری نہیں مگر پریشانی کی نوعیت شاید کچھ اور ہے۔ پارٹی رہنماﺅں کے الجھے ہوئے بیانات سے یوںمحسوس ہورہا ہے کہ ان کو زیادہ مسئلہ فیصلہ آنے سے نہیں بلکہ معاملہ ایک بار پھر بھرپور طریقے سے میڈیا کی زینت بن کر پوری دنیا کے سامنے آنے سے پیداہو اہے ورنہ وہ تو کب کے صبر کیے بیٹھے تھے۔ ان کی اس معاملے سے عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ فیصلہ سنائے جانے کے وقت کسی ایک نے بھی عدالت جانے کی زحمت گوارا نہیںکی۔ پنڈورا بکس ایک بارپھرکھلتا دکھا ئی دیکھ کر اب عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تضادات کا یہ عالم ہے کہ پارٹی کے دو نامزد وکلاءرہنما ایک دوسرے کے موقف کی تردید کررہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم نہ کرنے کی پاداش میں سزا پانے والے دو پولیس افسروں سعود عزیز اور خرم شہزاد کی 17،  17 سال کی قید اعتزاز احسن کے نزدیک زیادتی ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ ان افسروں کو اس سے بھی زیادہ سزا ملنا چاہیے تھی۔ ایک بات مگر پارٹی لائن کے طور پر نظر آرہی ہے کہ جن 5 ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر بری کرنے کا حکم دیا گیا سب انہی کومجرم گردانتے ہوئے سزادینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا اس حوالے سے عدالتی فیصلہ کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ان پانچ ملزموں کو اب اڈیالہ جیل سے کسی نا معلوم مقام پر منتقل کردیاگیا ہے۔ یہ توطے ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود ان کی جان آسانی سے نہیں چھوٹنے والی۔ دوسری جانب پولیس افسروں کو ملنے والی سزاﺅں کے بارے میں عام تاثر یہ یہی ہے کہ وہ اپیل میں جاتے ہی ریلیف پا لیں گے۔ یو ں سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح سارا معاملہ پھر گھوم کر صفر پر آ جائے گا۔ راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کا دن دہاڑے قتل کیا اتنی ہی پیچیدہ واردات ہے کہ 10 سال گزرنے کے باوجود قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا یا پھر شبہ ہی ایسے طاقتور عناصر پر ہوتا ہے کہ ان کی نشاندہی کرنے کی جرات کسی میں نہیں۔ 5 سال تک صدر پاکستان رہنے والے آصف زرداری خود کہہ چکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ قاتل کون ہیں مگر بعد میں نجانے کیا ہوا، ادھر ادھر کی تاویلیں دیتے پھرتے رہے۔ واردات کے فوری بعد سے لے کر اب تک بعض ستم ظریفوں نے تما م ملبہ الٹا آصف زرداری پر ہی ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس میں میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسی مذموم اور گھٹیا میڈیا مہم کے باعث آج تک اس حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے مگر کیا کہا جائے یہ پاکستان ہے یہاں کسی پر کوئی بھی الزام لگا کر نہ صرف اسکی مٹی پلید کی جا سکتی ہے بلکہ جان کو خطرے میں ڈالنا بھی بہت آسان ہے۔

بے نظیر کے قتل کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کمیشن اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد لے کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اصل قاتلوں تک پہنچنے کی کوشش تو بہت کی مگر ہر بار ایک خاص مقام پر عالم مجبوری میں ہی یہ طے کر لیا کہ اس سے آگے نہیں جانا۔ یہ بات تو ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت کرانے میں امریکہ اور برطانیہ کی ہدایت پر متحدہ عرب امارات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل مشرف کے لئے یہ سب کچھ ماننا اس طرح کی مجبوری تھی جیسے 2000ء میں امریکی دباﺅ پر جیل میں بند نوازشریف کو جلاوطن کرنا ۔ فوجی آمر ویسے بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں جنرل مشرف کی خواہش تھی کہ بے نظیر بھٹو2008ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان آئیں۔ زیرک سیاستدان کے طور پر بے نظیر کو بخوبی علم تھا کہ وہ خود وطن واپس نہ پہنچیں تو جنرل مشرف عام انتخابات میں زبردست دھاندلی کر کے پیپلز پارٹی کی پوزیشن کو خراب کر دیں گے ۔ سیاست کا تقاضا تو یہی تھا کہ بے نظیر ہر صورت الیکشن سے پہلے لوٹ آئیں۔ سو ایسا ہی ہوا۔

آمد سے قبل ہی امارات کی خفیہ ایجنسی نے بتا دیا تھا کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ بے نظیر نے اس سارے معاملے سے اپنے بین الاقوامی دوستوں کو آگاہ کیا۔ ایک موقع پر یہ تجویز بھی آئی کہ سکیورٹی کے لئے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کی جائیں مگر ممکنہ سیاسی مضمرات کا اندازہ لگا کر جلد ہی مسترد کر دی گئی۔ 18 اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو نے اپنی واپسی کے لئے کراچی کا انتخاب کیا۔ ائیر پورٹ سے لے کر تاحد نگاہ سروں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ اسی رات کارساز میں خوفناک بم دھماکے میں کئی سو لوگ جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ واضح پیغام تھا کہ بے نظیر بھٹو کو رابطہ عوام مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے باوجود انہوں نے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے جلسے، جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے ایک روز قبل اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج نے بے نظیر بھٹو سے خود ملاقات کر کے خطرات سے آگاہ کیا مگر ان کا موقف تبدیل نہ ہو سکا۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ کو یقین تھا کہ انہیں دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے ڈرانے کا اصل مقصد انتخابی مہم چلانے سے روکنا ہے اور یہ بات کچھ ایسی بے بنیاد بھی نہ تھی۔ کیونکہ ق لیگ کے رہنما بالخصوص شیخ رشید جو مشرف حکومت کے بھونپو بنے ہوئے تھے بار بار کہہ رہے تھے کہ کسی کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ کمپئین کے بغیر ہی انتخابات کرائے جائیں۔ یقینا انہیں الیکشن میں شکست کا خوف لاحق تھا۔ بہر حال اگلے ہی روز جلسے کے بعد وہی ہو گیا جس کا خدشہ تھا۔ بے نظیرمتعدد جیالوں سمیت شہید ہو گئیں۔

اس خونیں واردات سے قبل جلسہ کے دوران ایک موقع پر بے نظیر نے اپنی خصوصی معتمد ناہید خان کو بلا کر کہا کہ وہ سامنے دیکھو درختوں کے درمیان کوئی کالی چیز نظرآ رہی ہے۔ ناہید خان کے مطابق انہیں ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ پھرمحترمہ نے مخدوم امین صاحب سے تصدیق چاہی تو انہوںنے کہا کہ نہیں آپ کا وہم ہے پھر محترمہ نے کہا کہ شاید تم لوگ ٹھیک کہہ رہے ہو،لگتا ہے میری نظر کمزور ہو گئی ہے۔ خیر درختوں کے درمیان کچھ تھا یا نہیں تھا۔ قاتل تو بہر طورارد گردہی موجود تھے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبر ملتے ہی یوں لگا کہ پورا ملک ہی سکتے میں آگیا ہو ۔ شروع میںساری انگلیاں ایک طرف اٹھیں تو مشرف تو مشرف ق لیگ کے سیاستدانوں نے بھی سخت لب و لہجہ اختیار کر لیا۔ اس المناک واقعہ کے حوالے سے خود بے نظیر اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا،  اس واردات کے آگے پیچھے کئی ایک واقعات رونما ہوگئے۔ قاتلوں تک پہنچنے کے لئے جاننا ضر وری تھا کہ قتل کی وجہ کیا ہے؟آیا محترمہ کو سیاسی وجوہات کی بنا پر موت کے گھاٹ اتاراگیا یا پھر واردات کا مقصد پورے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا۔ قاتل اپنے مذموم مقاصد میں بہر طور کامیاب رہے اور تقریباً تمام تحقیقاتی اداروں نے سکیورٹی لیپس کا معاملہ بھی اٹھایا۔ حکومت کی جانب سے عوام کو فوری طور پر بتایا گیا کہ منصوبے کا ماسٹر مائنڈ ٹی ٹی پی پاکستان کا سربراہ بیت اللہ محسود ہے۔ انتہائی غیر متوقع طور پر دنیا کے ٹاپ تھری مو سٹ وانٹڈ شدت پسندوں کی فہرست میں شامل بیت اللہ محسود نے واردات میں ملوث ہونے کی تردید کر دی۔

اس نے صحافیوں کے ایک گروپ کو وزیرستان مدعو کر کے صفائی بھی پیش کی۔ جس بندے کے نزدیک ایک ہی جھٹکے میں سینکڑوں افراد کی جان لینا بھی کوئی معنی نہ رکھتا ہو اس کی جانب سے تردید کوئی معمولی بات نہ تھی۔ بہر حال اس قتل کیس میں چند طالبان کو پکڑا گیا۔ وہ پانچ ملزمان اب عدالت سے بری ہو کر بھی حکام کی تحویل میں ہیں۔ بے نظیر قتل کیس کے حوالے سے اند ر کی کئی خبریں دینے اور پورے واقعہ پر کتاب لکھنے والے سکہ بند صحافی شکیل انجم کا دعویٰ ہے کہ بے نظیر قتل کیس میں جن افراد کی گرفتاری ظاہر کی گئی انہیں واردات سے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ قبل پکڑ لیا گیا تھا۔ جی یہ وہی شکیل انجم ہیں جن کی اس خبر نے بھی تھرتھلی مچا دی تھی کہ 27 دسمبرکی واردات کے لیے دو تین روز پہلے موقع پر ریہرسل کی گئی تھی، کسی عام اہلکار کا ذکر ہی کیا خود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے حوالے سے اصل جرم جائے وقوعہ کو دھو کر کیا گیا ہے،اس طرح شواہد تلاش کرنے کا کام ناممکن بنا دیا گیا۔ تین سال تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہنے والے جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا صریحاً ایس او پی کی خلاف ورزی تھی جائے وقوعہ پر پانی کس کے کہنے پر پھیرا گیا۔ واردات کے فوری بعد اور اب عدالتی فیصلے کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں اور تبصروں میں اس وقت کے ڈی جی ایم آئی میجر جنرل ندیم اعجاز کا نام سامنے آیا مگر عدالتی کارروائی میں اس کا کوئی حوالہ نہیں۔

ڈی آئی جی سعود عزیز کے مطابق جائے وقوعہ کو دھلانے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا، اگر انہوں نے خود ہی یہ سنگین غلطی تسلیم کر لی ہے تو پھر اندر رہنا تو بنتا ہے۔ بہر حال کیس کے متعدد پہلو اب بھی صیغہ راز میں ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جن کو حقائق کاعلم ہے وہ خوف کے مارے بولنے کی پوزیشن میں نہیں، گویا قاتل کے پستول کی سرد نالی انہیں اپنی کنپٹی سے لگی محسوس ہوتی ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی وسیع تر تحقیقات کے نتائج بھی پوری طرح سے سامنے نہیں لائے گئے، ایسا لگتا تھا کہ ایک اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ معاملے کو ایک حد سے زیادہ نہیں اچھالاجائے گا گویا بے نظیر کے قتل کا معاملہ ان کے ساتھ ہی دفن ہو چکا۔ قاتلوں کو ڈھونڈ کر کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم پیپلز پارٹی کو حکومت ملنے کے باوجود پورا نہ ہو سکا۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ دماغ بھی نہیں چلتا۔ بے نظیر قتل کیس کا عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ن لیگ کے خلاف بھنائے بیٹھے اعتزاز احسن پھٹ پڑے (کہا جاتا ہے انہیں اصل غم 2013ء کے عام انتخابات میں اپنی اہلیہ کے بہت بڑے مارجن سے شکست کا ہے)ان کا کہنا تھا کہ کیس کی شفاف تحقیقات نہ ہونے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکامی کی تمام ترذمہ داری وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ راولپنڈی کی حدود میں پیش آنے والے واقعہ پر شہباز شریف نے اپنے فرائض سے غفلت برتی۔ بڑے قانون دان کے اس انوکھے موقف پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).