بلیو وہیل سے مقابلہ مشکل نہیں


انگریزی میں ایک کہاوت ہے Curiosity Killed the Cat جس کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے کہ غیر ضروری، بلاوجہ اور بے مقصد تحقیق آپ کو مشکلات میں مبتلا کر سکتی ہے۔ بلیو وہیل گیم کے کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس گیم سے متعلق تجسس نے کئی نوجوانوں کو اس تک رسائی کا ذریعہ بنایا اور نہ صرف ان کی اپنی تجسس کا تسکین کا باعث بنا بلکہ اوروں تک اس گیم کے تجسس کو مزید سے مزید تر بڑھاناے کا سبب بھی بنا۔

اب بحیثیت قوم ہم اس بات کے تو بہت عادی ہیں کہ بلا تحقیق پیغامات کو آگے دوسروں تک بڑھاتے جائیں کیونکہ پیغامات میں تحریر ہوتا ہے کہ آگے پھیلائیں 10دن میں آپ کو خوشخبری ملے گی اور اگر نہ پھیلایا تو نقصان کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ تو یہ تو قومی عادت ہے کہ بلا تحقیق باتوں کو پھیلایا جائے اور جن معاملات میں شاید توجہ بلا ضرورت ہو وہاں ہمارا تجسس دیدنی ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی بلیو وہیل کے کیس میں بھی ہوا۔

دو ہفتے پہلے اگر میں یہ بات ہوتی تو شاید مجھ سمیت بہت سے لوگ اس سے کچھ زیادہ آگاہ نہیں تھے مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم میں سے بہت سے لوگ اس انٹرنیٹ گیم کے بارے میں کافی حد تک مکمل معلومات حاصل کر چکے ہیں۔ اگر طبیعت پہ گراں نہ گزرے تو ایسے قارئین جو اس گیم کے متعلق ابھی بھی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے کچھ تفصیلات دہرائے دیتی ہوں سب سے پہلی اور سب سے اہم بات بلیو وہیل گیم ایک حقیقت ہے تو جو لوگ اس کو بناوٹی افواہ سے تشبیح دے رہے ہیں، دراصل حقیقت سے آنکھیں بند کررہے ہیں۔

یہ انٹرنیٹ گیم روس میں 2013 میں فلپ بوڈ کن نامی سائیکالوجی کے ایک طالبعلم نے بنائی جس کو اس کے تعلیمی ادارے نے بعد میں زبردستی ادارے سے بے دخل کر دیا کہ اس طالبعلم کی حرکات و سکنات ذہنی طور پر مشکوک تھیں۔ فلپ کو حال ہی میں عدالت سے تین برس قید کی سزا ہوئی ہے۔

پولیس تحقیقات کے مطابق فیس بک کی طرز کی روس میں ایک سوشل نیٹ ورک سائٹ vkontakte متعارف ہوئی تھی جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے پروفائل بنائے تھے اسی سوشل سائٹ پر F57نام کا ایک گروپ بھی تھا جس میں ایسے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو زندگی سے مایوس اور اپنے خیالات سے نالاں تھی۔ اس گروپ پر غمگین گانے، غمگین فوٹو، دکھ بھری داستانیں شیئر کی جاتی تھی جو نوجوانوں کو مزید مایوسی کا شکار بناتے ہوئے موت سے قریب تر کر دیتی تھی۔ اور یوں 2015؁ء میں اس گروپ میں پہلی خود کشی رپورٹ ہوئی۔ بلیو وہیل نامی گیم بھی اسی گروپ میں پہلی بار متعارف کرائی گئی اور اس کو 50 چیلنجر پر مبنی ڈیزائن دے کر پھیلا یا گیا۔ یہ گیم دنیا بھر میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں پہنچی اور جن جن ملکوں میں خود کشی یا اس سے ملتے جلتے اقدامات رپورٹ ہوئے ان ملکوں میں روس، اٹلی، ارجنٹائن، برازیل، چلی، چائنا، لولمبیا، پرتگال، امریکہ، انڈیا اور کئی دوسرے ممالک شامل ہیں اور اب یہ گیم پاکستان میں اپنی انٹری دے چکی ہے۔

اس کے خالق نے اس گیم کو بنانے کا مقصد اس نے کچھ یوں بیان کیا کہ وہ دنیا کو ایسے لوگوں سے پاک کرنا چاہتا ہے جن کی اس دنیا کو ضرورت نہیں وہ اس منطق کو ’’ حیاتیاتی صفائی ‘‘ کا نام دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں جن کو اپنی ذاتو ں پر کنٹرول نہ ہو۔ یعنی بلیو وہیل نامی گیم کے چیلنجز کو اس کا کھیلنے والا جب ایک کے بعد ایک کھیلتا چلا جاتا ہے تو بظاہر وہ خود پہ کنٹرول نہ رکھ سکنے والا شخص ہے اور ایسے شخص کی دنیا کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس گیم کے شروعات کے چیلنجز نہایت دلچسپ ہوتے ہیں مگر آہستہ آہستہ وہ تشدد پسندانہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور 50دن پر کھیلنے والے کو حکم ملتا ہے کہ خود کشی کرکے اپنی ویڈیوانٹرنیٹ پر ڈالو۔

قارئین اب تک آپ کی نظر سے ایسی ویڈیوز گزر چکی ہوں گی جس میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اونچی بلڈنگ سے چھلانگ لگاتے نظر آئے ہوں گے۔ اب اس سب کا فائدہ کیا، فائدہ ان کریمنل لوگوں کو جاتا ہے جو یہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر بیچتے ہیں یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے لوگ پیسے بھر کے ڈراؤنی گیم یا ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ کرائم کی دنیا میں خود کشی کی ویڈیوز ایک منافع بخش کاروبار ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ گیم اتنی ہی خطرناک ہے تو PTAاس کو بند کیوں نہیں کردیتا۔

جواب یہ ہے کہ دنیا بھر میں جب اس گیم سے متعلق شور اٹھا تو یہ کئی دوسرے ناموں سے انٹرنیٹ پر کاپی ہو چکا تھا انٹرنیٹ پر اسی طرح کی ملتی جلتی گیم جو خود کشی کی طرف راغب کرتی ہیں کچھ نام درج ذیل ہیں۔

سی آف وہیل، سائلنٹ ہاؤس، ویک می ایٹ 4:20، سوسائیڈ گیم وغیرہ بلیو وہیل نامی گیم جب انسٹال ہوتی ہے تو اس کو آپ کے ڈیٹا تک رسائی ملتی ہے جو بعد میں بلیک میلنگ کا سبب بنتی ہے یا پھر اس گیم کے اصول ہی اتنے سخت ہیں کہ اگر کسی نے اس کو درمیان میں چھوڑنے کی کوشش کی تو اس کو اور اس کے خاندان کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جاتی ہے اور یوں زندگی سے مایوس نوجوان اپنی جان دنیا آسان سمجھتا ہے۔

اب آتے ہیں تدارک کی طرف، سب سے پہلی گزارش کے اس کو تحقیق کیے بغیر ایک سے دوسرے تک پہنچانا یا کچھ دوستوں کو کسی گروپ میں اس کو شیئر کر دنیا غیر اخلاق ہے آج کل بہت سے لوگ غیر ضروری طور پر ایسے ایسے گروپس میں ایڈ ہوتے ہیں جن کے متعلق وہ خود زیادہ علم نہیں رکھتے اور غیر ضروری تو سمجھتے ہیں مگر گروپ کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اپنے آپ کو مکمل طور پر ایسے گروپس میں سے خارج کریں جو آپ نے اپنی مرضی سے جوائن نہیں کیے۔ ایسے گروپس جہاں مایوسی کی باتیں ہوتی ہوں۔ غمگین اشعار، غمگین گانے یا دکھی باتیں ہوتی ہوں خود کو الگ کریں۔

والدین کی جگہ پر آ کر کہوں گی کہ خدارا سب سے پہلے موبائل کو گالیاں دینا بند کریں۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد آپ کو بتاتے ہوئے نظر آئے گی کہ امی یا ابو میرے موبائل رکھنے کا ناپسند کرتے ہیں یا ان کو اس کے استعمال پر اعتراض ہے۔

میرا سوال ایسے والدین سے یہ ہوگا کہ اگر موبائل چھین لیا جائے یا انٹرنیٹ تک رسائی بند کر دی جائے تو کیا آپ سو فیصد مطمئن ہوں گے کہ آپ کا بچہ کسی دوسری جگہ کسی دوست کے پاس اس سہولت کو استعمال نہیں کر رہا موبائل کو گالیاں دینا آسان ہے مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ’ڈیجیٹل لیٹریٹ‘ ہو کر ٹیکنالوجی کو سیکھ لیا جائے تاکہ اپنے بچوں سے اور قریب ہوں جائیں۔ آج گیم بلیو وہیل کے نام سے آئی ہے جس کو ڈاؤن لوڈ یا انسٹال ظاہر ہے کہ آپ کے بچے کی اجازت سے ہی موبائل کریگا مگر اس وقت کیا کہ جب ایسی ایسی ایپلیکیشن انٹرنیٹ پر موجود ہوں گی تو آپ ایک سادی سی ایپ ڈاؤن لوڈ کریں گے تو ساتھ میں کوئی خفیہ ایپ آپ کے ڈیٹا تک پہنچ کر آپ کو نقصان دے سکتی ہے۔ بحثیت والدین بحثیت استاد اپنے بچوں، نوجوانوں کے قریب تر ہو نا ہوگا، جن موضوعات کو بے حیائی کا نام دے کر بات نہیں کرتے ہیں ان کو مناسب حوالوں سے اپنے بچوں کو ڈسکس کرنا ہوگا۔ بلیووہیل سے خود کشی کرنے والے کی کثیر تعداد ان بچوں کی تھی جن کو ماں باپ نے عمدہ گریڈز نہ لانے پر کٹہروں میں کھڑا کیا تھا۔ جو واقف نہ تھے کہ ان کے بچے ان کے نوجوان اگر ذہنی طور پر کسی انتشار کا شکار ہیں تو مسئلہ کا حل سوچا جائے اور اگر خود حل نہیں کر سکتے تو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جایا جائے مگر توبہ کریں جی ماہرنفسیات کا نام لیا تو لوگ پاگل سمجھیں گے کل کو بچوں کے رشتے بھی تو کرنے ہیں۔

کبھی سوچا ہے کہ آپ کے نوجوانوں کے پاس کیتھارسس کے ذرائع ہیں کیا؟ اس پر آپ بھی ان کو سمجھ نہ پائے تو مایوسی کا راستہ ان پر کھلا ہے۔
بلیو وہیل اور اس سے ملتی جلتی گیمز کا اثر زائل تبھی کیا جا سکتا ہے جب آپ اپنے بچے کو، اپنے نوجوان کو یہ اعتماد دیں کہ وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہو۔ اگر خدا نہ کرے کسی بچے میں آپ کو کوئی مشکوک حرکات نظر آتی ہیں تو اس کو اس حالت سے نکلنے میں اس کی مدد کریں۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتی مگر یہ وہ وقت ہوتا ہے جب غلطی میں پھنسے نوجوان کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اور اگر آپ والدین نہیں بھی ہیں تو بحثیت اس معاشرے کے فرد آپ کا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کو مایوسی سے نکالیں۔
ایسے افراد جو الگ تھلگ رہنا شروع کر دیں۔ غم میں مبتلا ہونے لگیں جن کو زندگی بوجھ لگنے لگے ان کے لئے امید کی کرن بن جائیں۔ ایک دوسرے کو اس سے بہتر حالات میں چھوڑیں جس میں لوگ آپ کو ملے ہوں۔ وہ غم زدہ ہوں تو خوشی دیں، وہ مایوس ہو ں تو امید جگائیں وہ اکیلے ہوں تو سہار بنئے، وہ ڈرے ہوئے ہوں تو خوف کا بت توڑنے میں ان کی مدد کیجئے۔

بلیو وہیل تو ایک نام ہے، خود کشی وہ کرتا ہے جس میں اس عمل کو کرنے کی ذرا سی بھی جبلت موجود ہوتی ہے، منفی خیالات کا مقابلہ ہی ہمیں روشنیوں اور محبتوں کے سفر پر لے جاتے گا، آئیے مایوسی سے نکلنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ آئیے خوشیاں پھیلائیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).