نشست حلقہ 420 برائے انتخابی حلقہ 120


فون پر بات کرتے ہوئے، عشرت گجر آج بہت پرجوش تھا۔ فون کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ آج جب دودھ میں ملاوٹ کرنے کے لیے ہمارا نمائندہ صاف و شفاف تازہ پانی لے کر دکان پہنچے تو بقایا جات ادا کردیے جائیں۔ کیونکہ محکمہ آب رسانی کی جس پائپ لائن سے پانی چوری کرکے صاف و شفاف کیا جاتا ہے، اس لائن کے سپروائزر کو بروقت و باقاعدہ رشوت کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ وہ بھی محکمے کے بڑے افسروں کو جواب دہ ہے۔ بات مکمل کرنے کے بعد بالآخر پوچھ ہی لیا کہ آج خون کی حدّت کچھ بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے، خیر تو ہے؟ گجر بولا، آج حلقہ 420 کی نشست مقرر ہے جو برائے انتخابی حلقہ 120 ہے۔ تم تو ہر وقت کمانے کے چکر میں لگے رہتے ہو، اس بات سے تم کو غرض نہیں کہ اگر کوئی ایسا امیدوار منتخب ہو کر اسمبلی چلاگیا جس کومنتخب ہونے کے بعد ایمانداری کا دورہ پڑگیا تو علاقے میں حلقہ 420 کے کاروبار اور مفادات پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔

میں تو کہتا ہوں، تمام مصروفیات ترک کرکے شام 5 بجے شیدے کے جوئے کے اڈے پر پہنچ جاؤ۔ نشست کا اہتمام حلقے کے شعبہ رشوت ستانی و بدعنوانی نے کیا ہے۔ حلقہ 420 کے تمام شعبہ جات کے نمائندے نشست میں شرکت کریں گے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ کس امیدوار کی حمایت کرنی ہے اور اس کی کامیابی کے لیے کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ گجر نے اہم معلومات فراہم کیں کیونکہ حلقے میں سرگرم رہنے سے ہی کاروبار میں عافیت میسر رہتی ہے۔ کسی بھی کاروباری افتاد کی صورت میں حلقہ 420 کے ارکان ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ نشست میں شرکت نہ کرنے سے کاروباری نقصان کا اندیشہ تھا، اس لیے شرکت نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

جب شیدے کے اڈے پر پہنچے تو محترم تھانہ انچارج کو پہلے ہی سے موجود پایا کیونکہ نشست کا آغاز ان کی ہی مدبرانہ تقریر سے ہونا تھا۔ محترم انچارج صاحب نے تقریر کے آغاز میں ان مشکلات کا ذکر کیا جو حلقہ 420 کے ساتھ تعاون کرنے میں ان کو درپیش ہیں۔ تقریر کا خلاصہ یہی تھا کہ حلقہ 420، انچارج صاحب کے ساتھ مالی تعاون کا نیا سمجھوتہ کرے کیونکہ موجودہ حالات میں، موجودہ مالی تعاون ناکافی ہے۔ انچارج صاحب تو تقریر کرکے چلتے بنے۔ اب حلقے کے جنرل سیکرٹری نے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست بمع کوائف نکالی اور تمام شعبہ جات کے ارکان کے ہاتھ میں ایک ایک کاپی تھمادی۔ شعبہ ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی کے نمائندے نے فہرست کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا، بھائیوں میرے خیال میں سب سے موزوں امیدوار سمندر خان ہے۔ آپ سب کے علم میں ہے، سمندر خان اسٹیٹ ایجنٹی کی آڑ میں زمینوں پر قبضے اور ان کے ریکارڈ میں ردوبدل کا ماہر ہے، ساتھ ہی پٹواریوں کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور اب تو انتخابی عملے میں ادارہ ترقیات کے ملازمین بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں سمندر خان ہی سب سے موزوں امیدوار ہے۔

تقریبا تمام ارکان سمندر خان کی بطور انتخابی امیدوار حمایت پر آمادہ ہوگئے اور سمندر خان کی کامیابی کے لیے جس جس رکن کو جو بھی ذمہ داری سونپی گئی، سب نے تندہی و ایمانداری کے ساتھ اس کو نبھانے کا وعدہ کیا۔ سمندر خان جو چپ چاپ نشست کی کارروائی کا جائزہ لے رہے تھے، فرمانے لگے گزشتہ عام انتخابات میں کراچی کے ایک انتخابی حلقے میں امیدوار کی حمایت کے لیے حلف بھی اٹھایا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ حلف اٹھوا لیاجائے تاکہ انتخابی مہم کے لیے آپ سب کے مالی و جسمانی اور اخلاقی تعاون کے ساتھ میں بھی تجوریوں کے منہ کھول دوں۔ سمندر خان کی تجویز سن کر خاموش رکن بنیے رام لال نے کہا، بھائیوں میں حلف اٹھانے کی مخالفت کرتا ہوں۔ آپ لوگوں نے حلف اٹھانا ہے تو اٹھالو۔ میں نے ہمیشہ بے ایمانی کا دھندہ انتہائی ایمانداری سے کیا ہے اور یہی ہمارے حلقے کے کاروبار اور دھندے کا اصول ہے۔

اس لیے میری بات مانو، بھگوان کو اس معاملے میں نہ ہی لاؤ تو بہتر ہے اور ویسے بھی تم لوگ اس دفعہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہورہے ہو۔ مانا کہ عدالت اب پہلے زیادہ متحرک ہے لیکن یہ بتاؤ، کتنے فیصد منتخب امیدوار، منتخب ہونے کے بعد اپنے انتخابی حلقے میں قدم رکھتے ہیں۔ سب کے قدم دارالخلافہ میں یا الیکٹرونک میڈیا میں ہی ٹکے اور جمے رہتے ہیں تاکہ حکمرانوں کی نظر میں رہیں۔ اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، انتخابی حلقے میں ویسے بھی انتہائی گھاگ امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ جن کی موجودگی میں سمندر خان کی حیثیت ایک قطرے کی سی ہے۔ لہٰذا ہمیشہ کی طرح خوش خوش گھر جاؤ، ادھر ادھر پیسہ اور وقت برباد نہ کرو۔ اپنے دھندے پر دھیان دو۔ بنیے کی بات تو دل کو لگی لیکن عشرت گجر بولا، رام لال تُو تو ہے ہی سدا کا کنجوس، پیسہ خرچ کرتے ہوئے تیری جان نکلتی ہے۔ اب جب فیصلہ ہوگیا ہے تو سمندر خان کی ہی کامیابی کے لیے سب مل جل کر کام کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).