قرار داد مقاصد کا گم گشتہ حوالہ


قرار دادِ مقاصد کے محرکات اور نتائج و عواقب ہماری تاریخ کو محیط ہیں- کئی سال تک اِس قرار داد کا کریڈٹ لینے کا جھگڑا چلتا رہا- اکثر لوگ مولانا شبیر احمد عثمانی کو اس کا کریڈٹ دیتے ہیں، حالانکہ اس قرار داد کی حمایت میں سر ظفر اللہ خاں نے بھی شاندار تقریر کی تھی- جماعت اسلامی والے ہمیشہ کی طرح اس قرار داد کا کریڈٹ لیتے ہیں – گویا وہ تب سے اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونے کے دعویدار ہیں- اس قرار داد کا ایک اور پس منظر بھی ہے-

قیام پاکستان کے ساتھ مرکز میں قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر سامنے آئی تھی- جسے ایک طبقے نے سنسر کرنے کی کوشش کی تھی- مگر وہ بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے- دوسری طرف پنجاب میں قیام پاکستان کے چند ماہ بعد محکمہ احیائے ملت اسلامیہ موجود میں آگیا- اس کی تفصیل نو مسلم محمد اسد نے اپنی خود نوشت سوانح میں قلمبند کی ہے- یہ خود نوشت اُن کی اسی نوع کی کتاب Road to MECCA کا دوسرا حصہ ہے- اس حصے کا عنوان Home Coming of the Heart ہے – اس کا اردو ترجمہ محمد اکرام چغتائی نے “محمد اسد بندہ صحرائی” کے عنوانی سے کیا ہے جو اصل انگریزی متن سے پہلے شائع ہوا ہے- ظاہر ہے کہ محمد اکرم چغتائی کے اردو ترجمے پر ہی اعتماد کرنا پڑتا ہے ۔محمد اسد محکمہ احیائے ملت اسلامیہ کے قیام کا پس منظر یوں بیاں کرتے ہیں کہ اکتوبر 1947ءکو نواب محمدوٹ نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور ان سے سوال کیا-

” ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرنا چاہیے….. اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا وزیر اعظم سے رجوع کرنا چاہیے“

محمد اسد نے اس سوال کے جواب میں جو اشارہ کیا وہ تاریخ کے صفحات پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا ‘ اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجئے- مر ی رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان نظریاتی مسائل کو زیرِ بحث لا سکے- جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے- خدا نے چاہا تو آئندہ حکومت کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہو گی-“

محمد اسد کی پیش بینی کی یہ صلاحیت یا مستقبل سے باخبری بھی خاصی معنی خیز ہے- وہ مغرب میں پید اہوئے ‘ مگر ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب و تقدیر سے متعلق ہمیشہ ایسی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں جو غلط نہیں ہوتی- یہ پیش گوئی بھی درست ثابت ہوئی-

اس گفتگو کے نتیجے میں محکمہ احیاءملت اسلامیہ وجود میں آیا- اس محکمہ میں زکوة اور عشر پر تحقیق ہونے لگی- محمد اسد اور نواب ممدوٹ کی گفتگو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہوئی- پھر اس ادارہ کے تجویز سے قیام کے تمام مراحل اس قدر سرعت سے انجام پائے کہ 19 اکتوبر سے کچھ پہلے یہ ادارہ قائم ہو چکا تھا- 19 اکتوبر 1947ء کے روزنامہ دی پاکستان ٹائمز میں اس ادارے سے متعلق مفصل رپورٹ شائع ہوئی- محمد اسد نے اس ادارے کے قیام سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیائے اسلام ہی یہ پہلا سرکاری ادارہ ہے جس کے نام میں لفظ اسلام استعمال ہوا ہے- انہوں نے بتایا کہ پاکستان ایک نوزائیدہ نظریاتی مملکت ہے اور جس نظریے کی بنیاد پر ملک معرضِ وجود میں آیا ہے اس کے پیشِ نظر اس کا آئین اور دوسرے قوانین بنائے جائیں گے- جناب محمد اسد کی گفتگو کا ایک اقتباس دیکھیے:

‘ All that we are aexpected to do, all that we can legitmately do, is to help the community to coordinate its spirtual and intellectual resources and to revive the moral strength of the which millat must be capable of virtue of its being the Millat of Islam; in other words, to help the millat to recreate the islamic atmosphere so necessary for a revival of islamic life in its practical aspects.”

لیجئے صاحب مرکزی حکومت کے ملک کو نظریاتی قرار دینے میں ابھی بہت وقت تھا- قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر ملک کو سیکولر قرار دے چکی تھی- مسلم لیگ کی مرکزی کونسل میں قائد اعظم وضاحت کر چکے تھے کہ انہوں نے مذہب کا نعرہ بلند نہیں کیا تھا ، مگر پنجاب حکومت کا ایک غیر ملکی ملازم پاکستان کو نظریاتی ملک قرار دے کر اس کی نظریہ سازی میں مصروف تھا-

محمد اسد کے محکمے نے اگلے قدم کے طور پر 1948ءمیں اسد کا ایک پرانا مضمون ہے اردو ترجمے کے شائع کر دیا- یہ مضمون جولائی 47ءکے عرفات میں شائع ہوا تھا- مضمون کا عنوان تھا : Towards Islamic Constitution اس کا اردو ترجمہ تھا: اسلامی دستور سازی کی جانب گویا دستو ر سازی کراچی میں بیٹھی دستور ساز اسمبلی کی بجائے لاہور کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی- کیا صوبائی حکومت مرکزی حکومت پر پریشر ڈال رہی تھی یا کوئی اور مقصد تھا؟ ان سوالات پر بحث کرنے سے پہلے تاریخ کے تسلسل کو سامنے لانے کے لیے محمد اسد کی وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں سے ملاقات کا تذکرہ بہت ضروری ہے-

مذکورہ مضمون کی اشاعت کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خاں نے محمد اسد کو کراچی طلب فرمایا- اس ملاقات کے حوالے سے محمد اسد لکھتے ہیں:

انہوں نے مجھے (محمد اسد کو) بھی سگریٹ پیش کیا ، جائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا عندیہ دیا …. انہوں نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : ” لیکن ہم اس موقع پر خود دستور سازی کا عمل شروع نہیں کر سکتے ۔ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے- کشمیر پر ہندوستان نے قبضہ کر لیا اور ہمارے پٹھان بھائیوں کی سری نگر پر قبضے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے……میں مانتا ہوں کہ دستور سازی کا عمل اہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے ، لیکن اسے بھی فی الحال موخر کرنا پڑے گا-“

لیاقت علی خاں ابھی ہیملٹ کی طرح To Do اور Not To Do کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں- کشمیر کی شکست انہیں احساس دلا رہی ہے کہ اسلامی دستور کا پرچم بلند کیا جائے- ہمارے ہاں ہر فوجی شکست کے نتیجے میں نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کیا گیا ، یہاں تک کہ فوجی حکومت نے ضیاءالحق کے دور میں جغرافیائی سرحدوں کی بجائے صرف نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کام سنبھال لیا تھا-

اب ذرا پنجاب حکومت کے اس پروگرام کی طرف آتے ہیں- “محکمہ احیائے ملت “ کا قلمدان سردار شوکت حیات کو دیا گیا یہی وہ سردار شوکت حیات ہیں جو اپنی خود نوشت میں قیام پاکستان کے پس منظر میں کسی نظریاتی حوالے کو تسلیم نہیں کرتے- پھر ایک پورے کا قلمدان سنبھالے رکھنا جو نظریاتی حوالے کو آگے بڑھا رہا ہو ایک تعجب خیز امر ہے-

اب اس سوال کی طر ف آتے ہیں کہ یہ محکمہ اس قدر عجلت میں کیوں کر قائم کیا گیا تھا- اسد اس کا جواب ان لفظوں کے ذریعے دیتے ہیں-

” نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے؟

ہمارے سامنے اصل متن نہیں صرف ترجمہ ہے- شک ابھرتا ہے کہ شاید یہ جملہ طنزیہ ہو ‘ مگر سیاق و سباق یہ خبر دیتا ہے کہ یہ جملہ طنزیہ نہیں- نواب ممدوٹ ایسے کسی الزام کے سزاوار نہ ہو سکتے تھے- نواب ممدوٹ شاید محمد اسد سے ملاقات سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ محمد اسد کی بات پر فی الفور عمل کرنا ہے ممکن ہے کہ نواب صاحب سے یہ فیصلہ کرایا جا چکا ہو- بہرحال جو کچھ بھی ہے ‘ یہ فیصلہ نواب صاحب کی فوری قوت فیصلہ کا نتیجہ تو نہیں ہو سکتا؟ ہاں فیصلہ نہ کر سکنے کی صلاحیت کا نتیجہ ہو سکتا ہے- ہمارے اس جملے کا مفہوم قارئین خود ہی سمجھیں تو بہتر ہے-

ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ پنجاب کو نظریے کے فروغ کا مرکز کیوں بنایا گیا تو ہمیں روز اول سے یہ کوششیں نظر آتی ہیں کہ اقتدار میں پنجاب کو فیصلہ کن حصہ دیا جائے اور پنجاب کو نظریے کا Dog Watch بنایا جائے- اس کی وجہ مقتدر قوتوں کی ایسی ترتیب تھی جس میں پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی- اس پر مستزاد یہ کہ پنجاب میں بعض جذباتی نعروں کے لیے فضا خاصی ساز گار بھی تھی- یہ پنجاب ہی تھا جس کی مشرقی پنجاب سے سرحد نہ زبان کو تفریق تھی ، جغرافیے کی – اس کی سرحد صرف مذہب کا اختلاف تھا یا پھر 6لاکھ انسانوں کے خون سے کھینچی گئی خونی لکیر تھی- جسے فکر تونسوی نے چھٹا دریا قرار دیا تھا-

محمد اسد نے اس لکھے کی طرف سے ایک رسالہ عرفات کے نام سے شائع کرنا شروع کیا تو اس کے پہلے شمارے میں ایک مضمون Islamic constitutions making لکھا- یہ مارچ 1948ءکی بات ہے اس عنوان کا ترجمہ اسلامی آئین کی تدوین کر سکتے ہیں- اب اگر آپ حیران ہوں تو میرے پاس آپ کی حیرت کا کوئی جواب نہیں کہ آئین سازی مرکزی حکومت کا کام تھا- اس کے اصول مرکزی اسمبلی کی بجائے صوبائی حکومت کا ایک ملازم طے کر رہا تھا- محمد اسد زیادہ دیر اس محکمہ میں نہ رہے اور لیاقت علی خاں کے کہنے پر وزارت خارجہ میں چلے گئے جہاں سے آپ اقوامِ متحدہ میں چلے گئے- وہاں پاکستانی اور امریکا دوستی کی بنیادیں استوار کرتے رہے- پھر نئی شادی کے لئے پاکستان اور اس کی وزارت خارجہ سے تعلق منقطع کر لیا- ان کی دستور اسلامی سے دلچسپی بہرحال برقرار رہی- انہوں نے اپنے عرفات والے مضمون کو مزید شرح و بسط سے لکھا اور اسے The Principles of state & Govt. in Islam کے نام سے شائع کرایا- ناشر کا نام بھی سُن لیجئے وہ تھا : کیلیفورنیا یونیورسٹی پریس کیلیفیورنیا کتاب کیلیفورنیا سے 1961ءمیں شائع ہوئی تھی-یوں ان کا مارچ 1948ءکا مضمون اپنے تمام امکانات سمیت سامنے آگیا- 1948ءکا یہ مضمون 1949ءکی قرار داد مقصاد پر کہاں کہاں اثر اندا زہوا- یہ تقابلی مطالعہ ہمارے آج کے محقق کا فرض ہے- کیوں صاحب ! پتا چلا کہ قرار داد مقاصد کیسے وجود میں آئی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).