آلو کھانے والے


دنیائے مصوری کی جدید تاریخ میں اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کا حصہ کسی دوسرے ملک یا خطے سے بڑھ کر ہے۔ شمالی یورپ کے ایک چھوٹے سے ساحلی ملک ہالینڈ نے مصوری کی وہ عظیم روایت تخلیق کی جسے ڈچ مکتب مصوری کہا جاتا ہے۔ اس میں علائم اور اساطیر تو یونانی، رومن اور مسیحی ہی ہیں لیکن سرد مرطوب آب و ہوا یورپ کی ہے۔ بل کھاتی گلیوں میں لمبے ہوتے سائے، سرسبز چراگاہیں، پھولوں کی ٹوکریاں اٹھائے لڑکیاں، دریاﺅں کے آب رواں میں ڈور ڈالے مچھیرا، گھاس پر بیٹھی عورتیں، کھلکھلاتے ہوئے بچے اور بلند و بالا گوتھک عمارتیں۔

ونسنٹ فاں گاگ 1853ء میں ہالینڈ کے ایک پادری کے ہاں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈچ مصوری حدِ کمال کو چھونے کے بعد قدرے انحطاط پذیر تھی اور ڈچ روایت پر جدیدیت کے بیرونی اثرات پڑنے لگے تھے جن میں تاثریت پسندی بھی تھی اور اظہاریت پسندی بھی۔ اظہاریت پسند مصوری میں موضوع کی ہوبہو تصویر کشی کی بجائے رنگ، لکیر اور موقلم کی حرکت سے فنکار کا جذباتی ردعمل بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ونسنٹ فاں گاگ نے اظہاریت پسند مصوری کو ترجیح دی اور اسے نکتہ کمال تک پہنچا دیا۔

فاں گاگ کی شخصیت میں بچپن ہی سے جذبے کی شدت کو بے حد دخل تھا۔ 27 برس کی عمر تک وہ آرٹ گیلری کی ملازمت، تدریس، بیروزگاری اور مذہبی تعلیم کے مراحل سے گزر چکا تھا۔ دو برس تک بیلجیم میں پادری بھی رہا جہاں اس نے انتہائی غریب کان کنوں اور کسانوں کی محرومی اور بدحالی کو بے حد قریب سے محسوس کیا اور گہرے تاریک رنگوں میں ڈوبی تصویروں میں ان محنت کشوں کی اذیت اور بے پناہ انسانیت بیان کرنے کی کوشش کی۔

فاں گاگ کا المیہ وہی تھا جو ایک سچے فنکار کا فنی، جمالیاتی اور سماجی منصب ہے۔ اُسے پٹے ہوئے راستے پر چلنا پسند نہیں تھا۔ اُسے زندگی میں تقلید پسند تھی اور نہ فن میں۔ اُسے ایک سچی لکیر کی تلاش نام نہاد شہرت اور معاشرتی مقام سے زیادہ عزیز تھی چنانچہ اس نے بھوک دیکھی۔ تجارت پیشہ مصوروں کے بول سہے، اُسے محبت میں دھتکارا گیا۔ وہ ایک ایسی خاتون کے ساتھ زندگی بسر کرتا رہا جس کا دل عورت کا تھا اور جسے معاشرہ طوائف کہتا تھا۔ اُسے کلیسائی تعلیمات سے انحراف کے الزام میں گرجا سے نکالا گیا، اُس پر نااہلی اور بدکرداری کی تہمتیں تراشی گئیں۔

فاں گاگ کے ہم عصر اسے مصوری کے جدید رجحانات سے بے بہرہ سمجھتے تھے مگر صنعتی یورپ کی روح اس کی تصویر “تاروں بھری رات” میں کھنچ آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاں گاگ زندگی بھر میں صرف ایک تصویر فروخت کر سکا تھا۔ شدت احساس اور نا قدری زمانہ کے ہاتھوں فاں گاگ نے 1890 ء میں خود کشی کر لی۔ اس کی عمر صرف 37 برس تھی۔ اس نابغہ روزگار کو اپنی زندگی میں داد ِ فن نہ مِل سکی لیکن آج اسے دنیا کا مہنگا ترین مصور سمجھا جاتا ہے۔

نیونن (ہالینڈ ) میں ونسنٹ فاں گاگ کے ایک کسان گھرانے سے دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے۔ ”ڈی گروٹ“ کے نام سے جانا جانے والا یہ خاندان باپ، ماں، بیٹے اور دو بیٹیوں یعنی پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ کھیتی باڑی کرنے والے ان جفاکش لوگوں کے خدو خال حبشیوں جیسے تھے۔ نتھنے چوڑے، ناک موٹی اور اوپر کو اٹھی ہوئی، ہونٹ بڑے اور قدرے لٹکے ہوئے، کان لمبے اور چوگوشیے، پیشانی تنگ۔ یہ خاندان ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا جسے کمرہ نہیں، جھونپڑا کہنا چاہیے۔ کمرے کے وسط میںایک میز اور دو کرسیاں تھیں۔ ایک کونے میں تین چار صندوق اوپر تلے رکھے تھے۔ دھو ئیں سے سیاہ چھت میں ایک لیمپ لٹکا ہوا تھا۔

ڈی گروٹ خاندان آلو خور خاندان تھا۔ صبح کے وقت سبز قہوہ پیتے تھے، ہفتہ دو ہفتہ بعد نمکین گوشت۔ ورنہ سارا سال صبح شام دونوں وقت آلو ہی اُن کی غذا تھی۔ وہ خود آلوکاشت کرتے، کھیت کی نلائی اور صفائی کرتے اور پھر سارے آلو خود ہی کھاتے تھے۔ یہی اُن کی زندگی تھی۔ فاں گاگ کے دل میں عرصے سے یہ خواہش چٹکیاں لے رہی تھی کہ ڈی گروٹ خاندان کی تصویر اُس وقت بنائے جب وہ رات کے وقت بُھنے ہوئے آلو کھا رہے ہوں اور قہوے کے پیالے نزدیک رکھے ہوں۔

ایک دن وہ ایزل، رنگوں کا ڈبہ اور بُرش اٹھائے ڈی گرو ٹ خاندان کی جھونپڑی پر جا پہنچا۔ گھر پر کوئی نہیں تھا۔ وہ پنسل سے کمرے کے اندرونی حصے کا خاکہ بنانے لگا۔ جب وہ لوگ کھیت سے واپس آئے تو اُس نے کاغذ چاک کر دیا۔ خاندان کے پانچوں افراد بیٹھ گئے۔ بُھنے ہوئے آلو، سبز قہوے کے پیالے اور گوشت کے پارچے اُن کے سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔ ونسنٹ نے اپنا کینوس ٹھیک سے جمایا اور خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ اپنی اپنی چارپائی پر پہنچ گئے۔ وہ رات بھر اپنے سٹوڈیو میں اُس تصویر پر کام کرتا رہا۔ دن بھر سونے کے بعد شام کو تصویر کی طرف دیکھااور بڑی حقارت سے کینوس نذر آتش کر دیا۔

ونسنٹ فاں گاگ کا خیال تھا کہ ڈرائنگ اور رنگ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ڈی گروٹ خاندان کے پانچوں افراد میز پر بالکل اُسی انداز میں بیٹھے ہوں، جیسے وہ زندگی بھر بیٹھتے آئے تھے۔ ونسنٹ اپنی تصویر میں یہ نمایاں کرنا چاہتا تھا کہ چھت میں لٹکے ہوئے لیمپ کے نیچے روزانہ آلو کھانے والے یہ لوگ اُنھی ہاتھوں سے زمین کھودتے تھے جن ہاتھوں سے وہ آلو کھا رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کی تصویر اُن کی جسمانی مشقت کو اس طرح ظاہر کرے کہ تصویر دیکھتے ہی اُن کی باتیں کانوں میں سنائی دینے لگیں اور اُن کی حرکات آنکھوں میں اس طرح پھرنے لگیں کہ سب کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ ایمانداری سے اپنی روزی کماتے ہیں۔

وہ ہر رات ڈی گروٹ خاندان کی جھونپڑی میں پہنچ کر اُس وقت تک اُن کی تصویر بناتا رہتا، جب تک وہ اونگھنے نہ لگتے۔ ہر رات وہ نئے نئے رنگ استعمال کرتا۔ مختلف طریقوں سے رنگوں ملاتا۔ ایک ایک خط کی باریکی کا دھیان رکھتا۔ ایک ایک نقطے کا خیال رکھتا۔ لیکن ہر رات اُسے یہ احساس ہوتا کہ وہ کوئی چیز بھول گیا ہے یا نظر انداز کر گیا ہے یا فلاں لکیر میں مبالغہ پیدا ہو گیا ہے اور وہ سمجھ لیتا کہ اُس کا کام آج بھی ادھورا رہ گیا ہے۔

ہر روز وہ سارا کام ضائع کر کے نئے سرے سے ڈی گروٹ خاندان کی تصویر بنانے لگتا۔ اُسے ناکامی کا جتنا شدید احساس ہوتا، وہ اتنے ہی جوش و خروش سے کینوس پر جھپٹتا۔ ایک شام وہ دیر تک جھونپڑی کے آگے بیٹھا اُن کا انتظار کرتا رہا۔ آخر کار وہ اپنا کام کر کے کھیتوں سے واپس آئے۔ اُس کا ایزل جما ہوا تھا، رنگ گھلے ہوئے تھے، اور کینوس فریم پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ اُس کا آخری موقع تھا۔ اگر آج بھی ناکامی ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ہمیشہ کے لیے شکست مان لے گا۔ اس نے کئی گھنٹے کام کیا۔ آج ڈی گروٹ خاندان کے افراد کھانا کھانے کے بعد میز ہی پر بیٹھے رہے اور کھیتی باڑی کے بارے میں آہستہ آہستہ گفتگو کرتے رہے۔ ونسنٹ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔ اُس کے ہاتھ اور ایزل کے درمیان آج کوئی خیال یا شعور کی کوئی لہر حارج نہیں ہو رہی تھی۔ دس بجے یہ عالم تھا کہ پانچوں افراد گہری نیند سوئے ہوئے تھے اور ونسنٹ تھک کر چُور ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنی چیزیں جمع کیں اور الوداع کہہ کر رات کی تاریکی میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چلا آیا۔ سٹوڈیو میں پہنچ کر اُس نے کینوس کُرسی پر جما دیا اور کھڑا ہوا اپنی تخلیق کو دیکھتا رہا۔ ہر چیز نامکمل تھی۔ سب کچھ خراب تھا۔ ڈھانچہ تھا مگر روح نہیں تھی۔ وہ پھر ناکام رہ گیا۔ دن رات کی محنت اکارت چلی گئی تھی۔

اس نے پائپ کا ایک کش لیا اور جھنجھلا کر کینوس کو ایک کونے میں پھینک دیا۔ فریم میں نیا کینوس لگایا۔ رنگ گھولے اور بیٹھ کر کام کرنے لگا۔ اُس نے پوری تصویر میں چھلے ہوئے آلوﺅں کا مٹیالا رنگ بھرا۔ میز پر میلا کچیلا میز پوش بچھا ہوا ہے۔ دیواروں پر دھواں جما ہوا ہے۔ کالونس سے اٹے شہتیر سے لٹکا ہوا لیمپ ٹمٹما رہا ہے۔ سٹائن بھنے ہوئے آلو چھیل چھیل کر اپنے باپ کو دے رہی ہے۔ ماں کیتلی سے سبز قہوہ نکال رہی ہے۔ بھائی قہوے کا پیالہ اپنے منہ تک لے جا رہا ہے۔ اُن سب کے چہروں پر وسیع کائنات اور فنا و بقا کی ابدی سچائیاں تسلیم کرنے کی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بالآخر جب ونسنٹ اپنے سٹول پر سے اٹھا، گودام کی کھڑکی سے دھوپ کی ایک کرن اندر آ رہی تھی۔ اُس نے اپنی تصویر کی طرف دیکھا۔ گوشت، دھوئیں، قہوے اور آلوﺅں کی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ مسکرانے لگا۔ اُس نے فانی چیزوں کو لافانی کر دیا تھا۔ اب برابانٹ کا کسان قیامت تک نہیں مرے گا۔ اُس نے انڈے کی سفیدی سے اپنی تصویر صاف کی اور پھر کینوس کے نیچے تصویر کا عنوان لکھا … ”آلو کھانے والے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).