تاریخ میں عرب عورت کی حالت زار


امام غزالی نے فرمایا کہ شادی کرنا اچھی چیز ہے کیونکہ تمام مردوں کو گھر بار کے مشقت طلب کام کاج کے لئے عورتوں کی ضرورت ہے۔ لیکن عرب عورت گھر میں کام کرتے ہوئے مرد کی انا کا بدنصیب مدفن بھی بن گئی۔ مرد نے اسے بیوی تو بنایا مگر یہ بھی فرض کر لیا کہ وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھول کر صرف یہ خیال رکھے کہ وہ اپنے نئے خاندان کے نام کو دھبا نہیں لگائے گی۔ وہ چار دیواری میں رہتی تھی اور گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی تھی۔ وہ ایک نقاب اوڑھے رکھتی تھی تاکہ اس کی عزت پر حرف نہ آئے۔ دوسری طرف عرب مرد دوسروں کی بیویوں پر غلط الزامات لگا کر ایک دوسرے کو بے توقیر کرتے رہتے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے خواتین پر تہمت تراشنے والوں کے لئے سخت سزا کی وعید سنائی ہے۔ بدقسمتی سے قران کا یہ حکم جس کی غرض عورت کا تحفظ کرنا تھا‘ مذہبی طبقے کی غلط تاویلوں کی وجہ سے خود عورت ہی کے خلاف استعمال ہونے لگا۔

اپنے آبائی کنبے سے جدائی عورت کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ امر تھا۔ بالعموم عرب اس تکلیف کے ازالے کے لیے اپنے قبیلے، کنبے بلکہ اپنی کزن ہی سے شادی سے کرتے اور مسلمان اور عیسائی تمام عرب اِسی روایت پر کابند تھے۔ کتاب میں اموی خلیفہ امیر معاویہ کی بیوی میسون بنت بہدل (یزید کی والدہ) کا یہ قول درج ہے کہ وہ ایک امیر عرب بادشاہ کی نسبت غریب رشتہ دار سے شادی کرکے زیادہ خوش ہوتی۔ چونکہ عرب خاتون کو اپنے آبائی خاندان سے اپنی خانگی زندگی کی راہیں جدا کر لینا ہوتی تھیں لہٰذا یہ امر اُس کے لیے کم تکلیف دہ ہوتا کہ وہ کسی کزن سے شادی کرکے اپنے خاندان سے رابطہ میں رہے۔ اگر وہ غریب تھی تو اُس کے حقوق گنے چنے ہوتے لیکن اگر اس کا تعلق کسی امیر خاندان سے ہوتا تو پھر اُسے نقاب نہ اوڑھنے حتیٰ کہ شوہر کو طلاق دینے جیسے بہت سے حقوق بھی حاصل ہوتے۔ مسلمان خواتین اور بہت سی یہودی عورتوں کو اپنے شوہروں کے ہاتھوں طلاق کے غیر مساوی اور غیر قرآنی طریقہ کار کا سامنا تھا اور اُن کے لئے عملاً یہ ناممکن تھا کہ وہ قرآنی طریق کار کے مطابق اپنے شوہر سے طلاق لے سکیں کیونکہ اس کا مقدمہ سماعت کے لئے ایک عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ اِس کو اپنے شوہر کی کثیر الزوجی کی ذلت بھی جھیلنا پڑتی تھی اور بچے ہی اس کا واحد جذباتی اثاثہ ہوتے تھے‘ مگر اس چیز کو بھی مرحوم شوہر کی جائیداد میں 1/8حصے جیسے معمولی ترکہ کے ذریعے کمزور کر دیا گیا تھا۔ کتاب میں عراق کے حنبلی مکتب فکر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جائیداد میں معمولی ترکہ ہونے کے باعث ایک عورت جج نہیں بن سکتی۔

عورت کے لئے امیر آدمی سے شادی کرنا اچھا تو تھا لیکن اس میں بھی کئی خطرات پنہاں تھے مثلاً یہ امیر آدمی عام طور پر تاجر ہوتا تھا جسے دولت کمانے کے لئے خطرناک سفر اختیار کرنے پڑتے اور لمبے عرصے کے لیے اپنے گھر سے دور رہنا پڑتا اور اس سارے عرصے میں بیوی اس کا انتظار کرنے پرمجبور تھی لیکن اسے یہ خیال رکھنا پڑتا تھا کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کو کوئی دھبا نہ لگ جائے۔ وجہ یہ تھی کہ عرب وظیفہ جنسی کو ایک ناگزیر ضرورت تصور کرتے تھے اور اس کے بغیرگزارے جانے والے تمام عرصے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ معاہدہ زوجیت میں عورت کی حیثیت ایک جنس کی تھی اور اسے کچھ رقم شادی سے پہلے (معجل) اور کچھ رقم طلاق کی صورت میں (غیر معجل) ادا کی جاتی تھی۔ مرد لونڈیوں سے بھی شادی کر سکتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ مرد کے تازہ ترین میلان طبع کی مناسبت سے بیوی کی حیثیت میں بھی نمایاں تبدیلی آتی رہتی تھی۔ ابن بطوطہ اپنے سفر کے دوران مختلف عورتوں سے شادی کرتا رہتا تھا‘ چنانچہ ایک عرب عورت تو گھر بیٹھے اپنے مسافر شوہر کے انتظار کی تکلیف برداشت کرتی مگر مرد پر کوئی پابندی نہ تھی۔ بسا اوقات بیویوں اور لونڈیوں کی تعداد قران کی بتائی ہوئی حد پار کر جاتی‘ ایسی صورت میں چند ایک کو طلاق دینے ہی میں عافیت سمجھی جاتی۔

خلوت باعث عزت تھی اور جلوت باعث شرم۔ کتاب میں مصر ی مورخین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ شہروں کی عورتیں اب گدھے ہانکنے والوں کے ساتھ بے تکلف ہوتی جا رہی ہیں۔ مرد اپنے گھوڑے سڑکوں پر دوڑاتے پھرتے جبکہ عورتیں کنارے کنارے گدھوں کی سواری کرتیں اور ایسے ہی سفروں کے دوران انھوں نے وہ بے تکلفی پیدا کر لی جسے مورخین نے ناپسند یدہ بیان کیا ہے۔ ابن بطوطہ بالکل ویسے ہی تاتاری عورتوں کو اِس بنیاد پر زیادہ پسند کرتا تھا کہ وہ اپنی عصمت کی بخوبی حفاظت کرتی تھیں جیسے آج کے ہندوستانی مسلمان کشمیری عورتوں پر اُن کی خوبصورتی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ آج بھی وسطی ایشیا کے ترکستانی لوگ اپنے گلہ میں تاتاری عورت کو بہترین شمار کرتے ہیں۔

مورخ ابن الحج بیان کرتا ہے کہ مصر کے حماموں میں امیر عورتیں تواتر سے آیا کرتی تھیں کیونکہ وہاں پر مخنث ان کی خدمت پر مامور تھے۔ یہ مخنث لڑکے کئی مرتبہ صحیح طور پر خصی نہیںکیے جاتے تھے جس کی وجہ سے دونوں ہی خوب جنسی حظ اٹھاتے۔ اِس شرم ناک صورتِ حال کے باعث چند خلفا نے اس معمول پر پابندی لگا دی اور نئے قوانین کے بعد معاشرہ رفتہ رفتہ اِن کے بغیر رہنے کا عادی ہو گیا۔

تاہم صحرا نشینوں یا بدوؤں کے لئے معاملات مختلف تھے۔ سادہ زندگی گزارنے والی یہ عورتیں شہری مکروہات سے زیادہ متاثر نہیں تھیں۔ وہ پُرمشقت زندگی کے باوجود اپنے انفرادی کردار میں مضبوط ہوتی تھیں جس کا مردوں میں احترام کیا جاتا تھا۔ آسائشیں سے محرومی کے باوجود قبیلے میں ایسی مساوات پائی جاتی تھی جو شہروں میں نہیں ملتی تھی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہروں میں با اختیار عورتیں نہیں تھیں۔ عباسیوں کے بغداد میں فی الحقیقت با اختیار ملکائیں موجود تھیں جو پس پردہ رہ کر حکومتی معاملات پرا ثر انداز ہوا کرتی تھیں۔ ہشام دوم کی ’صبح‘ نامی ہسپانوی نژاد ماں نے اپنے بیٹے کے حقوق کے لیے بڑی بہادری اور ذہانت سے جوڑ توڑ کی۔ شجرہ الدر نامی ایک خاتون فی الحقیقت بغداد کی ایک برسراقتدار ملکہ بن گئی اور ہندوستان کی رضیہ سلطان کی طرح اس نے بھی سلطانہ کا لقب اختیار کر لیا جبکہ موخرالذکر نے مردوں میں حکومت کرنے کے لئے ظاہری طور پر بھی مردانہ انداز و اطوار اختیار کرلیے تھے۔

بسا اوقات عزت و احترام بے فائدہ چیز تھی کیونکہ جہالت اور پس ماندگی بھی اس سے منسلک تھی۔ اعلیٰ تہذیب صرف عرب ڈیرے دار طوائفوں کے لئے مخصوص تھی۔ مشتبہ شہرت کی حامل اِن خواتین کی شاعری میں عمدہ ذوق اور علم و فہم کی وجہ سے بھی عزت کی جاتی تھی اور بسا اوقات خود خلیفہ بھی ان کے طلب گاروں کی فہرست میں شامل ہوتا۔ ایسی ہی ایک خاتون ’تو ودد‘ تھی جسے خلیفہ ہارون الرشید نے بھاری قیمت ادا کر کے حاصل کیا تھا۔ طوائف کو عزت احترام تو نہیں ملتا تھا مگر ان کی زندگی شریف زادیوں سے زیادہ دلچسپ ہوتی۔ اس کتاب میں ایسی ڈیرے دار خواتین کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے نہ صرف شاعری میں نام کمایا‘ بلکہ فقہ اور دیگر مذہبی علوم میں درک کے علاوہ اپنی ذہانت کی وجہ سے بھی بہت عزت پائی۔

(شرے گوتھری کی کتاب ”عہد وسطیٰ میں عرب عورتیں‘ نجی اور عوامی کردار“ پر معروف دانشور خالد احمد کا تبصرہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).