قائد اعظم کا پاکستان اور ہماری مصلحت پسندی


چند روز پہلے کی بات ہے، اہلِ فکر و دانش کی ایک محفل میں مذہبی انتہا پسندی کے سوال پر بات ہو رہی تھی اور تمام شریک گفتگو حضرات و خواتین اِس پر متفق تھے کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ہمارے قومی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اگر ہمیں قوموں کی برادری میں باوقار مقام حاصل کرنا ہے توانتہا پسندی کے اِس جنون سے چھٹکارا پانا ہوگا ۔میں نے تحریکِ پاکستان کے تاریخی پسِ منظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو قومی نظریہ بنیادی طور پر مسلمانوں کی سیاسی اور معاشی آزادیوں سے عبارت تھا، علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں ہندو اکثریت کے معاشی اور سیاسی تسلط کے خلاف برسرپیکار رہے ، ابتدا میں قائداعظم سمیت تمام مسلمان راہنماؤں نے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان کے اندر سیاسی اور معاشی تحفظات حاصل ہوجائیں اور اِس امر کی آئینی ضمانت مل جائے کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کو اُن کی سیاسی آزادیوں ، سماجی حقوق اور معیشت میں جائز حصے سے محروم نہیں کرے گی لیکن کانگریس کی طرف سے ایسی کسی بھی یقین دہانی سے انکار کیا جاتارہا ۔ مسلم لیگ و انگریزی حکومت اور مسلم لیگ و کانگرس کے درمیان مذاکرات کے طویل ادوار اور سیاسی کشمکش کی تاریخ سے ملنے والی تمام شہادتیں ظاہر کرتی ہیں کہ حصولِ پاکستان کی جدوجہد درحقیقت مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد تھی اور جب متحدہ ہندوستان کے اندر اِس کی کوئی ضمانت نہ مل سکی تو قائداعظم کو مجبوراً علیحدہ وطن کا مطالبہ پیش کرنا پڑا۔

قیامِ پاکستان کی تاریخ طے ہوگئی تو 11 اگست کو سندھ اسمبلی کے ہال میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، دستور ساز اسمبلی نے معرضِ وجود میں آتے ہی قائداعظم محمد علی جناح کو اپنا پہلا صدر منتخب کیا۔ دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد بانی پاکستان نے اپنے خطاب میں آئین سازی کے لئے جو راہنما اُصول قوم کے سامنے رکھے، اُن کی نمایاں باتیں یہ ہیں ”آپ آزاد ہیں ، آپ پاکستان کی ریاست میں اپنے مندروں میں جا نے کے لیے اپنی مسجدوں میں یادوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ خواہ کسی بھی مذہب ، نسل یا ذات سے وابستہ ہوں، اِس کا تعلق اِس بنیادی اُصول سے ہے کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری اور مساوی حیثیت رکھنے وانے شہری ہیں “۔”میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اپنا آئیڈیل اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ وہ فرد کے ذاتی ایمان کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے، ایک ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے“۔

بانی پاکستان کے ذہن میں جس ملک کا خاکہ تھا، اُس کے خدوخال کا اندازہ اُن کے مندرجہ بالا فرمودات سے لگایا جاسکتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران قائداعظم کو مذہب کے حوالے سے جو باتیں کہنا پڑیں، درحقیقت وہ مذہبی سیاستدانوں کے مخالفانہ پروپیگنڈے کے جواب میں کہی گئیں۔ قائداعظم کو ہندو اور انگریز کی مخالفت ہی کا سامنا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی قیادت کے دعویدار، مولانا حضرات اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بیشتر مولوی حضرات بھی اُن کی مخالفت میں پیش پیش تھے، یہ لوگ قائداعظم پر الزام لگاتے تھے کہ اُنھیں مسلمانوں کی قیادت کا کوئی حق نہیں اور اُن کا بنایا ہوا پاکستان کسی طرح بھی اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہتر ثابت نہیں ہوگا بلکہ وہ قائداعظم کو مسلمانوں کی قیادت کے نااہل ثابت کرنے کے لیے شرمناک حد تک اُن کی کردار کشی کیا کرتے تھے۔ عام مسلمان چونکہ اپنے دین سے محبت کرتا ہے، اِس لیے اُس کے گمراہ ہونے کا اندیشہ تھا اور اِسی وجہ سے قائداعظم کو بار بار یہ بتانا پڑتا تھا کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں اور اقدار کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، قائد کے یہی وضاحتی بیانات آج ملا حضرات، اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے پیش کرتے ہیں اور یہ بات چھپا لی جاتی ہے کہ قائد کو یہ وضاحتیں خود مولوی حضرات کے لگائے ہوئے الزامات کے جواب میں کرنا پڑتی تھیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مولوی حضرات نے آخری دم تک قیامِ پاکستان کی شدید مخالفت کی۔ علما کی سب سے بڑی اور منظم جماعت، جمعیتِ علمائے ہند کانگرس کی حلیف تھی، علامہ اقبال کو مولانا حسین احمد مدنی کے سیاسی موقف پر تنقید بھی کرنا پڑی تھی ۔ افسوس کہ یہ باتیں نوجوان نسل سے چھپائی گئیں اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کو ہماری تاریخ اور نصابی کتب سے بددیانتی کرتے ہوئے حذف کردیا گیا، نئی نسل اِس علمی گمراہی کا کس حد تک شکار ہے؟ اس کا اندازہ مذکورہ محفل میں اُدھیڑ عمر کے ایک دانشور کی بات سے ہوا، یہ دانشور اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے حق میں دلائل دے رہے تھے لیکن جب مذہبی سیاستدانوں کے کردار کی بات آئی تو اُنھوں نے معصومیت سے کہا ”پاکستان بنا تو اِسلام کے نام پر تھا“۔ جب میں نے اصرار کیا کہ دو قومی نظریے کی بنیاد مسلمانوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول اور تحفظ پر تھی تو وہ کچھ حیرت زدہ ہوئے اور بولے ”ہم نے تو یہی پڑھا ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا“۔اِس فرق کو بڑی چالاکی سے ختم کیا گیا کہ مسلمانوں کے حقوق اور اسلام دو الگ چیزیں نہیں ہیں ، جہاں مسلمان آزاد، خوشحال اور مضبوط ہوں گے، وہاں اسلام کا بھی بول بالا ہوگا۔ ہوایوں کہ جب مولوی حضرات پاکستان کو وجود میں آنے سے نہ روک سکے تو اِس پر قبضے کے طریقے سوچنے لگے ، سب سے پہلے اِن لوگوں نے اپنا پاکستان دشمن کردار نگاہوں سے اوجھل کرنے کے لئے تاریخ کو مسخ کیا ، اِس کے بعد قیامِ پاکستان کے مقاصد کے معاشی پہلو غائب کرکے ، مذہبی عنصر نمایاں کیا اور اِس کی آڑ میں اپنی سیاسی دکانداری چمکائی، تحریکِ آزادی کے دوران مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ان لوگوں کے تصورات کا جائزہ لینا ہو تو اُن کی اس دور کی تحریروں اور تقریروں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ انہوں نے پاکستان میں دستیاب تمام کتابوں سے وہ حوالے حذف کردیے ہیں ، جن میں اُن کے پاکستان دشمن خیالات درج تھے۔

تحریکِ آزادی کے دوران مسلمان مذہبی سیاستدانوں کی اکثریت علیحدہ وطن کے حق میں نہیں تھی، یہ لوگ متحدہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے حقوق کو زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے، اُن کے نزدیک آزادی کا مطلب مذہبی رسومات کی آزادی تھی، رہن سہن میں امتیازی خصوصات برقرار رکھنے کا حق تھا، ریاستی قوانین میں مسلمانوں کے لئے امتیازی تحفظات کا حصول تھا ، جیسے ایک سے زیادہ شادیوں کا حق یا وراثت کے قوانین میں مسلمانوں کے لئے شرعی طریقہ کار کے لیے علیحدہ دفعات کا اندراج وغیرہ۔سیاسی اعتبار سے یہ لوگ کانگرس کو تمام ہندوستان کی نمائندہ جماعت سمجھتے تھے اور مسلم لیگی قیادت جب مسلمانوں کے علیحدہ حقوق کے لئے آواز اُٹھاتی تھی تو یہ لوگ اِسے انگریزوں کی سازش قرار دیا کرتے تھے۔ اگر اِن لوگوں کے تصورِ آزادی کا تجزیہ کیا جائے تو آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو یہ مذہبی سیاستدان مانگا کرتے تھے۔جمعیت علمائے ہند کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی پوری آزادی حاصل ہے، دیو بند میں اُس کا مدرسہ بھارت کے اندر بھی پھل پھول رہا ہے اور ہندو اکثریت کی حکومتیں بھی نئے مدرسے قائم کرنے اور مسجدیں بنانے کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتیں ۔ بھارت کے اندر مسلمانوں کے مدرسوں کی تعداد آزادی کے وقت سے کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے۔ کئی ریاستی قوانین میں مسلمانوں کے لئے امتیازی دفعات بھی موجود ہیں۔ جوکچھ آج ہندوستان کے مسلمانوں کو حاصل ہے مذہبی سیاستدان سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یہی کچھ مانگ رہے تھے۔

اگر پاکستان قائم نہ ہوتا اور مسلمانوں کی اکثریت نے قائداعظم کے مخالف مذہبی سیاستدانوں کی بات مان کر قیامِ پاکستان کی مخالفت کی ہوتی تو آج پاکستان میں رہنے والے مسلمان بھی اُنھی بدترین حالات کا شکار ہوتے جن میں آج بھارت کے مسلمان رہنے پر مجبور ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذہبی سیاستدان قائداعظم کے مقابلے میں ناکام ہونے کے بعد اِس کانگرس کے بھارت کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بناتے جس کی اُنھوں نے مسلم لیگ کے مقابلے میں حمایت کی تھی لیکن پاکستان بنتے ہی یہ لوگ بھارتی مسلمانوں کو ہندوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر یہاں چلے آئے اور پاکستان میں قائداعظم کے دیے ہوئے راہنما اُصولوں کی روشنی میں آئین سازی کے عمل کو ناممکن کردیا۔ پہلے یہ اسلام کی آڑ میں قرار دادِ مقاصد لے کر پاکستان کے سیاسی منظر میں داخل ہوئے اور پھر قائداعظم کے بعد آنے والی سیاسی قیادت کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے روز بروز مو ¿ثر ہوتے چلے گئے۔یہی مذہبی سیاستدان تھے جن کے ایک راہنمانے جہادِ کشمیر کو حرام قرار دیا تھا اور آج اُسی راہنما کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے جہادِ کشمیر کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ قرار دادِ مقاصد کو پاکستان کے حکمران طبقوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کے حقوق سلب کرنے کے لیے اِستعمال کرنا شروع کردیا اور اِس کا م میں مذہبی سیاستدان اُن کے مددگار بن گئے اور اِس طرح پاکستان کی مخالفت کرنے والے اِن لوگوں کو پاکستان کی قومی سیاست میں موثر ہونے کا راستہ مل گیا۔ اِس راستے پر چل کر یہ پاکستان کے پاور سٹرکچر میں داخل ہونے لگے۔ دفاعی اداروں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملازمتیں حاصل کرلیں، بیورو کریسی میں جڑیں پھیلائیں ، تعلیمی اداروں میں اپنے ہم خیالوں کو مسلط کیا اور اِس طرح قیامِ پاکستان کے بنیادی مقاصد کو تہس نہس کرتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کا دور آنے تک اپنی مرضی کا نظریہ  پاکستان ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران نظریہ پاکستان جیسی کوئی اصطلاح سامنے نہیں آئی تھی۔ قائد اعظم انگریزی زبان کے ماہر تھے وہ چاہتے تو ٹونیشن تھیوری کی بجائے ٹونیشن آئیڈیالوجی کی اصطلاح اِستعمال کرسکتے تھے لیکن اُن کی تمام تقریروں میں آپ کو ایسی کوئی اصطلاح نظر نہیں آئے گی۔ قائد نے ہمیشہ ٹونیشن تھیوری کی اصطلاح استعمال کی لیکن آج پاکستان کی نوجوان نسل جو تاریخ پڑھتی ہے اس میں نظریہ پاکستان کی اصطلاح اِس طرح سے شامل کی گئی ہے جیسے یہ پاکستان بنانے والوں کا نصب العین رہا ہو۔ قائداعظم کے تصورِ پاکستان میں روشن خیال اعتدال پسندی ہی بنیادی عنصر تھا دیکھنا یہ ہے کہ قائداعظم کے پاکستان میں ہم قیامِ پاکستان کے بنیادی مقاصد کی طرف رجوع کرتے ہیں یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).