علن فقیر، فیض بلوچ اور سکندر خان


میوزک سنتے ہوئے بہت سے لوگوں کو سر ہلاتے، ہاتھ پیر لہراتے، جھومتے، باقاعدہ رقص کرتے ہوئے دیکھنا ایک عام تجربہ ہے ۔ ایسے کیس بہت کم ہوتے ہیں جب گانے والا خود اپنا گانا انجوائے کرتا ہو۔ گاتے ہوئے گم ہو جانا، آنکھیں بند کر لینا، کسی روحانی واردات میں کھو جانا، یہ سب استادوں کے دور کی بات تھی، انہی کو زیب دیتی تھی، ابھی میٹیریلسٹک دنیا میں اگر کوئی گانے والا اپنے گیت کے ساتھ بے خودی میں جھومنا شروع ہو جائے تو ہم دنیاداروں کے لیے یہی بڑا دلچسپ منظر ہوتا ہے۔ تیس چالیس برس پہلے علن فقیر ٹی وی پہ آیا کرتے تھے ، اتنے بڑے جیون ساگر میں، تو نے پاکستان دیا، ہو اللہ، ہو اللہ، یہ گاتے ہوئے وہ پیارا سا ملنگ آدمی جس کیفیت میں ہوتا تھا شاید وہی چیز ہے جو آج بھی دماغ سے باہر نہیں نکلی اور جیسے ہی گانے میں بے خودی کا ذکر آتا ہے خود بہ خود لفظوں میں ڈھل جاتی ہے ۔ فیض محمد بلوچ ہوتے تھے ، وہ تو باقاعدہ راک سٹار تھے ۔ جیسے مزے لے کر وہ گاتے تھے اس کانفیڈنس کا عشر عشیر بھی آج کے کانسرٹ بھگتانے والوں میں نظر نہیں آتا۔ ای ناز حسن والا، لائیو کراؤڈ میں گایا ہوا یہ گانا بلیک اینڈ وائٹ ریکارڈنگ میں اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے ، کیسے بے ساختگی سے گا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں، دل کرتا ہے تو ساز کو ایک ہاتھ پر اٹھا کے گھما دیتے ہیں، موج آتی ہے تو پیروں کو جھومر کے سے انداز میں ہلاتے ہیں، کبھی گول گول گھومتے ہیں، کبھی بازو لہراتے ہیں۔ وہی فیض محمد بلوچ جب سٹوڈیو میں “ہم سب کا ایک سہارا، یہ پاکستان ہمارا” گاتے ہیں تو وہ مستی غائب ہو جاتی ہے ۔ شاید کیمروں کا رعب تھا یا ذمہ داری کا احساس ہو گا۔ جو بھی تھا ای ناز حسن والا پھر دماغ سے نہیں اترا، برابر وہیں کا وہیں جما ہوا ہے ۔

خود گاتے گاتے مست ہو جانا بھی قدرت کی عطا ہوتا ہے ۔ جب تک گانے والا اپنی لے ، سر، تال سے مطمئن نہیں ہو گا، بے فکرا نہیں ہو گا تب تک وہ یہ حرکت نہیں کرے گا۔ یہ بے فکری عموماً تبھی ہوتی ہے جب گائیک کے ہاتھ میں کوئی دھانسو ساز ہو اور وہ سیلف سفیشنٹ ہو۔ یا اس بات کو یوں کہہ لیجیے کہ وہ پیچھے بیٹھے سازندوں کے رحم و کرم پر نہ ہو۔ اب دھانسو ساز کی سب سے اعلیٰ مثال چمٹا ہے ۔ ایک چمٹا، اگر اسے بھرپور طریقے سے بجانے والا موجود ہو تو وہ کیا کچھ کر سکتا ہے ، یہ سب عالم لوہار مرحوم بتا گئے ۔ چونکہ ان کا بھی ون مین شو ہوتا تھا اور چمٹے کے سہارے گاتے گاتے پوری رات بھی وہ گزار سکتے تھے تو اس لیے ان کی پرفارمنس بھی ایسی ہی جوشیلی ہوتی تھی۔ جگنی گاتے یا گھڑا سناتے سٹائل ان کا دیکھنے والا ہوتا تھا۔

جب کچھ بھی آس پاس موجود نہ ہو اور فرمائشی پروگرام چلنا شروع ہو جائے تو اچھے سے اچھا گانے والا بھی کوئی نہ کوئی چیز سنگت کے لیے تلاش کرتا ہے ۔ اکثر اوقات یہ کام سامنے موجود میز سے لیا جاتا ہے ۔ وہ نہ ہو تو گرہستن سے پرات منگائی جاتی ہے اور دھرتی قلعی کرنے کی عارضی مہم اس پر چلتی ہے ۔ تصور کیجیے کسی ایسی جگہ کا کہ جو ایک کھلا میدان ہے اور گانے والا ادھر موجود ہے ۔ اب جو فرمائش آئے گی وہ کیسے پوری ہو گی؟ دو صورتیں ہیں، یا تو ہاتھ پر تال دے لے یا پھر بغیر کسی میوزک کے گانا شروع کر دے ۔ بغیر ساز کے گانا عموماً کہیں نہ کہیں میٹر تڑوا دیتا ہے اور ویسے بھی اچھے بھلے گانے سے عقیدت سی ہونے لگتی ہے تو گلوکار اس سے بچنے کو ایک کنٹی جینسی پلان استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہوتا ہے ماچس پر تال دینا اور گانا۔

ملتان میں پڑھائی کے دن تھے ۔ سر جوزف کالج آتے تو اکثر سائمن بھائی کے ساتھ آتے تھے ۔ سائمن بھائی گاتے بہت اچھا تھے ۔ درویش آدمی تھے ، فرمائش کرنے والے کو انکار نہیں کرتے تھے ۔ یاروں کی ٹولی کلاس چھوڑ کر ان کو گھیر لیتی اور فرمائشیں شروع ہو جاتیں۔ وہ بے چارے کینٹین سے ماچس منگواتے اور اسی کو بجا کر گانا شروع کر دیتے ۔ ماچس پر گایا ہوا پنجابی گانا کس قدر پراثر ہو سکتا ہے یہ سائمن بھائی کو سن کر اندازہ ہوا تھا۔ نی چمبے دئیے بند کلیے ۔۔۔ گانا شروع ہوتا اور تصویر بنا کر ہی ختم ہوتا تھا۔ خدا زندگی صحت دے مرشدو، جہاں ہیں خوش رہیں بھائی سائمن، کیا دن تھے !

بہت طویل عرصے کے بعد ماچس پر گایا ایک گانا انٹرنیٹ پر سننے کا اتفاق ہوا اور بہت سی کیفیات سے گزار گیا۔ یہ ایک عام سا گانا تھا۔ چارپائی پہ ایک نسبتاً طویل قد کا انسان بیٹھا ہے ، سامنے کوئی شخص موبائل سے ریکارڈ کر رہا ہے اور وہ آدمی گا رہا ہے ۔ اللہ جانے وے ماہی، تیرا پیار کی اے ! اعداد و شمار دیکھے جائیں تو وہ گانا اب تک لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں، اس میں ایسا کیا ہے ؟ شاید یوں ہے کہ وہ آبنوسی درویش ایسے خلوص سے گا رہا ہے کہ پورا گانا اس کی شارٹ ویو فریکوئنسی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ویڈیو دیکھ کر باقاعدہ ایک خوشی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ کیوں ہوتی ہے ، اس کا جواب اس مسکراہٹ اور وارفتگی میں ہے جو اس کے دیسی چہرے سے چھلکی پڑ رہی ہے ۔ ہائے وے ماہیا کہتا ہے اور سر جھکا کے پھر ماچس بجانے لگ جاتا ہے ۔ کبھی باقاعدہ سرگم اٹھاتا ہے ، کبھی گاتے گاتے دور آسمانوں میں دیکھنے لگتا ہے ، کبھی تال دیتے وقت مست ہو کر دونوں ہاتھ سر سے بھی اونچے کر کے ماچس بجانے لگتا ہے ، کبھی “تیرا پیار کی اے ” کہتے کہتے پوری گردن گھما دیتا ہے ، کبھی وجد کے آسمانوں سے زمین پر آتا ہے تو سامنے والے کو (جو بھی چارپائی پر سامنے بیٹھا ہو گا) داد طلب + والہانہ نظروں سے دیکھتا ہے ، یہ نظر جو صرف اور صرف ایک جینوئن سنگر کا خاصہ ہے چاہے علن فقیر ہو، چاہے فیض بلوچ ہو، چاہے یہی اپنا کالے خان ہو۔ جو بھی ہے عجیب ہی بے خود آدمی ہے ۔

ملک سکندر خان کھوڑی عرف کالے خان نامی اس گلوکار کی پانچ چھ اور ویڈیوز بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں لیکن وہ جو کلک کرنا ہوتا ہے وہ اسی ویڈیو نے کیا۔ نیچے کمنٹس میں کوئی صاحب لکھتے ہیں کہ اس سال کے پہلے مہینے ملک سکندر روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کاش ایسا نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر ہوا بھی ہو تو خدا مغفرت کرے اس کی ادھر بھی موجیں ہو گی۔ کیسا آدمی تھا، آج تک محبت بانٹے جا رہا ہے ، بانٹے جا رہا ہے ، فیض ہے کہ مسکراہٹ کا ہے ، تحفہ ہے کہ تال کا ہے ، اور ایسا ہے کہ جتنا بٹتا ہے اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ کالا خان بے چارہ پارکوں، کمروں، چارپائیوں، قالینوں، بیٹھکوں میں گاتا گاتا خالی ہاتھ مر جاتا ہے ، صرف انٹرنیٹ پر اس کی یادیں رقص کرتی ہیں اور جو فیوژن کے نام پہ پرانے گانوں کا سوا ستیاناس کر رہے ہیں وہ دنیا جہان کے میڈیا کا ایکسپوژر پاتے ہیں۔ بھائی اپنی دھن تو بنا لو یار کم از کم خدا کے واسطے ۔۔۔ یا پھر کوئی چندہ وغیرہ کر کے صاحبان ذوق ایک فوک سٹوڈیو بنائیں اور اس میں صرف شاہ جمال کے میلے سے پندرہ بیس بندے لا کے کھڑے کر دیں تو کم از کم اوریجنل چیزیں تو سننے کو ملیں گی۔ اب بھی ایک سے ایک گانے والا پاکستان میں موجود ہے ، ہر کالج یونیورسٹی سے بیسیوں نوجوان سامنے آ سکتے ہیں، میلوں ٹھیلوں میں جا کر ڈھونڈا جا سکتا ہے ، اور کوئی نہیں تو وہ ملنگ ہی حاضر ہے بھئی جو ملتان کی گلیوں میں چمٹے پر منقبت پڑھتا گھومتا رہتا ہے ۔ صرف ایک چیز کا دھیان رکھنا ہو گا، جیسے طبلے پر مائیکل جیکسن کو نہیں گوایا جا سکتا ویسے ہی علی سیٹھی کو “رنجش ہی سہی” دے کر اس بے چارے کا سارا کیرئیر آزمائش میں مت ڈالا جائے ۔

پیار نہیں ہے سُر سے جس کو، وہ مورکھ انسان نہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain