میں پاپا کی شکل ہی بھول گئی تھی


عاصم حسین گاڑی چلاتے وقت پُر مزاح گفتگو کا شوقین ہے، قہقہ لگا نا اور ہاتھ پر ہاتھ مارے بنا نہ تو اس کی بات مکمل ہوتی ہے اور نہ ہی پیسے پورے ہوتے ہیں۔ آج بھی اُس نے لگ بھگ کوئی درجن بھر بار ایسا ہی کیا مگر میں اُسے بھر پور توجہ نہ دے سکا۔ اِس کی ایک وجہ تو میرے ذہن میں بار بار اُٹھتے ہوئے کچھ اُلجھے اُلجھے سوالات تھے تو دوسری وجہ یہ کہ میں گاڑی سے باہر نظر آنے والے دلفریب و جان لیوا مناظر میں کھو چکا تھا۔

صبح کی بارش اور دوپہر کی گرمی کے بعد اب حبس میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔ ہم لاہور میں یوحنا آباد اور دوسری رہا ئشی بستیوں کی حد بندی کرنے والے نالہ روہی کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے گُلو کوٹ کی جانب رواں دواں تھے، جو مسیحی اور مسلم عقائد سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مشترکہ رہائشی بستی ہے۔ مساوی حقوق کے گھن چکر میں پسے شہریوں کی اِس بستی کا تعارف فقط اتنا ہی ہے کہ آپ اِسے ڈیفینس ہاوسنگ سوسائٹی یا بحریہ ہاوسنگ سوسائٹی میں میسر سہولیات کے اُلٹ سوچ لیں، بس ایسی بستی ہے یہ!

چلتے چلتے ہماری ایک جانب روہی نالہ آس پاس کی گندگی اور غلاظت سمیٹتے ہوئے بدبو پھیلا رہا تھا مگر دوسری اوڑ چھوٹے بڑے، رنگ برنگے اور بے ترتیبے مکانوں کی لڑی چل رہی تھی۔ کہیں حفظان ِ صحت کے اصولوں سے بالکل نابلد اشیا خوردونوش کی دکانیں، ریڑھیاں اور چھابڑیاں سجی تھیں تو کہیں ہربھرے کھیت کھلیا نوں میں بھیڑ بکریاں چارہ چرتے بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی تو فیکٹریوں کی بھاری بھر کم گاڑیاں دل کو ہولے سے دھچکا دے کر پاس سے گزرتی رہیں۔ ہم بستی گُلو کوٹ کا پل پار کرنے ہی والے تھے تو نظر کوڑے کے اُس ڈھیر پر جا ٹھہری جہاں آدھی دُم کٹی والا ایک کُتا اور نیم برہنہ بدنوں والے دو بچے اپنا اپنا نصیب تلاش کر رہے تھے۔ اُسی لمحے پاس سے گزرتے چنگچی رکشہ کے بے ڈھنگے شور نے ہماری توجہ میں خلل ڈال دیا۔

یہ کوئی گھر تھوڑی تھا، بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہزاروں اینٹوں کو یکجا کر کے سر چھُپانے کا آسرا کیا گیا تھا۔ اِس غربت اور ایذا رسانی نے نہ صرف گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی تھی بلکہ تنگ دستی اور طعنوں نے گھر میں ڈھنگ کی کوئی شے بھی نہ چھوڑی تھی۔ نہ عزت، نہ سکون، نہ تعلیم ، نہ شعور، نہ تعلقات اور نہ ہی سماجی معاملات ۔ جس طرح اہل ِ خانہ کا ماضی آنسووں میں ڈوبا تھا تو عین وا ضح تھا کہ مستقبل بھی غموں کی سیج سے کم نہیں ہوگا۔ گھر کے دونوں کمروں میں پھیلا اندھیرا نجانے وقتی تھا یا قسمت کا لکھا اور نہیں معلوم کہ چار سوُ پھیلی بے ترتیبی گھر کا چلن تھی یا ماتمی ماحول کی باقیات۔

5 سے 10 سال کی درمیانی عمر کے تین بچے ہمارے اردگرد طواف میں مگن اور حیرت میں ڈوبے تھے، مگر ہم دیوار سے گرتے ہوئے سائے میں بیٹھے اِس سوچ غرق کہ اِن بچوں کا بچپنا کہاں گیا ؟ چہروں پر فقط اُداسی، مایوسی، آنسو اور حقارت کی چلتی پھرتی کہانیاں تھے یہ بچے۔ پانچ سالہ اینجل کو پیار اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تو یہ دیکھ کر ہمارے دل پھٹنے کو آ گیا کہ گزرے کئی روز سے بہتے آنسووں کے نشانات کی دھاریں اُس کے گالوں پر اب بھی نمایاں تھیں ۔

یہ اندریاس مسیح کا گھر تھا۔ چند سال پہلے تک ہستہ بستہ اور ہشاش بشاش خاندان ! قہقوں ، کھیلوں اور موج مستی میں مگن یہ افراد خوشی ، غمی اور سماجی تعلقات نبھانے کی روایات میں جکڑے ہوئے تھے۔ روزانہ کی دیہاڑی کی بنیاد پر محنت مزدوری کرنے والا اندریاس تین بچوں، بیوی اور بزرگ باپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھا رہا تھا ۔ 2015 کے مارچ کے مہینے میں یوحنا آباد کے گرجہ گھروں پر خودکش دھماکوں کے بعد مسیحی نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا تو اندریاس بھی پولیس کی بے مثال کارکردگی کی نذر ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق اندریاس اِس سانحہ کے روز کسی رشتہ دار کی شادی کے سلسلہ میں بہاولپور میں تھا۔ مگر ہماری پولیس نے نہایت چابق دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ کے 52 دن بعد اندریاس کو دو افراد کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا۔

اڑھائی سال اندریاس اپنی بے گناہی کی قسمیں اُٹھا تا رہا، واسطے دیتا رہا مگر اندھے بہرے سماج کے ساتھ جُڑے نظام ِ انصاف میں اُس کی کون مانتا۔ لہٰذا اِس عرصہ میں وہ پلٹ کر کبھی بھی نہ تو اپنی تین سالہ بیٹی کو گود اُٹھا سکا نہ بوڑھے باپ کا سہارا بن سکا۔ نہ رشتے نبھا سکا اور نہ بیوی کے آنسو پونچھ سکا۔ اندریاس اِس عرصہ میں جیل میں ہزار جتن کر چکا مگر خاندان کے لئے کسی خوشی کا سبب نہ بن پایا ۔ اِ س دوران اندریاس کو جیل کے ناقص انتطامات ، غیر میعاری کھانوں، انتہائی گدلے پانی ، گندے برتنوں اور متعصبانہ رویوں نے متعدد بیماریوں نے جکڑ لیا ۔ اُسے خواہش کے باوجود نہ تو بیوی بچوں سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی علاج کی بہتر سہو لیات مہیا کی گئیں ۔ تنہائی ، ایذارسانیوں اور ٹی بی کا شکار اندریاس چاہنے کے باوجود زندگی کی آخری سانس بھی اپنے گھر پر نہ لے سکا ۔ 33 سالہ اندریاس اگست کے مہینے میں جیل کے ایک بند اور تاریک کمرے میں تڑپتے تڑپتے اپنے اہل ِ خانہ کو بھی ہمیشہ کے لئے تڑپتا چھوڑ گیا۔

آج اُ س کے کفن دفن کے ایک ہفتہ بعد ہم تعزیت کے لئے اُس کے گھر پہنچے تو گھر کا ماحول ماتم ، آنسووں، سسکیوں ، آہوں ، فکروں اور غموں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اندریاس کا بوڑھا باپ غم سے نڈھال سامنے کی ٹوٹی چارہائی پر بیٹھا کچھ بھی نہیں بول رہا تھا مگر اُس کی خاموشی چیخ چیخ کر اپنے بیٹے کی بے گناہی بیان کر رہی تھی۔ بچے کبھی آپس میں باپ کی تصویر گود میں لے کے بیٹھنے کی ضد کرنے لگتے تو کبھی آنکھوں میں گہرے سوال لئے ماں کو تکنے لگتے۔ شبانہ ذہنی طور پر بیوگی کا غم جھیلنے کو تیار تھی، خود ہی اپنا حوصلہ بھی بڑھا رہی تھی ، خود کو مرد تصور کرنے لگی تھی، مگر کبھی کبھی آنکھ بچا کر ڈوپٹے کے پلُو سے گِرتے ہوئے آنسو بھی صاف کرنے لگ جاتی تھی۔

ہم اظہارِ یکجہتی کے سلسلے میں شاید کچھ پل اور اِس غمزدہ خاندان کے ساتھ گزارتے مگر پانچ سالہ اینجل کی یہ بات سُن کر ہم پر تو گویا آسمان آن گرا۔ وہ اپنے پاپا کی تصویر کو عقیدت اور پیار سے چومتے ہوئے بولی ، “مجھے پاپا بہت یاد آتے تھے، ا تنے دن سے انہوں نے نہ تو مجھے چیز لے کے دی، نہ گودی اُٹھایا اور نہ ہی اپنے ساتھ سُلایا تھا۔ میں تو پاپا کی شکل ہی بھول چُکی تھی، وہ تو میَت والے دن پاپا کو دیکھ کر اُن کی شکل یاد آئی “۔ یہ بات سُن کر ہم گہرے ضبط کا حوصلہ کہاں سے لاتے ؟ لہٰذا بوجھل بوجھل قدموں سے واپس لوٹ آئے مگر من میں یہ سوال لئے کہ کیا یہاں کا نظامِ انصاف اینجل کا غم کم کر پائے گا ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).