شارون مسیح کو کس نے مارا؟


28 اگست 2017 کو شارون مسیح نے بورے والا کے ایم سی گورنمنٹ ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ اطلاعات کے مطابق سکول کے پہلے ہی دن جماعت انچارج نے سکول یونیفارم نا مکمل ہونے کے باعث اسے کمرہ جماعت سے باہر نکال دیا مگر اس نظم و ضبط کے قیام کے دوران اُس استاد کو شارون مسیح کو ’’چوہڑا ‘‘ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات طویل غور و فکر کے بعد بھی دماغ سمجھ نہیں پا یا۔ اگلے روز شارون مسیح سکول سے غیر حاضر رہا تاکہ اپنا سکول یونیفارم مکمل کر سکے۔ اُس سے اگلے دن یعنی 30 اگست 2017 شارون مکمل یونیفارم کے ساتھ سکول پہنچا اور شومئی قسمت کہ اُسی گلاس میں پانی پی لیا جو سرکاری رقم سے اس مقصد کے تحت خریدا گیا تھا کہ طلبا اس شدید گرمی کے موسم میں اس سے پانی پی سکیں۔ یہ پانی کا گلاس اس کے لئے زہر کا پیالہ بن گیا۔ اس کے ہم جماعتوں نے اس پر اتنا تشدد کیا کہ شارون مسیح اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ شارون مسیح کے اس بہیمانہ قتل کو جس بے دردی سے کسی گلی میں بچوں کی باہمی لڑائی جیسا کوئی واقعہ بنانے کی کوششیں سامنے آئیں اور جاری ہیں وہ ہمارے سماجی تابوت میں ایک اضافی کیل کا درجہ رکھتی ہیں۔

اخباری رپورٹس کو پڑھیں تو نہایت مضحکہ خیز معلومات تھپڑ کی طرح لگتی ہیں۔ مثلاً ایک معتبر اخبار کے مطابق کوئی استاد پاس موجود نہیں تھا اور نہ ہی چپڑاسی، چوکیدار اور دیگر عملہ میں سے کوئی موجود تھا۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں درجنوں کے حساب سے اساتذہ موجود ہوتے ہیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ اس جماعت میں اس وقت استاد موجود نہیں ہوگا یا سٹاف روم میں کسی علمی بحث میں مصروف ہوگا لیکن ذرا تصور کیجئے کہ جب اس درجے کا تشدد ہو رہا ہو کہ ایک 17 سالہ نوجوان کی جان لے لے تو شور کا کیا عالم ہوگا۔ قہر خُدا کا کہ دائیں بائیں والے کمرہ ہائے جماعت تک کسی استاد نے نہ ہی شور سنا اور نہ ہی کوئی اس معصوم کو بچانے کے لئے پہنچا۔ اب یہ فارینزک جانچ سے ہی پتہ چلے گا کہ شارون مسیح کا کمرہ جماعت خصوصی طور پر ساونڈ پروف بنایا گیا تھا یا یہ کمرہ جماعت کہیں خلا میں واقع تھا۔ 11 بجے صبح یہ واقع پیش آیا لیکن ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق 12 بجے شارون مسیح کو وہاں لایا گیا جو کہ پہنچنے سے پہلے مردہ پایا گیا تھا۔ اور قابل اور معمارِ قوم اساتذہ 1:30 بجے ہسپتال پہنچے۔ 11 سے 12 بجے تک پھیلے پورے ایک گھنٹے میں نہ تو 1122 کو فون کیا گیا اور نہ ہی شارون مسیح کو کوئی ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔ جس سے یہ خدشہ تقویت پاتا ہے کہ وہ شاید جائے وقوعہ پر ہی زندگی کی بازی ہار چکا تھا اور اسے کسی ابتدائی طبی مدد کی حاجت ہی نہ رہی تھی۔ پھر ایک ہم جماعت احمد رضا نے اقبالِ جرم میں بتایا کہ کوئی دوسرا طالب علم یا کوئی بھی استاد اس میں شامل نہیں ہے اور اُس نے تن تنہا یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ کیا یہ بات واقعے سے بھی زیادہ شرمناک نہیں کہ اگر صرف ایک لڑکا ایسی ذہنیت رکھتا تھا اور باقی طلبا اور اساتذہ رواداری اور انسان دوستی کے پیکر تھے تو وہ سب مل کر ایک احمد رضا کو کیوں روک نہیں پائے؟ ایسی متعدد معلومات جو سامنے آ ئی ہیں وہ اتنی ہی شرمناک ہیں جتنا کہ یہ مکروہ واقعہ۔

شارون مسیح تو پاک بازوں کی سرزمین سے رخصت ہوگیا لیکن ایک سوال پیچھے چھوڑ گیا کہ در حقیقت شارون مسیح کو کس نے مارا؟

جب کوئی جمہوری ریاست مذہبی طور پر اکثریتی گروہ کا مذہب بطور ریاست اختیار کر لیتی ہے تو مذہبی اقلیت کی اصطلاح جنم لیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ریاست جو کہ اپنے شہریوں کے لئے ماں کا درجہ رکھتی ہے پلک جھپکنے میں غیر محسوس طریقے سے ان مذہبی اقلیتوں کے لئے سوتیلی ماں کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور اس بات کو سند اُس وقت ملتی ہے جب وہ ماں اپنے سوتیلے بچے کے یوں بہیمانہ قتل پر ردِ عمل دینے کی بھونڈی اداکاری کرتی ہے۔ جب ماں کچھ اولادوں سے سوتیلوں جیسا سلوک کرے گی تو شارون مسیح کو تو مرنا ہی پڑے گا۔

گھر پہلی درسگاہ ہوتا ہے جہاں والدین اپنے بچوں کو انسان بنانے کے عمل کا آغاز کرتے ہیں۔ جہاں ہم انہیں کھانے پینے سے لے کر بولنے اور جینے کے آداب سکھانے کا آغاز کرتے ہیں۔ جہاں ہم چاہیں تو انہیں ایثار، قربانی، محبت، شراکت اور اخلاق سے متعارف کروا سکتے ہیں۔ ماہرین ِ نفسیات کے مطابق یہ اوّلیں تعلیم اور تربیت بڑھاپے تک انسان کی ذات میں اپنا خاص مقام رکھتی ہے اور آنے والی زندگی کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ لیکن اگر گھرانے کی سطح پر ہی یہ سکھا کر بچوں کو بڑا کیا جائے کہ اگر کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والا تمہارے برتن میں کھا پی لے تو اس کی جان لینا روا ہے تو پھر ایسے معاشرے میں شارون مسیح کو تو مرنا ہی پڑے گا۔

ہمارا نصابِ تعلیم جس طرح سے ہمیں کئی دہائیوں سے وقت سے کئی صدیاں پیچھے زندہ رہنے کا ہنر سکھا رہا ہے اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں میسر ہو۔ ہم اکیسویں صدی میں بیٹھ کر ہزار سال پرانے دور میں زندہ رہنے کی ناکام کوشش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم تاریخ کے نام پر تخلیق شدہ فن پاروں پر سوار ہو کر دنیا فتح کرنے جیسی طفلانہ خواہشات پالتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کائنات میں سب سے ضروری اور اعلیٰ فعل اپنی ذات پر اختیار حاصل کرنا ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم کے معنی خود کو دریافت کرنے کے ہیں جب کہ ہمارے ہاں آہستہ آہستہ یہ حواس باختہ ہونے کے معنی پہن چکی ہے۔ جب نصاب کے نام پر نفرت پڑھائی اور پھیلائی جائے گی تو شارون مسیح کو تو مرنا ہی پڑے گا۔

جب کمزور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے درجنوں واقعات میں انتظامیہ کا کردار اس قدر بے حسی کا شکار ہوکہ پوری پوری بستیاں جلا دی جائیں اور پولیس اور انتظامیہ محض بیانات دینے تک فرض شناسی نبھانے کو کافی سمجھے توپھر یہ عمل احمد رضا جیسے حواس باختہ نوجوانوں کے لئے ایک خاموش پیغام ہوگا کہ وہ جب چاہیں کمزوروں کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ چاہیں تو کسی کی جان تک لے لیں۔ اور اس کی درجنوں مثالیں ہمارے ماضی قریب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ تصور کیجئے کہ اگر اس طرح کی ہونے والی پہلی زیادتی پر ہی مجرمان سے سختی سے نمٹا جاتا انہیں عدالت کے کٹہرے تک لا کر انصاف کے ترازو کو عزت بخشتے ہوئے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا تو کئی حواس باختہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچتا کہ اپنے اندر کی نفرت کو اندر ہی اندر جھیلنا ہے ورنہ انجام بُرا ہوگا۔ لیکن ایسی کوئی ایک مثال بھی قائم نہیں کی گئی بلکہ اس کے برعکس ہم نے اتنی ترقی ضرور کرلی ہے کہ ہمارے منصفِ اعظم کو کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کا نام لینے میں کراہت ہونے لگی ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ جتنے نوجوانوں نے محترم چیف جسٹس صاحب کی وہ تقریر ملاحظہ فرمائی ہوگی اس میں اُن کے لئے کیا پیغام ہوگا؟ جب انتظامیہ اور عدلیہ ایسا زریں حروف سے لکھا جانے والا کردار ادا کریں گی تو شارون مسیح کو تو مرنا ہی پڑے گا۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جنازہ شارون مسیح کا نہیں اٹھا بلکہ دن بہ دن مردہ ہوتے ہوئے ہمارے پورے سماج اور سسٹم کا اٹھا ہے اور شارون مسیح کے قتل میں ہم سب کہیں نہ کہیں مجرم ہیں۔
یہ ایک روز میں انسانیت نہیں بکھری
ہے کون کون ملوث یہ حشر ہونے تک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).