کلثوم نواز کا الیکشن: وجوہات یہ ہیں


بیگم کلثوم نواز شریف کی بطور امیدوار نامزدگی سے حال کی سیاست میں کیا اثرات مرتب ہوں گے اس موضوع بحث بنانے سے قبل اس کا مطالعہ کرنے از حد مفید ثابت ہوگا کہ جب وہ ماضی کی سیاست کے خار زار میں اتری تھیں تو اس وقت وہ کیا وجوہات تھیں کہ جن کے سبب سے انہیں اس میدان میں متحرک ہونا پڑا ہم ذرا اس گفتگو کا دائرہ مزید وسیع کر لیتے ہیں اور اپنے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ پاکستان میں اور سابقہ مشرقی پاکستان میں ان پر خطر مراحل میں صف اول کی قیادت کی خواتین کو معرکہ کیوں مارنا پڑتا ہے۔ خیال رہے کہ ان سطور کو سپرد قرطاس کرتے ہوئے میں ان خواتین کے مابین کوئی تقابل پیش نہیں کررہا کیونکہ ہر دور کی اپنی ضروریات اور شخصیات کے اپنے نظریات اور ترجیحات ہوتی ہیں کسی کو کسی پر فوقیت دینا میرا مقصد نہیں۔ پاکستان اور آمریت کے سبب سے معرض وجود میں آئے بنگلہ دیش (سابقہ مشرقی پاکستان ) میں خواتین کو ان جان جوکھوں سے گزرنا پڑا خالدہ ضیاء کے شوہر فوجی تھے مگر شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ کوئی ان کے مقابل حزب اختلاف کا سیاست دان موجود ہی نہ رہے اور ان ہی کی اپنی سیاسی جماعت میں کوئی ان کی مخالفت کی جرات نہ کر سکے۔

نتیجتاً خالدہ ضیاء کے شوہر ان کی مخالفت کا مستقبل میں نشان بن گئے۔ اب نشان تو بن گئے مگر ان کے مخالفین ان کو منظر عام سے ہٹانے کے لیے سر گرم عمل ہوگئے اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے آمریتوں کے اثرات اور شیخ مجیب کی سیاست کی وجہ سے سیاسی عمل ابھی کمزور تھا اگر خالدہ ضیاء میدان میں نہ اترتیں تو اُس قوت کا شیرازہ یقینی طور پر بکھر جاتا جو عوامی لیگ مخالفت میں قائم ہو رہا تھا۔ اب یا تو خالدہ ضیاء گھر بیٹھی رہتیں اور سب کچھ تتر بتر ہوتے دیکھتیں یا پھر خود سامنے آجاتیں دوسرا فیصلہ کٹھن تھا مگر وقت کی ضرورت، حسینہ واجد کا معاملہ ان کے حمایتیوں کےلئے ایسا ہی تھا بنگلہ دیش ایوب اور یحییٰ کی آمریتوں کے سبب سے قائم ضرور ہوا مگر پھر شیخ مجیب کے رویوں کی وجہ سے سیاسی بلوغت کی جانب قدم نہ بڑھا سکا جب وہ اپنے انجام کو پہنچے تو حسینہ واجد اُن کے خاندان کی ایک اکلوتی زندہ فرد بچی۔

اب (مغربی )پاکستان کی طرف بڑھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب 5جولائی 1977ء کے تاریک ترین سانحے کا سامنا کرنا پڑا تو اُس کے بعد آمریت اپنے گل کھلانے لگی پیپلز پارٹی کے ووٹر تو اپنی جگہ پر کھڑے رہے مگر شیخ محمد رشید، شیخ رفیق، جہانگیر بدر بننے کے لئے پیپلز پارٹی کے صف اوّل کے قائدین میں سے کوئی کوئی ہی سامنے آیا ہاں ذوالفقار علی بھٹو سے جیل میں ملاقاتیں کرنی ہو یا سڑکوں پر لاٹھیاں اس کے لیے نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو ہی بچی تھیں، ضیاء کی آمریت اپنی قہر سامانیوں کے ساتھ بھٹو کے خاندان کے پیچھے پڑی تھی اور اُن کے حامیوں کی امید بھی یہی خواتین تھیں پھر کوئی دوسرا سامنے کیسے آجاتا۔

اب 12اکتوبر 1999ء کے بدترین دن کی جانب بڑھتے ہیں۔ نواز شریف اپنی عوامی حمایت کے ساتھ موجود تھے اُن کی حمایت کی دلیل کے طور پر مشرف کے زیر تحت انتخابات میں ان پر رائے دہندگان کے اعتماد کو دیکھا جاسکتا ہے۔ بہر حال اس وقت دیگر صف اوّل کے لیگی قائدین میں سے قابل لحاظ تعداد آمریت سے پینگیں بڑھانے کے لیے بے تاب تھی۔ مشاہد اللہ خاں جیسے چند ہی تھے جو الجھنے کے لیے تیار خود جمہوریت کی خاطر گردن پیش ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام افراد اگر چاہتے تو گھر بیٹھے رہتے تو کوئی اُن سے تعرض نہ کرتا مگر نواز شریف کے خاندان کا معاملہ مختلف تھا۔ آمریت ہر قیمت پر جمہوریت کو سزا دینے کے لیے ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ مشکلات کا سامنا شریف خاندان کو اجتماعی طور پر کرنا پڑا تھا نواز شریف سے جیل میں ملاقات مقدمات گرفتاریاں اور پیشیاں بھگتنا کلثوم نواز یا مریم نواز کی ذمہ داری تھی نواز شریف کا ساڑھے تین سالہ پوتا ذکریا جب باپ کی گود سے جدا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا تو گھسیٹ لیا گیا حالانکہ جس نے گھسیٹا اُس کی آنکھیں بھی تر تھیں حمزہ شہباز کو بطور ضمانت اپنے ہی وطن میں مغوی کی زندگی گزارنا پڑی۔

جب میں ان سطور کو تحریر کرنے بیٹھا تو میرے ہاتھ میں کلثوم نواز کی کتاب ’’جبراور جمہوریت‘‘ تھی اسی کتاب کی اشاعت میں میں معاون بھی رہا تھا اور پاکستان میں تقریب ِ رونمائی کا انعقاد بھی کروایا تھا۔ ورق گردانی کرتے ہوئے میری نظر میاں احسن لطیف کی تصویر پر ٹک گئی جس میں انہیں سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار گھسیٹ رہے ہیں۔ جرم صرف بیگم کلثوم نواز کا بھتیجا ہونا۔ ان حالات میں اگر بیگم کلثوم نواز سامنے نہ آتیں تو عوام اور ان سر پھروں کے لئے اُمید کی کرن کون بنتا کلثوم نواز شریف نے ان تینوں کی تصویر کا نقشہ اپنے 3ستمبر 2000کے خطاب جو ’’جبر اور جمہوریت‘‘ کی زینت ہے میں ان الفاظ میں کھینچا تھا ’’میں تمام اسیران جمہوریت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ وہ کوٹ لکھپت کی جیل اور حکومت کے ٹارچر سیلوں میں حق کی آواز بلند کرنے کے جرم میں اپنے ہی ملک میں ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنے میری بہن تہمینہ کا کوٹ لکھپت جیل میں آمریت کے چہرے پر لگایا جانے والا طمانچہ اُس کی حب الوطنی اور فروغ جمہوریت پر مکمل اعتماد کی دلیل ہے۔

کیا یہ ہتھ کڑیاں اور بیڑیاں اُن کی حب الوطنی کے جرم میں لگائی جا رہی ہیں۔ نئی 58.2B کے استعمال کے بعد مسلم لیگی ووٹروں میں بجا طور پر ایک تشویش کا عنصر سامنے آگیا۔ جمہوریت اور قیادت کے لئے سنگین ترین خطرات منڈلاتے محسوس ہوئے حوصلہ بڑھانے کے لیے نواز شریف کے خاندان سے ہی کسی کو قدم بڑھانا تھا کہ حالات چاہے 12 اکتوبر جیسے بد تر ہی کیوں نہ ہو جائیں اُس وقت بھی کلثوم نواز تیار تھیں اور آج بھی تیار تھیں۔ اور اُن کو تیار بھی ہونا چاہیے کیونکہ جب تک جمہوریت مضبوط نہ ہو گی اور پاکستان میں فیصلے کہیں اور ہوںگے بین الاقوامی تصورات میں وہ خیالات حاوی رہیں گے جو ٹرمپ کی تقریر سے برکس اعلامیے تک ہمارے سامنے آرہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).