کامیابی کاراز


کائنات جب سے وجود میں آئی ہے حضرت انسان ا س کی حقیقتوں کا کھوج لگانے کے لئے سرگرداں ہے لیکن تادم تحریر انسانی عقل و دانش یہ دعوی نہیں کر سکی کہ اس نے خالق کائنات کی بچھائی گئی اس بساط کوپورے طور پر سمجھ لیا ہے یا اس قابل بھی ہو گیا ہے کہ کبھی اس کو سمجھ سکے گا۔ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ بڑے بڑے ملکوں پر حکمرانی اور شہنشاہی کا دعوی کرنے والے ایک پل میں اس طرح اوندھے منہ گرتے ہیں کہ عقل ٹھکانے نہیں رہتی اور آس پڑوس سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ معمولی یا اس سے کچھ بڑھ کر حیثیت رکھنے والے لوگ غیر متوقع اور حیران کن طور پر غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا انگشت بدنداں کی عملی تصویر بن جاتی ہے۔ پارسائی کا دعوی کرنے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کے جب اپنے پول کھلتے ہیں تو قدرت انہیں یہ موقع بھی فراہم نہیں کرتی کہ وہ مخلوق سے اپنا منہ ہی چھپا سکیں پھر وہی لوگ جن کے سامنے وہ دوسروں کو برا بھلا کہتے تھے ان کو آئینہ دکھاتی ہے لیکن تب ان کو آئینے میں اپنی شکل تک دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ حضرت انسان کسی نہ کسی وجہ سے غرور نامی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ غرور نامی بیماری انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ہمارے سامنے کی بات ہے، کل کے شاہ آج گداؤں کی فہرست میں کھڑے ہیں اور کل جو غیر اہم تھے وہ آج بادشاہ ہیں۔

اس کائنات کے وجود اور کائناتی وجود کی تاویلات، تشریحات میں انسانی ذہن صدیوں سے سرگرداں ہے ہر وہ انسان جس میں تھوڑی سی بھی علمی شد بد ہے وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ کائنات کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کہاں ہے؟ جو انسان کائنات کے بارے میں سمجھنا چاہتا ہے وہ اپنے بارے میں بھی یہ سوچتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ میں کیوں ہوں؟ کہاں ہوں؟ انسانی وجود دنیا میں پیدائش سے پہلے کہاں تھا؟ انسانی وجود اس دنیا سے گزرنے کے بعد جہاں چلا جاتا ہے وہاں جزا اور سزا کا قانون کس طرح نافذ العمل ہے، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خود پیدائش پر اختیار نہیں رکھتا، موت پر اسے کسی قسم کی دسترس حاصل نہیں ہے تو اعمال کی جزا و سزا کیوں؟ دنیا میں آنے کے بعدانسان شعور کے دائرے میں داخل ہوتے ہی چاند، سورج اور ستاروں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے، قدیم قصے کہانیوں اور لوک داستانوں میں اجرام فلکی و سماوی کے تذکرے ملتے ہیں، مسلسل تذکروں اور تلاش نے انسان کے اندر جذبہ ابھارا کہ وہ تلاش کرے چاند اور سورج کیا ہیں؟ اس جذبے نے، تلاش اور جستجو نے انسان کو اس طرف مائل کر دیا کہ چاند کی سیر کی جائے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسان نے سورج اور کہکشانی نظاموں کے بجائے، فلکی نظاموں یا غیب کی دنیا میں داخل ہونے کے بجائے چاند ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ ہو سکتا ہے کہ چاند کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہو کہ چاند زمین سے سورج کے مقابلے میں کم فاصلے پر واقع ہے، کہا جاتا ہے کہ سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل ہے جبکہ چاند کا فاصلہ لاکھوں میل متعین کیا گیا ہے۔ یہ فاصلہ کس اصول، کونسے حساب یا کس جدول سے متعین کیا گیا ہے؟ اس بارے میں انسانی تاریخ گونگی بہری ہے، بہرحال انسان نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ بیسویں صدی میں وقت اور فاصلوں کی نفی کر کے انسان چاند پر پہنچ گیا جس کو تسخیر کائنات کی معراج سمجھا جاتا ہے، مگر یہ المیہ ہر ذی شعور آدمی کے سامنے ہے کہ چاند پر پہنچنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تسخیر کائنات کا سفر گرد آلود ہو گیاہے۔

کائنات کا کھوج لگانے کے لئے دنیا میں دو قسم کے لوگ موجود ہیں۔ ایک وہ جو حواس خمسہ سے کام لے کر مادی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کائناتی رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں، دنیا ایسے لوگوں کو سائنسدانوں کے نام سے جانتی ہے۔ مادہ پرستی کے باوجود بلاشبہ سائنسدانوں کا یہ گروہ بھی تاریخ انسانی میں انتہائی اہم کردار کا حامل ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ حواس خمسہ کی ایک حد ہے جو کائنات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ کائنات کی وسعتوں پر غور وفکر کرنے والے دوسرے گروہ میں حضور علیہ الصلوۃ وسلام کے وارث اولیا اللہ ہیں، عارفان خداہیں جو مخلوق خدا کو قرآن کے آفاقی پیغام میں تفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ صاحبان بصیرت قرآن میں بیانکیے گئے کائناتی فارمولوں میں غور و فکرکرتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو بھی اس طرف مائل کرتے ہیں۔ عام طور پر جب ہم کسی ولی یا بزرگ کا نام لیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک ایسی شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جودنیا سے کٹ کر کسی جنگل یا ویرانے میں بیٹھا ہے اور نماز روزے کے علاوہ اسے اور کوئی کام نہیں لیکن یہ ایک انتہائی غلط اور گمراہ کن تصور ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور تمام تر دنیاوی معاملات میں اپنا کردار پوری طرح ادا کیا۔ سوال یہ ہے کہ کائنات کو سمجھنے اور اس کی وسعتوں کو کھوجنے کے لئے قرآن میں بیان کیے گئے فارمولوں سے ہی رہنمائی لینے کی ضرورت کیوں ہے؟

اس چیز کو سمجھنے کے لئے ایک سادہ سی مثال کافی ہو سکتی ہے۔ ہم بازار سے الیکٹرونکس کی کوئی چیز، موٹرسائیکل، کاریا کوئی اور مشینری خریدنے جاتے ہیں تو ہمیں مشینری بنانے والی کمپنی کی طرف سے اس کے ساتھ ایک مینوئل فراہم کیا جاتا ہے جس میں اس مشین یا آلے کے متعلق تمام تر معلومات اور استعمال کے لئے رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ عقلمند افراد ہمیشہ اس کمپنی کے فراہمکیے گئے مینوئل کی پابندی کرتے ہیں اور نہ صرف اس مشین یا آلے کے استعمال کے دوران پریشانی سے بچ جاتے ہیں بلکہ طویل عرصے تک اس کے استعمال سے بھی لطف اٹھاتے ہیں۔ لیکن جو صارف اس مینوئل کی خلاف ورزی کرتے ہیں ظاہر سی بات ہے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ بالکل یہی صورتحال اس کائنات کے خالق کی ہے جس نے اس کائنات سے متعلق قرآن کی صورت میں ایک مینوئل گائیڈ فراہم کی ہے۔ مادی وسائل کو استعمال کرنے والے سائنسدانوں کے برعکس صاحبان بصیرت اور عارف بندے جب کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو وہ یہ انکشاف کرتے ہیں کہ کائنات کی بے پناہ وسعتوں کا احاطہ زمینی شعور سے ممکن نہیں کیونکہ (حواس خمسہ) محدود ہیں اور کائنات لامحدودیت کی ایسی اکائی ہے جس میں داخل ہوئے بغیر انسان کائنات کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ سائنسی نظریات بنتے رہتے ہیں اوروقت کے ساتھ ساتھ مزید نظریات بھی قائم ہوتے رہتے ہیں۔ جب تک محدود عقل و شعور نے ان نظریات کا ساتھ دیا یہ نظریات قائم رہے جو ں ہی محدود عقل و شعور نے ان نظریات کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ نظریات خود بخود ختم ہو گئے۔ قرآنی طرز فکرکے مطابق کائنات کے اندر ہماری زمین کی طرح اربوں اور کھربوں زمینوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں قرآن انہیں ’’اولی الباب‘‘ کہتا ہے۔ ’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور دن رات کے رد و بدل میں اولی الباب کے لئے نشانیاں ہیں۔ ‘‘(آل عمران۔ 091)اولی الباب کون لوگ ہیں؟ قرآن کے مطابق اولی الباب وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے کروٹ پر لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ انسان اگر اپنی زندگی میں اللہ کو یاد رکھنے کی کوشش کرے تو وہ کبھی نہ کبھی اولی الباب کی زمرے میں آہی جاتا ہے، اولی الباب کے زمرے میں نہ بھی آئے تو اولی الباب انسانوں کی قربت یا صحبت اسے میسر آہی جاتی ہے اور وہ اپنی اوقات یا اصلیت کو نہیں بھولتا اور جب انسان اپنی اصلیت کو نہیں بھولتا تو وہ کبرو نخوت اور غرور جیسے منفی جذبات اور رویوں سے دور ہوجاتا ہے اور عاجزی اختیار کرتا ہے۔ عاجزی اختیار کرنے والے انسان خالق کائنات کو بہت پسند ہیں۔ جو انسان عاجزی اختیار کر لیتا ہے خالق کائنات اس کو دائمی کامیابیوں کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).