محبتوں کا شمار کرنا


آج کسی کی ایک بات میرے دل پہ بہت گہرا اثر چھوڑ گئی۔ بات تو بہت سادہ تھی لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ کبھی کبھی کسی چھوٹی بات میں سمندروں جتنی گہرائی ہوتی ہے۔ آج میں اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ یونیورسٹی کے کیفیٹریا میں چائے پی رہی تھی کہ مجھے معلوم ہوا کہ میرے ایک کلاس فیلو ظفر کو مجھ سے کچھ شکایات ہیں۔ پہلے تو میں نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان موصوف کی بات سنی لیکن آپ کو پتہ ہے نا کہ ہم پاکستانیوں میں عدم برداشت کا عنصر کافی کم پایا جاتا ہے۔ تو بس ہو گئی میں آپے سے باہر اور کیفی ٹیریا کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا۔ اب ظفر صاحب بھی ہم وطن ٹھرے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مرد بھی ہیں تو ان کے خون میں بھی جوش آیا اور معاملہ بگڑنے لگا۔ صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر خان صاحب نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ انہوں نے کچھ دینی حوالے دیے لیکن بے سود۔

پھر کسی دل جلے نے کچھ کہا۔ اس کے الفاظ کو میں اقتباس کی علامات کے ساتھ لکھوں گی، “یار محبتوں کو مت توڑو۔ آپ کو سب کچھ مل جاتا ہے دنیا میں سوائے محبت۔ پیسہ مل جاتا ہے، گاڑی، گھر، نوکری لیکن بس محبت نہیں ملتی۔ مخلص دوست نہیں ملتے۔ محبت کی تلاش سے پاؤں میں آبلے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی جھولیاں خالی رہتی ہیں۔” میڈی کے ان الفاظ نے ماحول میں خاموشی طاری کر دی۔ ایک لمحہ قبل ہمارے خون میں جو ابال آ رہے تھے یکدم وہ آئس برگ بن گئے۔ محبتوں کا ٹوٹنا شاید وہی برداشت نہیں کر سکتا جس نے بہت قریب سے اسے دیکھا ہو لیکن عوام الناس کو اس کی سمجھ تب تک نہیں آتی جب تک وہ اس عمل سے گزر نہیں لیتے۔

میڈی کی بات نے سوچ کی لو روشن کر دی۔ ہم سب دعوے تو بہت کرتے ہیں محبتوں کے لیکن سچ پوچھیے تو ہم اس کے مفہوم سے بھی نا آشنا ہیں۔ محبتوں کی باتیں کتابوں کی حد تک ہی سچ رہ گئ ہیں یا بھر ان کا مقصد صرف حوالہ جات میں استعمال ہونا رہ گیا۔ محبت کی اصل سے ہم نا واقف ہیں۔

میں نے سوچا کہ ہم تعلیم کی آخری حدود میں بھی اگر عدم برداشت سے ناواقف ہیں، آسانی بانٹنا نہیں سیکھ سکے اور ہمیں محبت کرنا نہیں آیا، تو ہماری تعلیم رائیگاں گئی۔ نہ جانے ہم پڑھے لکھے ہو کر بھی جاہلوں سے بدتر کیوں ہیں؟ میں ہم کا لفظ اس لیے استعمال کر رہی ہوں کہ سب سے پہلے خود پر بات کریں گے تو پھر ہی معاشرے کی تبدیلی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ یقین مانیں اگر ہم سب پوری دیانتداری سے اپنی اپنی ذات کا تجزیہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ہم سب ایسے ہی ہیں۔ بدتمیز، جھگڑالو، وغیرہ وغیرہ۔

انفرادی سطح سے اوپر اٹھ کے دیکھ لیں۔ اس دنیا میں محبتوں کی کتنی کمی ہے۔ پہلے وقتوں میں لوگ پریشان ہوتے تھے تو مل بیٹھ کر حل نکل آتا تھا لیکن آج کسی سے اپنے مسائل شیئر کرنے کا مطلب اس کے ہاتھ میں اپنی ہتک کا سامان دینا۔ آج ہر دوسرا شخص ڈپریشن کا مریض ہے کیونکہ ہمارے پاس بات کرنے کے لیے کوئی نہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 300 ملین سے زیادہ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں اور ہر سال آٹھ لاکھ لوگ اس ڈپریشن کی وجہ سے مرتے ہیں۔

کاش ہر گروپ، ہر گھر، ہر خاندان، ہر معاشرے میں ایک میڈی ہو جو پرانی باتوں کو ایک لمحے میں بھلا دے۔ نہ جانے میڈی کے لہجے میں کیا درد تھا، یا حدت تھی جو دل کی گہرائیوں تک اثر کر گئی۔ ہم نے ایک دوسرے سے معافی مانگی اور اپنے دل صاف کیے۔

 نفسا نفسی کے اس دور میں ہم سب اپنے دلوں میں کدورتوں کے پہاڑ لیے بیٹھے ہیں۔ فلاں نے مجھ سے بات نہیں کی تو اب میں بھی نہیں کرنی۔ ہر وقت انتقام اور بدلے کی آگ جلتی رہتی ہے ہمارے سینوں میں۔ ہم خود اپنی ذات سے مخلص نہیں ہوتے تو لوگوں سے کیسے ہو سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).