کیا عمران خان پاکستان کے ٹرمپ بن چکے ہیں؟


پاکستان کے 19 ویں وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں ملک کو ایک ایسے آئینی بحران میں مبتلا کر دیا ہے جس کی ملکی تاریخ میں کوئی بے مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ اتوار کو انہیں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا تھا اور اس معرکے میں وزیر اعظم کی شکست یقینی تھی تاہم عمران کان نے دستوری عمل کا سامنا کرنے کی بجائے بساط ہی الٹ دی اور تمام مہرے تلپٹ کرتے ہوئے خود ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے 18 پیشرو وزرائے اعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہے، جن میں سے زیادہ تر کو فوج یا عدالتوں نے معزول کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کا حالیہ بحران مکمل طور پر عمران خان کی اپنی تخلیق ہے۔

تاہم مجھے یقین ہے کہ عمران خان کی طرف سے آئینی طریقہ کار کو پامال کرنے کی کوششوں کے باوجود ملک کے جمہوری ادارے غالب رہیں گے۔ سپریم کورٹ عمران خان صاحب کا پیدا کردہ تعطل حل کرنے پر غور کر رہی ہے، اور ججوں کے پاس یہ ظاہر کرنے کا بہترین موقع ہے کہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ہمارے مسائل کا بہترین حل پیش کرتی ہے۔ فوج یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ ایک طرف کھڑی ہے اور سیاستدانوں کو اپنے مسائل پارلیمنٹ اور عدالتوں کے ذریعے حل کرنے کا موقع دینے پر تیار ہے۔ اگر اس صورت حال سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو یہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔

پاکستان بہت سے موڑ اور گھاٹیاں پھلانگتا ہوا موجودہ مقام تک پہنچا ہے لیکن بنیادی نکتہ کافی واضح ہے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے اپوزیشن لیڈروں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ عمران خان پورے سیاسی نظام کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ ان رہنماؤں نے بڑی مایوسی کے عالم میں مشاہدہ کیا کہ عمران خان (جنہیں بعض اوقات ”پاکستانی ٹرمپ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ) اپنی معاشی بدانتظامی، سیاسی محاذ آرائی سے شغف نیز خارجہ پالیسی میں امریکہ کی بجائے تحکمانہ طاقتوں کی طرف جھکاؤ جیسی غلطیوں کے باوجود خود کو اقتدار میں رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ (اس کی ایک اہم مثال یہ کہ عین جس وقت روس یوکرین پر حملہ کر رہا تھا، عمران خان ولادیمیر پوتن کو گلے لگا رہے تھے۔ اگرچہ غالب امکان ہے کہ عمران خان نے کسی گہری نظریاتی وابستگی کی بجائے محض مغربی دنیا میں پاکستان کے پرانے اتحادیوں کو زچ کرنے کے لئے ایسا کیا تھا۔ ) حزب اختلاف کو یقین ہو گیا کہ عمران خان پارلیمانی نظام حکومت کی بجائے صدارتی نظام اختیار کرنے کے ایک عظیم منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ جو ملک کے بچے کچھے جمہوری اداروں کے لیے ایک سنگین دھچکا ہوتا۔ اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بہت سے لوگوں کے لیے ایسا کوئی قدم قبول کرنا دشوار ہوتا۔ پاکستانیوں کی اکثریت چین کو دوست ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے لیکن وہ چینی طرز کا یک جماعتی نظام نہیں چاہتے۔

زرداری اور شریف نے بالآخر ایک آئینی عمل کے ذریعے عمران خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں اپنے ارادے میں عمران خان کے متعدد سابق اتحادیوں سے بھی مدد مل گئی جو وزیراعظم کے اقدامات سے نالاں تھے۔ جب مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا گیا تو عمران خان ​​نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انداز بیان کا سہارا لیا۔ انہوں نے زرداری کو کھلے عام دھمکی دی اور انہیں اپنا ”پہلا ہدف“ قرار دیا اور اپنے مخالفین پر غیر ملکی سازش میں حصہ لینے کا الزام لگاتے رہے۔ حیرت انگیز طور پر، ان کی اپنی پارٹی کے کئی ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی اتحادیوں نے ان پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے عمران خان پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے بغاوت کر دی۔

یہ سب کچھ عمران خان کے طرز حکومت کی خصوصیت ہے۔ انہوں نے بدعنوانی اور غربت پر قابو پانے میں ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے منظم طریقے سے مذہب اور مغرب مخالف جذبات کا استحصال کیا ہے۔ انہوں نے پرتشدد گروہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے لیکن لبرل پارلیمنٹیرین کو قید کر دیا۔ ان کے وزرا نے حیران کن طور پر اپوزیشن لیڈروں کو مارنے کے لیے خودکش بمبار بننے کی خواہش کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایران نواز لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی حمایت حاصل کر لی لیکن یورپی یونین کو دھمکی دے کر اپنی اقتصادی ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔

شاید سب سے زیادہ فیصلہ کن نکتہ یہ رہا کہ عمران خان نے فوج کی غیر جانبداری پر بھی حملہ کیا ہے۔ یہ پاکستان جیسے ملک میں انتہائی خطرناک چال ہے جہاں فوج کو اب بھی بہت زیادہ اختیار حاصل ہے۔ ان کی بڑی غلطی بعض سینئر افسران، خاص طور پر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنی سیاسی سازشوں میں کھینچنا تھی۔ (لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید عمران خان کے وفادار ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ) عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 2019 میں طاقتور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ جنرل فیض حمید نے اسی سال کے آخر میں سینیٹ میں عدم اعتماد کی کوشش کو ناکام بنانے میں عمران خان کی مدد کر کے ان کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔

تاہم ایک مرحلے پر جنرل فیض حمید نے قابل قبول حدود پار کر لیں۔ سیاست میں ان کی کھلی مداخلت نے عوام کو آہستہ آہستہ بیزار کر دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے استثنا کے ساتھ باقی فوجی قیادت نے جلد ہی خود کو وزیر اعظم اور ان کی حکومت سے دور کر لیا۔ اس کے باوجود حزب اختلاف کے سینئر رہنماؤں نے جنوری میں مجھے بتانا شروع کیا کہ انہیں خدشہ ہے کہ عمران خان حمید کو اپریل 2022 میں نیا آرمی چیف مقرر کر سکتے ہیں جس سے اقتدار پر وزیر اعظم کی گرفت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ حزب اختلاف کو خدشہ تھا کہ اگلے الیکشن میں عمران خان کے وفادار عناصر دھاندلی کریں گے۔ ایک طرف یہ معاملہ تھا، دوسری طرف حزب اختلاف نیز عمران خان کے کچھ سابق اتحادیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی ان واقعات کے رونما ہونے میں اہم کردار ادا کیا جو موجودہ بحران کا باعث بنے ہیں۔

اگر عمران خان اقتدار سے محروم بھی ہو جاتے ہیں تو ان کی سیاست مستقبل قریب میں مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی۔ اپنے سابق امریکی ہم منصب ٹرمپ کی طرح ان کا سیاسی کیریئر بھی ابھی اختتام کو نہیں پہنچا۔ وہ غلط معلومات پھیلانے کے لیے مذہب اور مغرب مخالف جذبات کو استعمال کرتے رہیں گے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے اگلا وزیر اعظم بننے کا امکان موجود ہے۔ شہباز شریف کو اپوزیشن جماعتوں میں وسیع حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ کہ ان کا بنیادی کام حقیقی معنوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات کا نفاذ ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک وسیع البنیاد اتحادی حکومت بنانا چاہتا ہے۔

اگر اپوزیشن جماعتیں متحد رہیں تو حقیقی امید ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں عمران خان کو شکست دے کر ان کے خوفناک طرز حکمرانی سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ لیکن اگر حزب اختلاف میں باہمی لڑائیاں شروع ہو گئیں تو عمران خان موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ
(ترجمہ وجاہت مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments