کیا نماز روزہ ہی تمام مسائل کا حل ہے؟


میرے کچھ دوستوں نے گذشتہ دنوں سماجی رابطوں کی سائٹ پر ایک مضمون شیئر کیا۔ اس مضمون میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب پر گفتگو کی گئی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اس حالت کا سبب اکثر یہی بتایا جاتا ہے کہ چونکہ مسلمان نماز روزے سے دور ہو گئے ہیں اس لئے مشکلوں میں گرفتار ہیں۔ مضمون کا بنیادی استدلال اس بات پر ہے کہ اگر صرف نماز روزے کی پابندی ہی مشکلات کا حل ہے تو پیغمبر اسلام صلعم کے ساتھیوں پر مکہ کی زمین کیوں تنگ ہو گئی جبکہ وہ مثالی مسلمان تھے۔

اس مضمون کے شیئر ہوتے ہی تبصروں کا بادل برسنے لگا۔ تاویلات کی ڈالی پر بہانے بازی کی پتیاں جمنا شروع ہو گئیں۔ ان مبصرین کو ان کی آراء کی بنیاد پر دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلی جماعت ان اصحاب کی تھی جنہوں نے اس مضمون کو مسلمانوں کو مذہب بیزار بنانے کی کوشش سے تعبیر فرمایا۔ ان حضرات نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ پہلے سے ہی دین سے دور ہوتی جا رہی نئی نسل کا دل اسلام سے مزید کھٹا کرنے کے لئے یہ کسی مغربی طاقت کی سوچی سمجھی چال ہے۔ دوسری جماعت ذرا معتدل افراد کی تھی جن کا کہنا تھا کہ تدبر بے شک ضروری ہے لیکن زبوں حالی سے بچنے کے لئے نماز روزے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ ان دونوں ہی آراء کا احترام کرتے ہوئے میرے ذہن میں چند نکات آئے جو اس حوالہ سے غور و فکر کرتے وقت کارآمد ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ نماز روزہ اور دیگر دینی فرائض کس لئے ہیں۔ دراصل ان سب کا مقصد انسان کے نفس کی طہارت ہے۔ یہ عبادات آدمی کو ایک بہتر انسان بنانے کے لئے ہیں جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پابند ہو اور سماج کو اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہی پہنچتا ہو۔ ان فرائض کا تعلق وسیع سماجی معاملات سے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام غیر مسلم معاشرے اتھل پتھل کا شکار ہوتے، ترقی صرف مسلمانوں کے یہاں نظر آتی اور دیگر اقوام اس زبوں حالی سے دوچار ہوتیں جس میں ہم گرفتار ہیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ مسلم معاشروں میں خونریزی اور فساد زیادہ ہے، حق تلفیاں زوروں پر ہیں اور سائنسی ترقی کے میدان میں مسلمان فی الحال تو تقریباً کہیں نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماجی بہبود اور ترقی کی کنجی کچھ اور ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکے ہیں۔

اب اسی مرحلہ پر ایک اور بات سمجھ لیجیے، ہم جو دینی فرائض ادا کر رہے ہیں ان سے کوئی مقصد حاصل ہو رہا ہے یا نہیں اس کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ لگے ہاتھ نماز کی ہی مثال لیتے ہیں۔ قرآن کے بارے میں ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس میں کہی گئی ایک ایک بات حق ہے۔ اب اسی قرآن کے صفحات کو کھولئے اور سورہ عنکبوت کی پینتالیس نمبر کی آیت پڑھیے جس میں کہا گیا ہے کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے۔ اس آیت کو ذہن میں رکھ کر اپنے آس پاس نظر ڈالئے اور بتائیے کہ نماز پڑھنے والا کوئی شخص کبھی برائی نہیں کرتا؟ اگر نماز کی پابندی برائی سے روک رہی ہے تو بہت اچھا لیکن اگر نماز کے پابند بھی برا عمل انجام دیتے ہیں تو اس کے دو ہی مطلب نکلتے ہیں یا تو یہ کہ قرآن میں دی گئی وعید کا کچھ اور مطلب ہے یا پھر یہ کہ نماز کے نام پر ہم جو عمل انجام دے رہے ہیں وہ نماز ہی نہیں ہے۔

اب تک کی گفتگو پڑھ کچھ لوگ میرے بارے میں اندازہ لگانے لگے ہوں گے کہ میں بھی اسی سازشی ٹولے کا حصہ ہوں جس کا مقصد مسلمانوں کو نماز روزے سے دور کرنا ہے۔ ہمارا مسئلہ ہی دراصل یہ ہے کہ ہمارا اسلام صرف نماز، روزہ، حج، خمس، زکوت، جہاد اور دیگر فرائض تک ہے۔ اسلام دراصل ایک وسیع منشور ہے جس میں سماجی معاملات، ترقی اور انسانوں کی فلاح پر شدت سے گفتگو کی گئی ہے لیکن ہم نے بقدر استطاعت بس اتنے کو ہی پورا اسلام مان لیا جتنا ہمیں سمجھا دیا گیا۔ یہی وجہہ ہے کہ قرآن میں واضح احکامات ہونے کے باوجود ہم ان فرامین کی کھل کر خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ذرا شدت پسند مسلم جماعتوں سے معلوم کیجئے کہ کیا قرآن میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ کرو کا حکم نہیں ہے؟ ڈنڈے کے زور پر دنیا کو راہ نجات دکھانے کے شوقین افراد نے کیا قرآن کا یہ اصول نہیں پڑھا کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے؟ مطلب یہ کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اسلام کی وسیع تفہیم کا کام ہوا ہے یا نہیں؟ نہیں ہوا تو کون کرے گا؟ اور اگر ہوا ہے اس کا اثر کیا ہوا؟

سماجی ترقی اور انسانوں کی فلاح و بہبود کا تعلق عمل سے ہے نہ کہ ذکر سے۔ ہمارے یہاں دکان اور مکان میں برکت کے تعویز چھپوا کر خوب بیچے گئے ہیں، ایسی بہت سی تسبیحات بتائی گئی ہیں جن کر پڑھ کر موت کے علاوہ ہر مرض گارنٹی سے دور ہو جاتا ہے، اللہ پتھر کے نیچے دبے کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے جیسی حکایات خوب سنائی گئی ہیں۔ ان سب نے ہمیں کیا دیا؟ ان سب سے بس یہی نتیجہ نکلا کہ ہم عمل سے دور ہوتے چلے گئے۔ مسلمان اپنی حالت آج سدھاریں یا سو برس بعد یہ دعا درود اور ذکر کے بجائے عمل سے ہوگا، تدبر سے ہوگا اور علمی و تحقیقی دنیا میں غیر معمولی کارنامے انجام دینے سے ہوگا۔ تلوار اور زور بازو کے دم پرصرف زندہ رہا جا سکتا ہے لیکن ترقی کی سیڑھی علم ہے، ترقی ہے اور دنیا کی ضرورت بن جانا ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter