اعوان سنگھ مفتوں


 \"adnanاعوان سنگھ مفتوں نے اپنے سے ملتے جلتے نام والے مشہور صحافی دیوان سنگھ مفتوں جیسی ہی طبیعت پائی ہے۔ دیوان سنگھ مفتوں، متحدہ ہندوستان میں ریاست نامی اخبار نکالا کرتے تھے اور ہر والی ریاست سے لڑنا بھڑنا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ جیسے ہی خبر ملتی تھی کہ فلاں ریاست میں فلاں ظلم و زیادتی ہو رہی ہے، وہ قلم اٹھا کر لڑائی پر کمربستہ ہو جاتے تھے۔ بلکہ اکثر اوقات تو ظلم و زیادتی کے بغیر بھی یہی کر گزرتے تھے کہ دوسرے اپنی وضع بدلتے ہیں تو بدلتے رہیں، سردار جی اپنی خو کیوں بدلیں۔

استاد محترم بھی ویسا ہی مزاج رکھتے ہیں۔ جہاں بھی کسی کی بادشاہی دیکھتے ہیں، ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حق کو بیان کرنے میں ان کو کبھی تامل نہیں ہوا۔ برے کو برا کہنے کے بعد اس وقت تک کہتے رہتے ہیں جب تک کہ برا معافی نہ مانگ لے یا ہائی بلڈ پریشر کا مستقل مریض نہ بن جائے۔ ان کی اسی طبیعت کو دیکھتے ہوئے ان کے مداحوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں اعوان صاحب مفتوں کی بجائے اعوان سنگھ مفتوں کہنا شروع کیا اور یہ نام عوام سے سند قبولیت پا گیا۔

 

استاد محترم کا تعلق سون سکیسر کے مردم خیز خطے سے ہے۔  اجداد کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ کہیں عرب سے چل کر یہاں ہندوستان میں آئے تھے اور پھر سون سکیسر کی خوبصورت وادی میں بس گئے۔ اعوان سنگھ مفتوں بظاہر تھکے تھکے سے نظر آتے ہیں لیکن اس تھکن کا سبب ان کے اجداد کے اس طویل سفر کو مت جانیے۔ یہ قبیلہ اب تک خوب آرام کر چکا ہے اور دنگے فساد کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔ ان کا قبیلہ عرب ہونے کے باوجود، یا ممکن ہے کہ اسی سبب سے، دلیری شجاعت اور ذہنی صلاحیتوں کے حساب سے یہاں کے پٹھان اور سکھ قبائل کی ٹکر کا ہے۔

استاد محترم علم و ادب سے بلا کی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بلکہ کسب معاش کا بہانہ ہی تعلیم و تدریس کو بنایا ہے۔ پرائمری کے نونہالوں کو تعلیم دیتے دیتے اب کالج کے لونڈوں کو سکھانے لگے ہیں۔ غالباً انہیں لونڈوں سے ایسے سوال اٹھانا سیکھا ہے جو کہ اچھے اچھوں کو لاجواب کر جائیں۔ جو سلوک کالج کے شریر لڑکے ایک سیدھے سادے استاد کے ساتھ کرتے ہیں، وہی یہ سوشل میڈیا پر ان کے ساتھ کر گزرتے ہیں جو استادی دکھانے پر تلے ہوتے ہیں۔ کسی بھی عالم فاضل دانشور کی وال پر اچانک نمودار ہوتے ہیں اور صاحب دیوار کو نوشتہ دیوار پڑھ کر ان کا نوٹس لینا ہی پڑتا ہے۔ بہت سے مشہور کالم نگار ان کا ذکر اپنے کالموں میں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

\"ejaz-awan-caricature\"اپنے طلبا کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ خاکسار نے ایک دفعہ پوچھا کہ مفتوں صاحب آپ دیہات میں ہی کیوں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کسی بڑے شہر کا رخ کیوں نہیں کیا؟ فرمانے لگے کہ یہاں دیہات میں سکون بہت ہے۔ جب تک طبیعت کرے طلبا کو پڑھا لیتا ہوں۔ طبیعت نہ ہو تو ان کو کھیتوں سے تازہ سبزی یا باغوں سے پھل لانے کا ہوم ورک دے کر جلد رخصت کر دیتا ہوں۔ اس آؤٹ ڈور ایکٹیویٹی سے ان طلبا کی جسمانی چستی اور صحت برقرار رہتی ہے۔ بڑے شہروں میں طلبا کو یہ عیاشی نہیں کرائی جا سکتی ہے۔

دوسروں کی مدد تن دہی سے کرتے ہیں۔ چند دن پہلے ان کا ہمسایہ پریشان بیٹھا تھا کہ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ قصبے میں نہیں جا سکتا اور وہاں جا کر مرغیاں بیچنی ضروری تھیں۔ استاد محترم نے اپنی خدمات پیش کر دیں اور سائیکل پر مرغیوں کا جھابہ لے کر چل دیے۔ راستے میں ایک بیل گاڑی کو الٹا ہوا دیکھ کر سائیکل ایک طرف پھینکی اور بیل گاڑی والے کی مدد کر کے واپس ہوئے تو مرغیاں جھابے سے فرار ہو چکی تھیں۔ نہایت تن دہی سے ارد گرد کے علاقے سے مرغیاں پکڑ کر جھابے میں ڈالیں اور بازار میں بیچ آئے۔ واپس آ کر ہمسارے کو بیس مرغیوں کے پیسے دیے تو حیرت اور خوشی سے اس کا برا حال ہو گیا۔ کہنے لگا، مفتوں صاحب آپ بہت برکت والے ہیں۔ مجھے خدشہ تھا کہ آپ مرغیاں کہیں کم ریٹ پر نہ بیچ آئیں مگر آپ تو درجن مرغیوں کی بجائے بیس کے پیسے لے کر لوٹے ہیں۔ سنا ہے کہ مفتوں صاحب اب اس علاقے سے نہیں گزرتے ہیں جہاں سے انہیں مرغیاں ملی تھیں۔

دوستوں کی خاطر جان بھی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ کوئی دوست کسی سے لڑ رہا ہو تو فوراً اس کی حمایت میں فریق مخالف سے لڑ پڑتے ہیں۔ بلکہ دوستی کی شرط نہیں ہے، یہ کسی کو بھی فریق مخالف جان کر اس سے لڑ پڑتے ہیں۔ نہایت ٹھنڈے دماغ سے دوسرے کو گرم کر دیتے ہیں۔ ان خوش گو لوگوں کے گروہ سے ہیں جن کے منہ سے پھول جھڑنا آپ نے سنا ہو گا۔ اب اس بات کو محض اتفاق سمجھا جانا چاہیے کہ ان کی مخالفت کرنے والے بدنصیب لوگ پھولوں کی الرجی کے دائمی مریض نکلتے ہیں اور جلد ہی ان مظلوموں کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں ہیں اور نتھنوں سے شوں شوں کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔

دوستوں کو ہر سال بہار اور خزاں کے معتدل موسم میں سون سکیسر کی پرفضا وادی میں سیر کرانے لے کر جاتے ہیں۔ وہاں ایک قدیم درگاہ کے دامن میں ان کا ڈیرہ ہے۔ لیکن خدا کے فضل سے اب درگاہ سے زیادہ لوگ ان کے ڈیرے کا رخ کرتے ہیں۔

بہرحال، استاد محترم ان لوگوں کے قبیل سے ہیں جن سے ملاقات مسیحا و خضر سے ملاقات سے بہتر بیان کی گئی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments