پاکستان صرف مسلمانوں ہی کا وطن نہیں ہے


امریکہ میں ہمارے ایک دوست اُس وقت آئے جب ان کے بچے ذرا بڑے تھے۔ اُن کی بیٹی کی عمر پندرہ سال کے قریب تھی۔ میں اس کالم میں اُن کی بیٹی کو صالحہ کا نام دوں گی۔ صالحہ کو ہند و پاک کی تاریخ سے دلچسپی ہے اور وہ کالج میں اس کے کورسز لیتی رہتی ہیں اور اس پر ریسرچ بھی کرتی ہے۔ ہماری اس موضوع پر اُس سے اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ایک بار ہماری پاکستان بننے کے عوامل پر بات شروع ہو گئی۔ اُس نے اس بارے میں میرا نکتٗہ نظر پوچھا۔ میں نے اُسے پورے جوش و خروش سے بتایا کہ ہندو ہم مسلمانوں کو بہت نیچا سمجھتے تھے۔ وہ ہمیں مُسلہ کہتے تھے۔ وہ کبھی بھی مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں برابری کے حقوق نہ دیتے۔ میں نے اُسے مثال دے کر بتایا کہ ہندو تو ہمیں اپنے برتن میں کھانے پینے نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلانا پڑ جاتا تو وہ اُسکی ہتھیلیوں کے اوپر پانی پھینک کر پلاتے۔ میری اس بات کے جواب میں صالحہ بولی کہ جس طرح کا سلوک ہم پاکستان میں’’چوہڑوں‘‘کے ساتھ کرتے ہیں۔ میں اس بات کو سن کر خاموش ہوگئی۔ مجھے اپنے پاکستانی مسلمانوں کا اپنے کرسچن ہم وطنوں کے ساتھ یہ سلوک تو یاد تھا مگر میں نے اس کا اس طرح سے کبھی موازنہ نہیں کیا تھا۔

صالحہ نے پھر مجھے یاد دلایا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت نے غیر مسلموں کو آئین کے ذریعے تعصب کا شکار کیا ہے۔ پاکستان کے آئین کی رُو سے کوئی بھی غیر مسلم پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ بھارت کے آئین میں ایسا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک مسلمان صدر بن چکا ہے۔ میں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ بھارت صرف دنیا کو دکھانے کے لئے ایسا کرتا ہے۔ عام مسلمان تو روزمرہ اپنے عقیدے کی وجہ سے تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ میں نے صالحہ کو گجرات کے 2002؁ کے فسادات کی مثال دی۔ اس میں سرکاری اندازے کے مطابق 800 کے قریب مسلمان قتل ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے اور اُن کے سینکڑوں گھروں کو آگ لگائی گئی۔ صالحہ نے میری توجہ 2009 ؁ میں گوجرہ پاکستان کے واقعہ کی طرف دلائی جس میں مسلمانوں نے 40 کرسچن گھروں اور ایک چرچ کو اس شبے میں آگ لگادی کہ وہاں کے رہنے والے ایک لڑکے نے توہین ِ اسلام کی تھی۔ اس واقعے میں آٹھ کرسچن آگ سے جل کر جاں بحق ہوئے جن میں چار عورتیں اور ایک بچہ بھی شامل تھے۔ میں نے اُسے بتایا کہ جس بڑے پیمانے پر گجرات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد ہوا ہے یہ اس کا عشرِ عثیر بھی نہیں ہے۔ اُس نے یاد دلایا کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی ملک کا 14.2 فیصد ہے اور پاکستان میں کرسچن ملک کی آبادی کا 1.6 فیصد ہیں اور اس حساب سے یہ واقعہ بھی بڑے پیمانے کا ہے۔ میں نے صالحہ کو یاد دلایا کہ آج کے نام نہاد سیکولر بھارت میں مسلمانوں کو گائے کے ذبح ہونے کے شبے میں قتل کر دیتے ہیں۔ تو ا ُس نے مجھے توہین مذہب کے شبے میں قتل ہونے والے، گرفتار ہونے والے اور جیل میں بند ہونے والے پاکستانی کرسچن کی ایک لمبی لسٹ پکڑا دی۔

میرے پاس صالحہ کے سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ ہم پاکستان میں بھی نہیں ہیں کہ میں اُس کے والدین کو کہہ کر اُن کتابوں، یوٹیوب اور گوگل ساٹئس پر پابندی لگا دوں جو اُس کے دماغ میں ایسے سوالات اٹھاتے ہیں اور اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں۔ لہٰذا صالحہ کی باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ میں اُن محرکات کا جائزہ لوں جن کی وجہ سے ہم نے پاکستان میں اپنے ہم وطنوں سے ایسا ناروا سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم نہ صرف اس بارے میں احتجاج نہیں کرتے بلکہ جو اس مسئلے پر بولتا ہے اُس سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ واپس لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہمیں یہ خوف تھا کہ ہماری آئندہ نسلیں ہمارے اس فیصلے پر سوال نہ اٹھائیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ خراب رہے لہٰذا ہم نے دو قومی نظریہ کو ہی ہر جگہ فروغ دیا۔ حالانکہ پاکستان کے بننے میں دو قومی نظریہ کے علاوہ دوسرے بہت سے عوامل شامل تھے جن میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت، آل انڈیا کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق کے لئے مذاکرات میں ناکامی بھی بہت اہم تھے۔ ہم نے پاکستان بننے کے بعد ان عوامل کو زیر بحث نہ لانے دیا حالانکہ ان عوامل کی وجہ سے اُس وقت کے پاکستانی کرسچن نے پاکستان کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے پاکستان کا کیس مزید مضبوط ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11اگست1947؁ کی تقریر میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کی یقین دہانی کروائی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خیبر پختون خواہ کے سکھوں، لاہور اور کراچی کے کچھ ہندوؤں نے پاکستان رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو گندر ناتھ مندل پاکستان کے پہلے وزیر قانون بنے۔

پاکستان بننے کی بعد ہم نے نصابوں، کتابوں اور میڈیا کے ذریعے مسلسل ہندوؤں کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔ پاکستان کو سادہ مسلمان اور بھارت کو مکار ہندو بنیا بنا کر پیش کیا۔ اس طرح ہم نے پاک بھارت دشمنی کو اسلام اور کفر کی جنگ میں بدل دیا۔ ہم یہ بھی بھول گئے کہ بھارت میں پاکستان سے بھی زیادہ مسلمان آباد ہیں اور ہندو مسلم نفرت کی آگ اُن کے لئے مزید مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ پھر ہم نے پاکستان کی ہزاروں سالہ پرانے تہذیب و تمدن کے خلاف جنگ شروع کردی۔ افغان جنگ کے بعد اس میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ افغان جنگ کے بعد امریکہ کی دشمنی میں ہم نے اسے اسلام اور عیسائیت کی جنگ قرار دے دیا۔ آہستہ آہستہ یہ نوبت آپہنچی ہے کہ ایک اچھا پاکستانی ہونے کے لئے ایک اچھا مسلمان ہونا ضروری ہوگیا۔

ہم نے پاکستان کے قیام کے لئے اور اُس کو چلانے میں پاکستانی کرسچن کے حصے کو مسلسل نظر انداز کیا۔ ہم نے کرسچن کی اپنی دھرتی سے وفاداری کا کبھی کھل کر اعتراف نہیں کیا۔ پاکستانی کرسچن کا پاکستان کے ہر شعبے کی ترقی میں اپنی آبادی سے دس گنا زیادہ حصہ ہے۔ وہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کے ہسپتال اور سکول چلاتے ہیں۔ وہ اساتذہ، ڈاکٹر، نرسز اور وارڈ بوائے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے اُن کو چوہڑہ کہا مگر وہ ماتھے پر بل لائے بغیر پاکستان کی گلیوں اور گھروں کو صاف کرتے رہے۔ ہم نے اُنہیں اپنے برتنوں میں پانی نہیں پینے دیا مگر اُنہوں نے اس ہتک کے خلاف کسی بھی متشدد تنظیم بنانے کا اعلان نہیں کیا جو کہ کچھ مسلمان ہم وطنوں کا خاصہ ہے اور جس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق کم از کم پچاس ہزار پاکستانی جانوں کا زیاں ہوا ہے۔

ہم نے یہ بھلا دیا ہے کہ اگرچہ پاکستان 70سال پرانا ہے مگر یہ دھرتی اور اس کا تہذیب و تمدن ہزاروں سال پرانا ہے۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا رشتہ اس دھرتی سے اتنا ہی پرانا ہے جتنا ایک پاکستانی مسلمان کا ہے۔ نام بدلنے سے اس رشتے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ مذہبی اقلیتوں کی پاکستان سے وفاداری اور محبت اس کا واضع ثبوت ہیں۔ پاکستان کی دھرتی پر اُن کا بھی اُتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک مسلمان کا۔ پاکستان اسلحے سے لیس ایک ایٹمی ملک ہے مگر ملک صرف بموں اور اسلحوں سے مضبوط نہیں ہوتے وہ اندرونی اتحاد سے مضبوط ہوتے ہیں اور یہ اتحاد صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب اُس کے ہر شہری کو یہ معلوم ہو کہ اُسے اس ملک میں برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ جب اُس کو یہ یقین ہو کہ اُس کے ہم وطن اُس کے ساتھ تعصب کا برتاؤ نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو ملک کے قوانین اور دوسرے ہم وطن اس تعصب کے خلاف اس کا ساتھ دیں گے۔ پاکستان سب شہریوں کو برابر کے حقوق دے کر ہی ہر خطرے کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن سکتا ہے۔
افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہم نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف اپنے تعصب اورا متیازی سلوک کو مذہبی رنگ دے رکھا ہے ہم نے اسلامی تاریخ سے صرف اپنی مرضی کے حوالہ جات نکال کر اپنے آئین میں شامل کیے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس پر اعتراض کرنے والوں کو بلاسفیمی کا الزام دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں اسلام کی اُس تاریخ کے حصے کو لاگو کیا جائے جس سے یہ ثابت ہو کہ اسلام ایک انصاف پسند مذہب ہے۔ میثاق مدینہ اور سپین کی مسلمان حکومتوں کے بہت سے قوانین اس کی مثال ہیں۔ اگر مسلمان ساتویں اور گیارہویں صدی میں اپنی مذہبی اقلیتوں کو برابری کے حقوق دے سکتے تھے تو ہم آج یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ مذہبی اقلیتوں کے لیے موجودہ نفرت اور حقارت کے خلاف کتابوں، نصابوں اور میڈیا میں ایک منظم مہم چلانا چاہیے۔ بلاسفیمی کے الزام میں گرفتار اور جیلوں میں پڑے کرسچن پر فقہ حنفی کے اصولوں کے تحت مقدمہ چلا کر ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے کہ ان کی گرفتاری اور سزا اسلام کی روح کے منافی اور فقہء حنفی کی رو سے غیر اسلامی ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے میرے اس موضوع پر لکھے دو کالموں سے رجوع کریں جن کا لنک اس کالم کے آخر میں درج ہے۔ اس معاملے میں میری پاکستانی مولوی حضرات سے درخواست ہے کہ وہ اسلام کے انصاف کے قوانین کا بول بالا کرنے کے لئے پا کستان کی اقلیتوں کے برابری کے حقوق کے لئے ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ اُن کے لئے دنیا پر اسلام کی فوقیت ثابت کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔

بھارت کے ساتھ اگر پاکستان کی دشمنی برقرار رکھنا ہے اور اس کے ساتھ جنگیں لڑنا ہیں تو کوئی اور بیانیہ تلاش کریں۔ مثلاً بھارت اس خطے میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ نیپال کا بھی یہی خیال ہے حالانکہ وہ ایک ہندو ملک ہے۔ بھارت کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں وغیرہ وغیرہ، ہندو بنیے اور مکار ہندو والے بیانیے کو اب ترک کر دیں اور اس کو کتابوں، نصابوں اور میڈیا سے مکمل طور پر نکال دیں کہ اس سے ہمارے اُن وفادار پاکستانی ہندووں کی دل آزاری ہوتی ہے جنہوں نے پاکستان کو بھارت پر فوقیت دی ہے۔ امریکہ کی نفرت کو اسلام اور عیسائیت کی جنگ بنانے سے گریز کریں کہ اس سے اپنے ہم وطن کرسچن سے نفرت پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جن پاکستانی ہندووں اور سکھوں نے اپنی دھرتی کے ساتھ رشتے کو ترجیح دی ہے اُن کو با قی ساری مذہبی اقلیتوں سمیت اس ملک میں مکمل تحفظ دیا جائے۔ اُن کی آئندہ نسلوں کی زبردستی مذہب کی تبدیلی کے خلاف عوام، مولوی حضرات اور عدالتوں کو سرکاری سطح پر تعلیم دی جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کا ریاست خود نوٹس لے۔

ہم اپنی مذہبی اقلیتوں کو برابری کے حقوق اور مکمل تحفظ دینے کی صورت میں ہی بھارت کے مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اگر موجودہ صورت ِ حال برقرار رہتی ہے تو پاکستان دنیا کے کسی بھی ملک کی مسلمان اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی اخلاقی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ اگر مذ ہبی اقلیتوں کے ساتھ موجودہ امتیازی سلوک برقرار رہتا ہے تو پاکستان کی آئندہ نسلیں پاکستان کے وجود کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گی اور ہمارے پاس صالحہ کے سوالوں کے کبھی بھی جواب نہ ہوں گے۔

پس تحریر: ستائیس اگست 2017 کو ماڈل بوائے گورنمنٹ سکول بورے والا، پنجاب میں ایک 17سالہ کرسچن سٹوڈنٹ، شیرون مسیح، کو اس کے مسلمان کلاس فیلو ز نے اتنا مارا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگیا۔ ایک اخبار میں یہ لکھا ہے کہ اس واقعے سے پہلے بہت سے سٹوڈٹنس اس کو ’’چوہڑہ‘‘کہہ کر بلاتے تھے اور اُسے مسلسل ہر اس کرتے تھے اور اسے اپنے ساتھ بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ کچھ نے اُسے زبردستی مسلمان بنانے کی بھی کوشش کی۔ مارنے کا یہ واقعہ کلاس ٹیچر کے سامنے ہوا مگر اُس نے اور دوسرے ٹیچرز نے اُسے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ اس واقعے کی پنجاب حکو مت خود تحقیق کرے اور اساتذہ سمیت سب مجرموں کو قرار واقعی سزا دے۔ اوراس طرح کے واقعے کی آئندہ روک تھام کے فوری طور پر اقدامات کرے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi