بلند عمارت، اونچے خواب اور حادثاتی موت


اونچی عمارتیں کسے اچھی نہیں لگتیں، خوب صورت طرز تعمیر کی حامل یہ عمارتیں رات کے وقت جگمگاتی ہیں تو دن میں سر اٹھائے شان سے کھڑی نظر آتی ہیں۔ اکثر ان عمارتوں میں تجارتی مراکز، مختلف کمپنیز کے دفاتر ہوتے ہیں تو کہیں سرکاری اہمیت کے دفاتر اور بہت سی عمارتوں میں رہائشی اپارٹمنٹس بھی ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس طرح کی عمارات میں ہر طرح کی سہولیات دی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ان میں رہائش اختیار کرنا ہر ایک کا خواب ہوتا ہے نیز نجی اور سرکاری کمپنیز کو دفاتر کے لیے اس طرح کی عمارات موزوں نظر آتی ہیں شاید یہی وجہ ہے اونچی اونچی عمارات تیزی سے تعمیر ہو رہی ہیں۔ ہر طرف آسمان سے باتیں کرتیں خوبصورت عمارتیں جنھوں نے شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال ان علاقوں کا بھی ہے جو خالص رہائشی علاقے تھے اور وہاں بلند عمارات نہیں تھیں ان علاقون میں مرکزی شاہراہ پر دونوں اطراف ملٹی اسٹوریزبن چکی ہیں، دس سے بیس پچیس منزلہ عمارات تیار ہو چکی ہیں اور لوگ ان میں رہائش پذیر ہیں اسی طرح ہوٹلز کی بلند عمارات ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جتنی تیزی سے بلند عمارات کا رواج ہوا ہے کیا ان کے اندر موجود سہولیات میں ضروری امور کا خیال رکھا گیا ہے ان سب امور کا خیال رکھنے کی ذمہ داری بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، بجلی کا محکمہ، میونسپل کارپوریشن، ڈیولپمنٹ اتھارٹیز، آگ بجھانے کا محکمہ، اور نقشہ پاس کرنے والے محکمہ کی ہیں۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کیا عمارت میں آگ بجھانے کا خود کار سسٹم موجود ہے، الارم سسٹم ہے جو دھوئیں کے اٹھتے ہی بج اٹھتا ہے، ایسے حادثات کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے حفاظتی راستے موجود ہیں، ایمرجینسی میں نکلنے کے لیے سیڑھیاں یا راستے بنے ہیں اور ان ایمرجنسی راستوں کا فاصلہ سو فٹ سے زیادہ نہ ہو تاکہ آگ لگنے یا زلزلہ کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو

اس تحریر کو لکھنے کا مقصد وہ خوفناک آگ ہے جو اسلام آباد کی ایک عمارت میں شارٹ سرکٹ سے لگی اورعمارت مکمل طور پر جل گئی چونکہ اتوار کا دن تھا اس لیے جانی نقصان کم ہوا۔ دو نوجوان جو عمارت میں موجود تھے آگ سے ہان بچانے کے لیے عمارت سے کود گئے اور نیچے کھڑا عملہ بھی ان کی جان نہ بچا سکا جن میں سے ایک موقع پہ ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا جبکہ ایک شخص دم گھٹنے سے ہلاک ہوا۔ اسی طرح کچھ عرصے پہلے کراچی کے ایک ہوٹل میں آگ رات کے وقت لگی اور لوگ گھبراہٹ میں عمارت سے کود کر جان بچانے میں بھی مارے گئے۔ اس حادثے میں مرنے والوں کی تعداد بارہ اور پچھتر زخمی ہوئے۔ اس عمارت میں بھی آگ سے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں تھا اور نہ ہی فائر الارم نے کام کیا۔ جن لوگوں نے عمارت سے کود کر جان بچائی ان میں سے بیشتر کی ہڈیاں ٹوٹ گیئں، بہت سے لوگوں نے بیڈ شیٹ سے رسی بناکر عمارت سے کود کر جان بچائی اسی وجہ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔

ہمارے ملک کی زیادہ تر عمارات میں آگ سے بچاؤ اور ایسے حادثات سے بچنے کے کوئی خاص انتظامات نہیں ہیں۔ اس سب سے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے کیونکہ کوئی ان حادثات کی ذمہ داری نہیں لیتا نہ کسی محکمے کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے۔ آگ بجھانے کا محمکہ توصاف کہتا ہے ہمارے پاس آگ بجھانے کے وافر آلات نہیں، اسنارکلز نہیں، پانی کے ٹینک نہیں پھر یہ محکمہ کیوں بنایا گیا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ فی الحال تو ہمارے عوام کو چاہیے کہ ایسی عمارات میں بالکل رہائش اختیار نہ کریں جہاں حادثات سے بچنے کے راستے نہ بنائے گئے ہوں، محکمہ تعمیرات ایسی۔ عمارتوں کے نقشے بھی پاس نہ کریں جن میں آگ اور حادثات سے بچ نکلنے کے راستے نہ بنائے گئے ہوں تاکہ ان کی تعمیر میں رکاوٹ ہو۔ جو عمارتیں بن چکی ہیں ان میں ایسے راستے بنائیں تاکہ حادثہ کی صورت میں جانی نقصان نہ ہو اور حادثات سے نبٹا جاسکے۔ عمارت کی خوبصورتی سے متاثر ہونے کے بجائے ایسی عمارت کا انتخاب کیا جائے جس میں تمام سکیورٹی انتظامات ہوں۔

زندگی ایک بار ملتی ہے اس کی قدر کریں، موت تو ایک دن آنی ہے لیکن حادثاتی موت سے احتیاطی تدابیر کر کے بچا جاسکتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).