خیالی چوراھا


ہم ایسے عقیدت مند ان کے حسن بیاں پر نثار ۔آپ کے علمی قد کو ایڑیاں اٹھا کر دیکھنے والے کج فہموں کی کیا مجال کہ پیرومرشد کی پیروڈی لکھیں۔ بس ذرا آپ کی زمین میں تُو تڑاک قسم کی چند سطریں لکھنے کی جسارت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔

”لنڈے کی سوچ ،لنڈے کی اپروچ اور لنڈے کی جمہوریت ۔ میرا بس چلے تو لنڈا بازار میں کھڑا کر کے سب کی ٹنڈ کرادوںاور ان پر شاباش کی تھپکیاں دینے کے لیے موٹے نگینے کی انگوٹھی کو گھما کر انگلی کے پوروں کی طرف کر لوں۔ دل کرتا ہے کہ یہ دانتوں سے اپنی طرح کے ڈھیٹ اخروٹ توڑیں اور ان کی بتیسیاں باہر آ جائیں۔ جعلی جمہوریت کے جوکرز ، جگلرز اورگیمبلرز کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ میں کتنے غصے میں کالم لکھتا ہوں۔ اپنے آتشناک جذبات کی حدت کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے لیے میرے قلم پر کوئی سائلنسر تھا ،نہ ہے اور نہ ہو گا‘‘

میں تو ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ جنہیں ٹماٹروں کی ریڑھیاں لگانی تھیں ، انہوں نے پرمٹوں اور ٹھیکوں کے چھابے لگا رکھے ہیں۔ جنہوں نے سائیکلوں کے پنکچر لگانے تھے ، وہ قوم کے چاک گریباں کی رفوگر ی پر مامور ہیں۔جنہیں چارپائیاں بننی چاہئیں ، وہ خارجہ پالیسی کے تانے بانے بُن رہے ہیںاورجو تانگہ چلانے پر قادر نہیں وہ ملک چلا رہے ہیں ۔ جائو ملک کی جان چھوڑو اورلاری اڈے پر جا کر منجن بیچو ۔

میں بھی ہر روز درد کی پوٹلی کھول کر بیٹھ جاتا ہوں مگر حرام ہے جو کسی بہروپیے ، کسی معزز ٹھگ یا پاکستان کے باضمیر شہریوں کے کان پر جُوں بھی رینگی ہو ۔ دیہہ جماعت پاس ڈائریکٹ سیاسی رہنمائو! تُف ہے تم پر ۔ دنیاکی ساتویں ایٹمی طاقت …مگر حالت یہ ہے کہ گھر میں فتح خان بنے پھرتے ہیں جبکہ دنیا میں پھتُو مشہور ہیں ۔ اگر یقین نہیں تو کسی پڑھے لکھے سے فورٹ مائر آرلنگٹن کے فوجی اڈے پر ٹرمپ کی تقریر اور برکس کا اعلامیہ پڑھوا کر سُن لو۔ طبیعت ہری ہو جائے گی ۔ عالمی طاقتیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہی ہیں ، چوہدری نثار علی خان ملک کو درپیش خطرات پر چیخ رہا ہے مگر گوالمنڈی برانڈ رتھ روڈ مائنڈ سیٹ چین کی بانسری بجا رہاہے ۔ پانامہ میں پاجامہ اُدھڑ گیا مگر ہوش نہ آیا۔ پیٹ کے بل چاند پر پہنچ گئے ہیں مگر آنکھوں کی بھوک نہیں گئی۔ بد بودار نظام ،متعفن رہنما اور غلام عوام …ان کے مکسچر سے جنم لینے والی جمہوریت کو میں خوب سمجھتا ہوں…دو نمبریوں کی حکومت ، دو نمبریوں سے بنائی گئی حکومت اور دو نمبریوں کے لیے حکومت ۔

چنگ چیوں میں ٹھنسے غریب ہم وطنو ! کبھی یہ نہ سوچنا کہ تمہارے ووٹ چوروں کا دھیان تمہاری ٹپکتی چھتوں ، ابلتے گٹروں اور غلیظ گلیوں کی طرف کیوں نہیں جاتا۔ لگے رہو منا بھائی ! پورے کنبے سمیت موٹر سائیکلوں پر بھیگتے ، انڈر پاسز میں پناہ لیتے رہو، شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ ”انجوائے ‘‘کرتے رہو ، بس اسٹینڈز پر سردی سے ٹھٹھرتے بغلوں میں ہاتھ دیے رکھو، کھٹارا مسافر وینوں میں مرغے بنتے رہو ، کیمیکلز ملے زہریلے دودھ کی چائے شڑپ شڑپ پیتے رہو ، گدھے کا گوشت نوشِ جاں کرتے رہو اور دھڑا دھڑ شادیاں کر کے ملکی وسائل کی نا تواں کمر پر آبادی کا بوجھ بڑھاتے رہوکہ جیسی روح ،ویسے فرشتے اور جیسے عوام ،ویسے حکمران۔

جنہیں ابھی تک چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھانے کا سلیقہ نہیں آیا کہ ہر دفعہ ان کے بسکٹ گل کر کپ میں گر جاتے ہیں ، وہ اپنے ووٹ سے یہ نظام کیا تبدیل کریں گے ، جو پہلے ہی گل چکا ہے ۔ جو ریڑھی سے فالودہ کھاتے اپنے منہ اور کپڑے تک فالودہ زدہ کر لیتے ہیں ، وہ آئندہ سو سال تک بھی گندگی سے بیلٹ باکس بھرنے کی لاحاصل مشق کرتے رہے تو اپنے زرد چہرے ”ووٹ زدہ ‘‘ کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اپنی زنجیروں کی عزت کرنے والوں کو کوئی جا کر بتائے کہ کوڑ ھ زدہ نظا م سے چھٹکارے کے لیے ووٹ دیتے وقت کھوٹے اور کھرے کی تمیز روا رکھنا لازم ہے …مگر لنڈے کی جمہوریت کے بل بوتے پر عوام کی گردنوں پر سواری کرنے والے کھابہ گیر انہیں ایسے شعور پر منہ مارنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

سو ، اے مسائلستان کے غیور گھگھو گھوڑو اور بل بتوڑو ! ہمارے یہ مصنوعی نمائندے کبھی بھی ملک کو گرداب سے نہیں نکال سکتے ۔ خدا کرے کہ انہیں لاکڑا کاکڑا لاحق ہو جائے کہ ان میں سے اکثر انگریز کے درباری ، کچھ شکاری ، کچھ مداری ، کچھ بھکاری ، کچھ ہیرا پھیری اور کچھ چوری چکاری کی پیداوار ہیں ۔ ان کھابہ گیروں سے دور اندیشی کی توقع ایسے ہی ہے ، جیسے دانت درد کے لیے ڈینٹر یا بخار کے علاج کے لیے پلمبر سے رجوع کیاجائے ۔ اغیار کی دو ٹکے کی مشین بتا دیتی ہے کہ مائوں کے پیٹ میں کیا ہے ، مگر یہ ابھی تک ہونقوں کی طرح پوچھ رہے ہیں کہ چولی کے پیچھے کیا ہے اور خود کش دھماکوں کے پیچھے کون ہے ؟ جی چاہتا ہے کہ سب ٹھگوں کی دعوت کروں اور نیلے تھوتھے سے ان کی تواضع کروں۔

اور یہ نیک بہروپیے اور دولت کے مندر کے سادھو…جہاں بھی بلند فکری کا ”خطرہ‘‘ نظر آئے ،وہاں ڈی ڈی ٹی چھڑک دیتے ہیں۔ سیل فونوں سے لے کر ہوائی جہازوں تک اور مائیکرو وویو اوون میں گرم کیے گئے کھانوں سے لے کر ایئر کنڈیشنرز تک خود تو مغرب کی ہر شے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ،حتیٰ کہ چھپ چھپ کر ”شیلا کی جوانی‘‘ بھی مغربی آئی فون پر ہی سنتے ہیں ، مگر معصوم لوگوں کو مغرب کے خلاف مسلسل پمپ کر رہے ہیں۔ اگر مغرب کا ایجاد کردہ نظر کا چشمہ انکے چہروں کی زینت نہ بنے تو یہ ٹھڈے کھا کھا کر گریں اور ان کے تھوبڑے سوج جائیں۔ کبھی یہ تصویر کو حرام کہتے تھے ، آج مووی کیمرے کی صورت یہ کھوتا حلال ہو چکا ہے ۔ کبھی میڈیکل کالج اور پرنٹنگ پریس بھی حرام تھے ، جنہیں وہ اپنے تیز دھار چھروں سے ”حلال‘‘ کر چکے ہیں۔ غیر مریخ کی پہاڑیاں سَر کر رہے ہیں ، یہ بچپن کی شادیوں اور دوسری ،تیسری شادیوں کی بحث میں پڑے ہیں۔

قبل از مسیح کی روحو ! یہ شمشیروسناں نہیں ، سیٹلائٹ کا عہد ہے ، جس میں جدید ٹیکنالوجی کی شوخ و شنگ حسینہ تمہارے احمقانہ افکار پر دوپٹہ منہ میں دیئے ہنس رہی ہے ۔ حالانکہ اسے اپنی اونچی ایڑھی والا سینڈل اتار کر ان کی خالی کھوپڑیوں کو پوپلا کر دینا چاہیے ۔ میرا بس چلے تو ان کی فکری فوڈ پوائزنگ کا علاج جمال گھوٹے سے کروں …بنتی سوئی نہیں اور شیخ چلی نغمہ سرا ہیں …لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا۔

ادھر خلائی منصوبوں کے سنگ بے بنیاد رکھنے والوں کو دیکھو کہ ملکی آبادی اکیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے مگر یہ اس بم سے بے نیاز ،پارلیمنٹ لاجز میں لہو و لعب کی محفلیں سجائے بیٹھے ہیں …لیکن خبردار کوئی مجھے اسلام آباد کی محفلوں کا ٹھرکی نہ سمجھے ۔ میں تو سالوں بعد اس شہرِ بخیلاں میں گیا ،وہ بھی اس لیے کہ میری فائل پر گریڈ بائیس کا ایک کیکڑا بیٹھ گیا تھا ۔ میں نے بھی اس کا ایسا علاج کیا ہے کہ اب کسی فائل تو کجا کرسی پر بیٹھنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ میں تو وہ ہوں کہ اسلام آباد کا بھرا میلا اس وقت چھوڑا ، جب آتش جواں تھا اور …بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں۔ کتنے ہی بت کافر میرے حسن پر نثار تھے مگر میں اس وقت بھی اتنا ہی غصیلا تھا اور میرے بارے میں مشہور تھا کہ :
رازو نیاز میں بھی اکڑ فوں نہیں گئی
نامہ بھی لکھ رہا ہے وہ چالان کی طرح

کسی میں ہمت نہیں کہ اس دور کی حسین یادوں کو اپنے ساتھ شیئر کرنے پر مجھے مجبور کر سکے ۔ اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہے تو وہ گریڈ بائیس کے کیکڑے کا انجام یاد رکھے‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).