امریکہ کس نے دریافت کر لیا ؟


مشرق و مغرب کی تمام نصابی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ امریکہ 1492ء میں کولمبس نے دریافت کیا۔ جب وہاں قدم رکھتے ہی اس کا سابقہ پروں والی ٹوپی پہنے ریڈ انڈینز سے پڑا تو کولمبس کو بہت دکھ ہوا کہ اس سے صرف بارہ پندرہ ہزار برس پہلے کچھ لوگ سائبیریا سے بحیرہ بیرنگ کے منجمد سمندر پر چلتے ہوئے براعظم شمالی امریکہ میں داخل ہوئے اور وسطی امریکہ کی پٹی عبور کرتے کرتے جنوبی امریکہ کے آخری سرے تک نہ صرف جا پہنچے بلکہ انہوں نے ” مایا ‘‘ اور ” انکا ‘‘ تہذیبوں کی بنیاد بھی رکھی ، اور یہ تہذیبیں تب بھی زوال پذیر حالت میں تھیں جب کولمبس نے اس سر زمین پر بنا ویزہ سبز قدم رکھا۔ ریڈ انڈین چاہتے تو کولمبس اور اس کے ساتھیوں کو موقع پر ہی ابال کے کھا سکتے تھے مگر چونکہ وہ اس وقت تک خود کو امریکی کے بجائے انڈین سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے کولمبس کو چاندی اوراونی جانوروںکی قیمتی کھالیں دے کر اس امید پر رخصت کیا کہ اب ادھر کا رخ نہ کرے گا ۔ مگر وہ دن اور آج کا دن امریکہ سب کا ہے اور کوئی امریکہ کا نہیں :
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
گوروں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے

اور مسئلے کیا کم تھے جو پچھلے ہفتے ترک صدر رجب طیب اردوان نے لاطینی امریکہ کے مسلمان اسکالرز کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پھر بحث اٹھا دی کہ امریکہ سب سے پہلے کس نے دریافت کیا ؟ فرمایا کہ کولمبس سے بھی 178سال پہلے مسلمان کیوبا پہنچے اور انہوں نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر مسجد بنائی ۔ ترک صدر دراصل ایک مسلمان محقق یوسف مروہ کی اٹھارہ برس پرانی تحقیق دہرا رہے تھے کہ مغربی افریقہ میں ٹمبکٹو ( مالی ) کی سنہری سلطنت کے بادشاہ منساابوبکر نے گیارہویں صدی میں 400 چوبی جہاز مغربی کُرّے کی جانب روانہ کئے جو کیوبا سے ہوتے ہوئے برازیل کے ساحل تک پہنچے مگر ان میں سے صرف ایک جہاز ہی سفر سے پلٹا۔ پھر کئی عرب جہاز رانوں نے تجارت کی غرض سے مغربی افریقہ اور مراکش کے ساحل سے بحیرہ اوقیانوس کے اس پار تجارتی سفر اختیار کیا( شائد اسی دریافت کے اظہارِ تشکر میں کولمبسی امریکہ مغربی افریقہ سے ڈیڑھ کروڑ غلام جہازوں میں بھر کے لے گیا۔)

لیکن یوسف مروہ کے اس دعوے سے بھی بہت پہلے سے اہلِ ناروے بضد ہیں کہ گرین لینڈ میں رہنے والے وائی کنگ نارویجن مسلمانوں سے بھی سو سوا سو برس پہلے نیو فاؤنڈ لینڈ (کینیڈا) میں ایک بستی بسا چکے تھے۔ اسی بحثا بحثی کے دوران ایک مغربی محقق گیون مینزیئس نے یہ درفنطنی چھیڑ دی کہ دراصل یہ چینی ایڈمرل ژینگ ہی تھا جس کا بیڑہ کولمبس سے بھی اکہتر برس پہلے (1421ء) امریکہ کے مغربی ساحل پر پہنچا۔ ثبوت یہ ہے کہ ایکویڈوراور پیرو وغیرہ میں کئی پرانے چینی سکے اور مجسمے دریافت ہوئے جن سے چین اور براعظم امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات کا سراغ ملتا ہے۔ جب چین کا معاملہ ہو تو بھلا جاپان کیسے پیچھے رہے۔ جاپانیوں نے دعویٰ کیا کہ ہم تو پچھلے تین ہزار برس سے بحرالکاہل کے آر پارآجا رہے ہیں لیکن کبھی غرور نہیں کیا۔اس پر بھی تو کوئی دھیان دے کہ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو اور برازیل میں آج جاپانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کیوں رہتی ہے؟ حالانکہ جاپانی تو وہ قوم ہے جس نے انیسویں صدی تک خود کو بیرونی دنیا سے بچنے کے لئے اپنے ملک کو صندوق کی طرح مقفل رکھا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ جاپانی شوق سے دور دراز جنوبی امریکہ جا آباد ہوئے ۔کوئی نہ کوئی آبائی تعلق یا یاد تو ہوگی ان جاپانیوں کے شعور و لاشعور میں ۔

مگر جنوبی بحرالکاہل کے ایک چھوٹے سے جزیرے کک آئی لینڈ کے باسیوں نے جاپان کے اس دعوے کو اپنی شکر قندی سے چیلنج کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شکر قندی جس کے بارے میں سب سمجھتے ہیں کہ اس کی جنم بھومی امریکہ ہے، دراصل کک آئی لینڈ سے امریکہ پہنچی ۔ ثبوت یہ ہے کہ کک آئی لینڈ میں شکر قندی کے جو قدیم چھلکے زمین میں دبے پائے گئے ، ان کی کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہوا کہ ہزار برس پرانے ہیں، جبکہ جنوبی امریکہ میں شکر قندی کے آثار سات سو برس پرانے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ امریکہ نہ تو جاپان اور چین نے دریافت کیا اور نہ ہی مسلمانوں یا کولمبس نے ، اس کا سہرا شکر قندی کے سر جاتا ہے ۔

ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ کس قدر فضول بحث ہورہی ہے اس وقت دنیا میں ۔ ترک صدر سے لے کر مجھ تک سب الجھے پڑے ہیں۔کیا فرق پڑتا ہے کہ امریکہ کب ،کس نے ،کیوں دریافت کیا۔ اس لایعنی بحث کے سبب اصل مسئلے کی جانب کسی کا دھیان نہیں کہ وہ بھلا کونسی گھڑی تھی جب امریکہ نے باقی دنیا دریافت کی ۔ یہ ایسی دریافت ہے جس کے آگے کولمبس بھی ہیچ ہے۔ وہ غریب تو ہندوستان کی تلاش میں نکلا تھا کہ راستے میں مُوا امریکہ پڑگیا اور وہ امریکہ کو ہی ہندوستان سمجھ کے ہنسی خوشی سپین لوٹ گیا ۔ مگر امریکہ نے تو باقی دنیا کچھ یوں دریافت کی کہ دریافت کے معنی ہی بدل گئے ۔

جیسے امریکی گن بوٹوں نے پہلے تو انیسویں صدی میں جاپان دریافت کیا اور پھر اس کے ایٹم بموں نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی دریافت کر لیا۔ اس کے تین برس بعد اسرائیل دریافت کرلیا۔ اسرائیل کے ایک برس بعد سرد جنگ دریافت کرلی۔ سرد جنگ کے ایک برس بعد جنگِ کوریا دریافت ہوگئی۔ پھر سیٹو اور سینٹو کی دوربین سے پاکستان اور پاکستان میں ایوب خان دریافت کرلیا۔ دریں اثنا ایران میں رضا شاہ پہلوی کا پُتلا اور خلیج میں تیل اور تیل پر پسارنے کے لئے شیوخ دریافت کرلئے اور پھر اچانک ویتنام ایسا دریافت ہوا کہ ہوتا ہی چلا گیا ۔ وہ تو شکر ہوا کہ ویتنامیوں نے بھی
کچھ عرصے بعد امریکیوں کوگھر بھیجنے کا راستہ دریافت کرلیا ورنہ تو امریکہ آخری ویتنامی بھی دریافت کر کے ہی چھوڑتا۔

یہ دریافتی تھکن ابھی پوری طرح اتری بھی نہ تھی کہ پتھریلا افغان ڈھیلہ راستے میں پڑا مل گیا ۔ اس ڈھیلے کا ٹھوس پن جانچنے کے لئے اسے روس کے سر پہ دے مارا اور پھر دونوں ڈھیلم ڈھیلہ ہوگئے ۔ روس تو سر پر پٹی باندھ کے پتلی گلی سے نکل لیا لیکن چھاتی چوڑ امریکہ کی سمجھ میں جب کچھ نہ آیا تو لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے عراق سے جا ٹکرایا اور وہاں صدام حسین دریافت کر لیا ۔ پھر جو آپا دھاپی مچی تو القاعدہ نامی بلی نے دبے پاؤں ورلڈٹریڈ ٹاور دریافت کرلیا۔ تب سے امریکہ اور القاعدہ ایک دوسرے کو ٹام اینڈ جیری کی طرح پوری دنیا میں دریافت کرتے پھر رہے ہیں ۔ اس دریافتی غبار سے ذرا اونچائی پر چین تاک میں بیٹھا زبان پھیر رہا ہے کہ کیوں نہ لگے ہاتھوں امریکہ کو ایک بار پھر دریافت کرکے وہ کام جو 1421ء میں ایڈمرل ژینگ ہی نے نامکمل چھوڑا تھا اسے مکمل کر ہی لیا جائے اور پھر اس دریافت کو ٹھنڈے ٹھنڈے کھایا جائے۔رہے ہمارے آپ کے قبلہ رجب طیب اردوان تو وہ بھلے مسلمانوں کے ہاتھوں براعظم امریکہ کی دریافت کی خوشی میں وہاں ایک اور مسجد بنا دیں، یہی وہ کام ہے جو قرطبہ سے لاہور کی ” مسجدِ شب بھر ‘‘ تک ہمیشہ جذبے سے کیا گیا۔
آپ کیا کہتے ہیں ؟ مسلمانوں نے امریکہ دریافت کیا یا پھر مسلمان امریکہ کے ہاتھوں دریافت ہوگئے ؟

بشکریہ روزنامہ دنیا 20-11-2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).