لاہور این اے 120: ووٹوں کو خریدنے کے الزامات


حنا سعید۔ بی بی سی اردو، لاہور۔
لاہور کے حلقہ این اے 120 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے 17 ستمبر کو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے اور حلقے میں سیاسی مہم کے آخری دور میں سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔
بائیومیٹرک ڈیوائسز سے پاکستان میں الیکشن کے طریقۂ کار میں تو بدلاؤ آ رہا ہے لیکن کیا روایتی انتخابی مہم میں بھی کوئی تبدیلی آئی ہے؟

بی بی سی کی ٹیم نے این اے 120 کا دورہ کیا تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔ اب بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹ مانگنے کے وہی طریقے اپنائے جا رہے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے رائج ہیں۔ کسی کو پیٹرول کا لالچ دیا جا رہا ہے تو کسی کو مفت دوائیاں اور کہیں روایتی کھابے کے چسکے پورے کیے جا رہے ہیں۔

ووٹرز کو ان کے مزاج کے مطابق مختلف طریقوں سے قائل کیا جا رہا ہے۔ حلقے کے ووٹرز نے دعویٰ کیا کہ نواز لیگ کی جانب سے رہائشیوں کو خوش کرنے کے لیے مفت پٹرول دیا جا رہا ہے۔
مقامی کمپنی میں ملازم وقاص محمد نے بتایا ’بغیر کسی وعدے کے اور شناختی کارڈ دکھائے، میں اپنے علاقے میں موجود مسلم لیگ نواز کے دفتر گیا۔ سب ہمیں وہاں جانتے ہیں، تو انھوں نے میری موٹر سائیکل کی پیٹرول کی ٹینکی فل کروا دی۔ بدلے میں کچھ مانگا نہیں لیکن ان کہی سی بات ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بدلے میں ان کو ووٹ دیں۔ ‘

جب اس بارے میں مسلم لیگ نواز کے مقامی یونین کونسل 58 کے چیئرمین شہاب بشارت سے پوچھا گیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ پارٹی تو انھیں سیاسی مہم کی لیے کوئی پیسے ہی نہیں دے رہی۔
’سب خرچہ ہم اپنی جیب سے کر رہے ہیں، چاہے وہ دس ہزار کی لاگت کی سٹریٹ لائٹس ہوں یا پول پر لگی خراب بجلی کی تاروں کی تبدیلی یا سڑکوں کی تعمیر۔ ہم کسی کو پٹرول نہیں دے رہے۔ ہاں اپنے علاقے کے لوگوں کے کام ضرور کروا رہے ہیں، لیکن صرف پارٹی کے لیے۔ ‘

حجام کی دکان کے باہر کرسیوں پر اپنی محفل سجائے نون لیگ کے سپورٹرمرتضیٰ رسول اور پی ٹی آئی کے کارکن جاوید کوثر سیاسی بحث میں مصروف تھے۔
مرتضیٰ رسول نے بتایا کہ علاقے میں موجود پی ٹی آئی کے دفاتر میں روز صبح کے ناشتہ کے ساتھ دوپہر اور رات کا کھانا کسی لنگر سے کم نہیں ہوتا۔ ’کھاتے سب ہیں لیکن ووٹ تو ہماری نون لیگ کو ہی دیں گے، آپ دیکھیے گا۔ یہ پی ٹی آئی والے کھانا دے کر یا ہزار، پندرہ سو روپے میں ہمارا ووٹ نہیں خرید سکیں گے۔ ‘
مرتضیٰ رسول کی بات کی تائید مسلم لیگ نون کی دیرینہ ووٹر ربیعہ نصرت نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے علاقے میں ووٹ خرید رہے ہیں۔

’پی ٹی آئی والے میرے پاس آئے اور کہا کہ فی ووٹر دو ہزار روپے دیں گے، آپ حلفیہ بیان دی دیں کہ آپ ووٹ ہمیں ہی دیں گی۔ تو میرا جواب تھا کہ میرا ووٹ بکاؤ نہیں، اگر ضمیر ہی بیچنا ہے تو دو ہزار روپے بہت کم قیمت ہے۔ ‘
ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے جب سنت نگر میں پی ٹی آئی کے آفس پہنچے تو علاقے میں مہم سازی کرنے والی ٹیم سے ملاقات ہوئی۔
ماضی میں مسلم لیگ نواز اور اب پی ٹی آئی کے کارکن محمد آفتاب نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کھانے اور مہم سازی کے تمام اخراجات پارٹی نہیں، ممبران ذاتی فنڈز کے ذریعے پورے کر رہے ہیں۔

’پی ٹی آئی کے پاس نون لیگ جتنا کھلا پیسہ نہیں۔ ہم تو اپنے خرچے مشکل سے پورے کرتے ہیں۔ جبکہ نون لیگ والے ووٹرز کو نوکریوں کا لالچ اور دھمکیاں دے کر اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ‘
پاکستان میں سیاست کے روایتی انداز کو برقرار رکھتے ہوئے الیکشن میں شامل ہر سیاسی پارٹی کی کوشش ہے کہ مخالف پارٹی کی کمزوری ڈھونڈ کر حلقے کے ووٹر کو کسی نہ کسی طرح اپنی جانب کھینچ لیں۔

ایسے میں ایک نئی پارٹی منظر عام پر آئی ہے جو اب تک الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ بھی نہیں۔
جماعت الدعوہ کی سیاسی پارٹی ملی مسلم لیگ آزاد امیدوار محمد یعقوب شیخ کی حمایت کر رہی ہے اور ان کے لیے علاقے میں مہم بھی چلا رہی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے کارکن شہاب بشارت کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کے خدمت کرنے کا سلوگن لے کر ملی مسلم لیگ مفت دوائیاں، شربت اور پھلوں کے تحائف دے کر علاقے میں ووٹرز کو گھیر رہی ہے۔ ‘
دوسری جانب ملی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم کا کہنا ہے کہ صرف عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
’ہم گھر گھر جا کر آگاہی پھیلا رہے ہیں، سامان نہیں۔ ہماری پارٹی نئی ہے اس لیے لوگوں کو مل کر بتا رہے ہیں کہ ہم ان کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ووٹرز کو کسی قسم کا لالچ نہیں دے رہے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp