نافرمان لڑکی کا قتل اور لنڈے کے لبرلوں کی چیخ و پکار


ان لڑکیوں نے بھی حد ہی کر دی ہے۔ اور خاص طور پر غریب گھروں کی ”ٹین ایج“ لڑکیاں جنہیں اپنے والدین کی کم عقلی کی وجہ سے سکول جانے کی لت بھی پڑ گئی ہے وہ تو پھر اہم خاندانی معاملات کو بگاڑنے کی ماہر ہو جاتی ہیں اور بگاڑے بغیر انہیں چین بھی نہیں آتا۔

اب یہ صوبہ سندھ کا کل والا واقعہ ہی دیکھ لیں۔ ثانیہ ایک مزدور کی بیٹی ہو کر بھی دسویں جماعت میں پڑھنے کا شوق کما رہی تھی۔ ظاہر ہے، ساری خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ چلو جب تک شادی کے لیے کوئی رشتہ نہیں آتا تب تک سکول جاتے بھی رہو تو خیر ہے، لیکن جب رحمت کے فرشتے نے گھر کے دروازے پر دستک دے دی ہے اور ایک اچھا رشتہ آ ہی گیا ہے تو پھر سکول جانے کا کیا بہانہ باقی رہ جاتا ہے۔

ثانیہ کے لیے ایک اچھا بھلا کھاتا پیتا اور میچور وڈیرا مہربان ہو گیا اور اس نے ثانیہ سے شادی کرنا چاہی۔ ظاہر ہے ثانیہ اور اس کی فیملی کو اس پر بہت خوش ہونا چاہیے تھا اور شکر بجا لانا چاہیے تھا کہ رشتہ آ گیا ہے۔ اور شادی ہو رہی ہے بیٹی کی اور وہ بھی ان کی اوقات سے کہیں بہتر خاندان میں۔ لیکن چونکہ ثانیہ کو تو سکول کی بری لت لگ چکی تھی اس لیے شادی سے صاف انکار کر دیا۔ اس کفران نعمت پر کوئی کیا کہے۔

ایک شریف عزت دار آدمی جس نے شادی کا سندیسہ بھجوایا تھا اس کا دل بھی ٹوٹا اور ساتھ ہی ساتھ بے عزتی بھی محسوس ہوئی۔ ظاہر ہے ایک بالشت بھر لڑکی جس کا باپ محض ایک مزدور ہے اس کو کیسے جرات ہوئی کہ ایک وڈیرے کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ اپنی شادی کے فیصلے میں لڑکی کا کیا کام ہے کہ بولے اور وہ بھی انکار میں۔ اس ساری صورت حال سے بیچارہ شریف آدمی، جس نے کمال مہربانی اور شرافت سے رشتہ بھیجا تھا، اس پر تو غم و غصے کاپہاڑ ٹوٹنا ہی تھا۔

اتنا غم، غصہ اور بے عزتی، ظاہر اس کا کوئی ردعمل تو ہونا ہی تھا۔ خیر وہ شریف آدمی لگتے ہیں کیونکہ انہوں نے لڑکی کو اس زیادتی کی بہت کم سزا دی۔ انہوں نے صرف لڑکی کو قتل کیا اور وہ بھی بندوق کی گولی سے۔ یعنی نہ انہوں نے فیملی کا حقہ پانی بند کیا، نہ ان پر تیزاب پھینکا، نہ ان کا گھر جلا کر ان کو گاؤں سے نکالا، نہ ہی باقی لڑکیوں کو اٹھایا اور نہ ہی اس فیملی کی باقی عورتوں کو ننگا کر کے بازاروں میں پریڈ کروائی۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس شخص نے بہت رحم دلی سے کام لیا اور سوائے ثانیہ کو قتل کرنے کے اور کچھ بھی نہیں کیا۔

دوسری اچھی بات یہ ہوئی کہ اٹھارہ سالہ ثانیہ کو قتل بھی اس کے گھر والوں کے سامنے کیا۔ اس لیے کسی قسم کے تشدد کا الزام بھی نہیں لگ سکتا۔ اور مقتول کے لواحقین کو بے عزتی سے بچانے کے لیے انہیں میڈیا سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ بات پھیلے گی تو بے عزتی تو لڑکی والوں ہی کی ہو گی نا۔ اور اسی طرح ان کو عدالتوں کے دھکوں سے بچانے کے لیے مقدمہ بھی درج نہیں ہونے دیا۔ اب وہ بے چارہ اس سے زیادہ کیا کرے۔

اب موم بتی مافیا اس بات کو اٹھائے گا۔ مغرب زدہ خواتین اور چند غیرت سے عاری مرد ڈالروں کے لالچ میں اس بات کو ساری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کریں گے اور اپنے ملک کی بے عزتی کروائیں گے۔ آسمان ایسے سر پر اٹھائیں گے جیسے ایک نافرمان لڑکی کے مرنے سے قیامت آ گئی ہو۔ یہ سارا موم بتی مافیہ اصل میں دیسی لنڈے کے لبرل ہیں۔

ان لنڈے کے لبرلوں میں ایک خرابی یہ ہے کہ صرف ایک طرف کی بات کرتے ہیں۔ صرف اس بات پر زور دیتے جائیں گے کہ لڑکی قتل ہو گئی تو بہت بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ اور اس بات کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیں گے کہ لڑکی کے قتل ہونے کے پیچھے آخر وجہ کیا تھی۔ آخر لڑکی نے شادی سے انکار کر کے جو غلطی کی تھی اور ہماری فیملی روایات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کا کیا بنے گا۔ اگر اس لڑکی کو نہ مارا جاتا تو پھر یہ راہ کھل جانی تھی اور اس بات سے متاثر ہو کر کئی اور لڑکیوں نے باغی ہو جانا تھا۔ اور ہمارا معاشرہ یورپ کی طرح تباہ ہو جانا تھا۔ اور یہی تو دیسی لنڈے کے لبرل چاہتے ہیں۔

یہ ہم بھی کہتے ہیں کہ لڑکی کو قتل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قتل کرنے کی وجہ کی طرف توجہ دینی بھی تو ضروری ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے طالبان دھماکہ کرتے ہیں تو سارا الزام ان پر لگا دیا جاتا ہے اور وجوہات کوئی دیکھتا ہی نہیں۔ آخر وہ یہ دھماکے کرنے پر مجبور کیوں ہوئے۔

اور بحث تھوڑی آگے بڑھے گی تو یہ لنڈے کے لبرل کہیں گے کہ ہمارے مذہب اسلام میں زبردستی کی شادی منع ہے اور یہ کہ لڑکی نے شادی سے انکار کر کے مذہبی روایات کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ چلو ٹھیک ہے لیکن ہم اس معاملے میں مذہب کی دلیل تو استعمال ہی نہیں کر رہے۔ ہم تو اس مسئلے میں اپنی روایات کی پاسداری کی بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ اس مسئلے پر مذہب والی دلیل صرف اور صرف کونسل آف اسلامک آئیڈیولوجی ہی چلا سکتی ہے۔ عام شخص کو مذہب کی دلیل یہاں پیش کرنے میں کافی دشواری ہوتی ہے کیونکہ وہ دیسی لنڈے کے لبرل باقاعدہ مثالیں لے کر آ جاتے ہیں اور پھر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik