حامی اور سامی مذاہب میں خدا کا تصور اور تصوف کے رنگ


تصوف ایک ایسا موضوع ہے جس کی موافقت اور مخالفت میں آج تک بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کے مداحین اور مخالفین کی جانب سے اس کی قبولیت اور رد میں دلائل و براہین کے انبار سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ حتیٰ کہ ماضی قریب اورزمانہءحال میں ہمارے چند ادیبوں نے اس موضوع کے متعلق عوام کے ذہن میں موجود تجسس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تصوف کو اپنی ادبی تصنیفات میں اس طرح سے گلیمیرائز کیا ہے کہ اس کی اصل روح مفتود ہو کر رہ گئی اوران کے قارئین کے ذہنوں میں تصوف کا ایک ایسا تصور تشکیل پایا جو کہ شاید تصوف کے لیے خود بھی اجنبی ہو۔ یہ تو خیر ایک جملہءمتعرضہ تھا۔ اس مضون کا بنیادی مقصد کسی بھی طرح کی عقیدت یا ذاتی عقائد سے بالاتر ہو کر اس اہم مگر نازک موضوع کا ایک علمی سطح پر جائزہ لینا ہے۔

مذہب کے بنیادی تصورات تخلیقِ کائنات، خالقِ کائنات کی معرفت، انسانی پیدائش و نشونما، واقعات کی علت، زندگی کے اختتام اور انسان کے لیے ہمیشہ سے معمہ بنی بعدازمرگ زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ دنیا کے مقبول مذاہب کو محققین ان بنیادوں پردو بنیادی گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یعنی circular اور linear مذاہب۔ Linear مذاہب وہ ہیں جن میں ایک شخصی خدا کا تصور موجود ہے، یعنی ان مذاہب میں خدا کا تصور ایک الگ وجود کے طور پر ہے، یعنی ایک آسمانی بادشاہ کا تصورجو اس فانی دنیا سے بالکل الگ ایک لافانی ہستی ہے اور ایک تخلیق کار اور حاکم ِاعلیٰ کی حیثیت سے کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔

ان مذاہب کو linear یعنی لکیری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں انسانی زیست اور موت کا تصور ایک لکیرکی مانند ہے جس کے مطابق انسان کسی اور عالم سے اس دنیا میں آتا ہے اور اپنی متعین تقدیر کے مطابق اپنا وقت گزار کر اگلی دنیا کی جانب مراجعت کر جاتا ہے۔ اس کے برعکس circular مذاہب وہ ہیں جن کے تصورات کے مطابق زندگی ایک دائرے کی شکل میں رواں دواں ہے۔ انسانی روح ایک قالب اختیار کرتی ہے اور جب وہ بوسیدہ ہو جاتا ہے تو وہ اس کو اتار پھینکتی ہے اور قدرت اسے دنیا میں کسی اور قالب میں ڈھال کر بھیج دیتی ہے۔ اس تصور کو عموماً مقامی طور پر آواگون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان مذاہب میں ایک شخصی خدا کا تصور موجود نہیں یعنی دوسرے الفاظ میں خدا کائنات سے الگ کسی ہستی کا نام نہیں ہے۔ ان مذاہب کے مطابق خدا ایک تجریدی تصور ہے یعنی ایک ایسی قوت جو تمام کائنات کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے اورکائنات کے تمام رنگ اس ہستی کے مظاہرہیں۔ ان دونوں طرح کے مذاہب کو حامی اور سامی مذاہب کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

عقائد کے مطابق کیوں کے طوفانِ نوح کے بعد دنیا کی آبادی کا نیا آغاز حضرت نوحؑ کے بیٹوں کی نسل سے ہوا تھا۔ ان کے بیٹے سام سے چلنے والی نسل جس میں بنیادی طور پر عرب و یورپیین اقوام شامل ہیں، سامیءالنسل کہلائیں اور ان میں فروغ پانے والے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی شناخت اسی نسبت سے سامی مذاہب کے طور پر کی جاتی ہے۔ دوسری جانب ان کے بیٹے حام کی نسل سے فروغ پانے والے باشندے جن میں قدیم ہندوستان اور ان سے ملحق علاقوں کی اقوام شامل ہیں (افریقی اقوام کو بھی انہی کی نسل سے مانا جاتا ہے اور محققین کا ماننا ہے کہ پرانے وقتوں میں افریقہ اور ایشیا ایک ہی منقطہءزمین تھا جو جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث منتقسم ہو گیا اور اس کے دونوں حصے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے) اور یہ باشندے حامی النسل کہلاتے ہیں۔ اسی نسبت سے ان کے مذاہب جن میں ہندومت، بدھ مت اور جین مت قابلِ ذکر ہیں، حامی مذاہب کہلاتے ہیں۔ اس طرح سامی مذاہب جن کی بنیادی تعلیمات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے circular مذاہب ہیں اورحامی مذاہب جن کی بنیادی تعلیمات ایک دوجے سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں، linear مذاہب ٹھہرے۔

دنیا میں رائج صوفیانہ تعلیمات کی بنیاد جس عقیدے پر استوار ہے اسے ہم اپنی زبان میں عقیدہءوحدت الوجود کے نام سے جانتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ درحقیقت وجود صرف ایک ہی ہے، اور اس کے علاوہ سب سراب ہے یا ایک واہمہ ہے۔ وجود اذلی اور ابدی ہے۔ اس کو فنا نہیں ہے، یہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اسی وجودِمطلق کا مختلف رنگوں میں ظہور ہے اور وقت کے ساتھ فنا ہو جانے والا ہے۔ صوفیانہ عقائد و تعلیمات کی بنیاد اسی عقیدے پر استوار ہے۔ اور آپ جس مذہب سے متعلق صوفی اکابرین کی تعلیمات بھی اٹھا کر پڑھ لیں، ان کا بنیادی نچوڑ یہی ہو گا۔ اس کے مقابل حضرت مجددالف ثانی یعنی شیخ احمد سرہندی رح نے وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا مگر اس کو وہ قبولیت حاصل نہ ہو سکی اور یہ محض نقشبندیہ مجددیہ سلسلے سے متعلق ان کے پیروکاروں تک محدود رہا۔ وحدت الوجود کے عقیدے کی جڑیں linear یعنی حامی مذاہب کی تعلیمات سے پھوٹتی نظر آتی ہیں، اور کم و بیش یہی تعلیمات ہندو مذہب کی قدیم ویدوں اور اپنشدوں میں ملتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب سامی مذاہب نے حامی مذاہب پر غلبہ حاصل کیا تو یہ تعلیمات تصوف کے نظریات کی شکل میں سامی مذاہب میں سرایت کر گئیں۔

تصوف کسی نہ کسی شکل میں ہر مذہب میں اپنا وجود رکھتا ہے چاہے وہ یہودیوں کا قبالہ ہو، عیسائیوں کے سینٹ ہوں، مسلمانوں کا تصوف ہو، ہندووں کا جوگ ہو یا بدھوں کا نروان ہو۔ تصوف کی تعلیمات اتنی ہی قدیم ہیں جتنی کہ نسلِ انسانی۔ دنیا میں نت نئے مذاہب آتے رہے مگر ان تعلیمات نے کسی نہ کسی صورت میں اپنا وجود برقرار رکھا۔ کہیں تو ان تعلیمات کا کھلے عام پرچار کرنے پر سرمد و منصور جیسی ہستیاں معتوب ہوئیں اور کہیں جنید بغدادی کی مانند مصلحت کوشی سے کام لیتے ہوئے اس کی تعلیمات کو خاص الخواص تک محدود رکھا گیا، اور عوام کے سامنے رائج شریعت اور مقبول مذہبی نظریات کا پرچار کیا گیا۔ ان تعلیمات کا اظہار کھل کر ہمیں برِصغیرمیں بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور ان جیسے دیگر فقیروں کے عارفانہ کلام میں نظر آتا ہے۔ شاید اس کی وجہ شاعری کا ایسا ذریعہءاظہار ہونا ہے کہ جس میں بات پردے کی اوٹ میں کی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے باوجود تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قصور کے عوام نے بلھے شاہ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا اور ان کے معتقدین ان کو شہر سے باہر ایک بیابان جگہ پر دفن کرنے پر مجبور ہو گئے تھے، جہاں آج ان کا مزار واقع ہے اور وقت کے ساتھ شہر کی آبادی کے گھیرے میں آ گیا ہے۔

اسی طرح مسلمانوں میں نظریہءوحدت الوجود کو اوجِ کمال پر پہنچانے والے حضرت ابنِ عربی کی قبر پر برسوں لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے رہے اور بالآخر سن پندرہ سو سولہ میں خلافتِ عثمانیہ کے ایک ترک سلطان نے دمشق کی فتح کے بعد از مزار کو دوبارکوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے نیچے سے دریافت کر کے اس کی تزئین و آرائش کروائی۔ اسی طرح ہمارے ملتان میں مدفون حضرت بہاءالدین ذکریاؒ کے مرشد شیخ شہاب الدین سہروردی کو جنہوں نے یونانی حکما کی صوفیانہ تعلیمات سے متاثر ہو کر فلسفہءاشراق کی بنیاد رکھی تھی، اور انہیں اسی وجہ سے شیخ الاشراق کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، علماءوقت کے فتاویٰ کی بنیاد پر صلاح الدین ایوبی کے حکم پر حاکمِ شہر نے قتل کروا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مصلحت پسند صوفی اکابرین نے وحدت الوجود کا پرچار شریعت کے پردے میں رہتے ہوئے کرنے کی راہ اپنائی۔

اس سب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تصوف کا نہ تو کوئی تعلق مافوق الفطرت طاقتوں کے حصول سے ہے اور نہ ہی لوگوں کے دنیاوی مسائل کے حل سے اس کو حقیقت میں کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اس کا مطمعءنظر گدیاں چلانا ہے۔ صوفیاء کرام کی ریاضتوں کا مقصد اپنے فلسفے کے مطابق اپنے فانی وجود کو فنا کر کے ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی ذات کا میں ضم ہو جانا ہوتا ہے۔ اور کائنات کے سارے رنگوں کو وہ اسی ایک ذات کا ظہور مانتے ہوئے تمام مذہبی، مسلکی، نسلی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہوتت ہیں۔ تصوف کی اسی تاریخ کی وجہ سے چند علماءکرام جیسے کہ جاوید احمد غامدی صاحب اسے ایک متوازی مذہب قرار دینے پر مصر ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارےعلماءکرام کسی نظریے کو مذہب کی عینک کے بغیر دیکھنے کے عادی نہیں جبکہ تصوف کا دائرہءکار اس قدر وسیع ہے کہ اس کا کسی ایک مذہب کے دائرے میں مقید ہو کر رہنا ممکن نہیں۔

عمار غضنفر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).