کیا جان ایلیا کو انکی من چاہی حسینہ نے بھائی کہہ کر پکارا؟


کمرے کی روشنی مدھم تھی، یو ٹیوب پر جان ایلیا کی شاعری انہی کی آوز میں سنتے ہوئے میں سبز چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا اور خود کو ہر قسم کی سوچوں سے آزاد کرچکا تھا کہ جان صاحب کی ایک نظم نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروا کر سکون برباد کردیا۔ حیران کن طور پر یہ نظم مجھے تحریر شدہ تو مل گئی مگر ان کو کسی مشاعرے میں کہتے نہیں سنا۔ نہ ہی کسی کو جان صاحب سے اس نظم کی فرمائش کرتے سنا۔

آج کی جناتی ٹیکنالوجی، تعلیم، پیسوں اور چالاکی سے بھرپور مردوں اور خواتین کو بھی باہمی تعلقات میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ مسائل تاہم یہ نئے نہیں۔ اس بات کا اندازہ بھی مجھے جان صاحب کی اس شاعری ہی سے ہوا۔ آج کی لڑکی کی زندگی میں بہت سے مرد ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ کوئی اسکا ہم جماعت، کوئی بہترین دوست، کوئی انٹر نیٹ کا دوست، کوئی محض دوست، کوئی منہ بولا بھائی تو کوئی خوش نصیب بوائے فرینڈ۔ ان تمام مردوں میں سے جو خاتون کا دل جیتنے میں کامیاب ہوجاتاہے وہ بوائے فرینڈ تو بقیہ دیگر رشتوں پر فائض ہوجایا کرتے ہیں۔ نوجوان نسل اسے انگریزی میں فرینڈ زونڈ اور برادر زونڈ وغیرہ کہا کرتے ہیں۔ زیادہ تر لڑکوں کی خواہش بوائے فرینڈ کہلوائے جانے میں ہی ہوتی ہے نہ کے دوست یا بھائی۔ وجہ اسکی صاف ظاہر ہے۔ بوائے فرینڈ کو میسر مراعات! یہی مسئلہ خواتین کو بھی درپیش ہوا کرتا ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ مرد کی محبوبہ بننا تو پسند کرتی ہیں، بہن، دوست یا کلاس فیلو ہرگز نہیں!

میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب جان ایلیا صاحب کو اس موضوع پر شاعری کرتے پڑھا۔ اپنی اس نظم میں وہ نہ صرف اپنے محبوب سے بھائی کہلوائے جانے کا شکوہ کرتے پائے گئے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مرد اور عورت کے درمیان ایک فطری رشتے کے سوا دیگر تمام تعلقات کو مسترد بھی کردیا ہے۔

 سوال یہ ہے کہ جان صاحب کا یہ محض خیال ہی تھا یا حقیقت میں ان کے محبوب نے انہیں بھائی کہہ کر پکارا تھا؟ کیا جان صاحب بھی فرینڈ یا برادر زونڈ ہوگئے تھے؟

نظم درج ذیل ہے۔

ﺭﺷﺘﮧ ﺁﺩﻡ ﻭ ﺣﻮﺍ

ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻓﺮﻭﺯﯼ،ﻣﺮﯼ ﻣﻌﺒﻮﺩﮦ ﺟﺎﮞ

ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﻬﮯ ﻣﮑﺘُﻮﺏ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻧﮕﺎﺭﺵ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﻭﺣﺸﺖ ﺍﻓﺰﺍ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺍﺳﻠُﻮﺏ ﺧﻄﺎﺏ

ﺩﯾﮑﻬﻨﺎ ﺗﻬﮯ ﻣﺠﻬﮯ ﺷﺮﻣﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﭽﻪ ﺟﻤﻠﮯ

ﯾﮧ حکایات ﻭ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺳُﻨﻨﺎ ﺗﻬﯿﮟ

ﺗﻢ ﻧﮯ ﻟِﮑﻬﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﺳﻤﺠﻬﺘﯽ ﮨﻮ ﻣﺠﻬﮯ

ﺁﺏ ﺯﻡ ﺯﻡ ﺳﮯ ﮐﺮﻭ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﺎﻍ

ﺗﻢ ﻧﮯ ﻟﮑﻬﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﻣُﺠﻬﮯ

ﺷَﻤﻊ خانہ ﺳﮯ ﺟﻼﺅ ﻧﮧ ﻣﺮﯼ ﺷﺐ ﮐﺎ ﭼﺮﺍﻍ

ﺗﻢ ﺍﮔﺮ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﺳﻤﺠﻬﺘﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﻬﯽ ﻟﮑﻬﻮ

ﺑﻬﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺧﻂ ﮐﻮ ﺑﻬﯽ ﭼﻬﭗ ﭼﻬﭗ ﮐﮯ ﭘﮍﻫﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟

ﺗﻢ ﺍﮔﺮ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﺳﻤﺠﻬﺘﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﻬﯽ ﺑﺘﻼﺅ

ﺑﻬﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﻬﯽ ﺷﺮﻣﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﻬﺎ ﺗﻬﺎ ﻣﮯ ﻧﺎﺏ ﺗﺨﯿﻞ ﺗﻢ ﮐﻮ

ﺍﺏ ﯾﮧ ﺗﻘﺪﯾﺲ ﺗﺨﯿﻞ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ

ﺁﺅ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ

ﺣﺴﺮﺕ ﻟﺮﺯﺵ ﺑﮯ ﺟﺎ ﮐﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﺍﺣﺴﺎﺱ

ﻣﺮﺩ ﻭ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯼ ﺣﻮﺭ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ

ﺭﺷﺘﮧﺀ ﺁﺩﻡ ﻭ ﺣﻮﺍ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﻪ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).