بھوٹان کے سکول میں ایک قتل


بھوٹان کے دارلحکومت تھمپو میں ایک چھوٹا سا سکول ہے۔ وہاں بہت سے بچے دسویں جماعت تک پڑھ سکتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین انہیں سکول بھیج کر بے غم ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کا لاڈلا جب وہاں سے نکلے گا تو ایک باعزت زندگی گزارنے کا ابتدائی سبق لے چکا ہو گا۔ بھوٹان کا سرکاری مذہب بدھ ازم ہے۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات کے مطابق بدھسٹ بڑے امن پسند لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں وہ کہتے پھرتے ہیں کہ ان کا عقیدہ بھلائی اور محبت کا پرچار کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں تو کیڑے مکوڑے مارنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ سچے دل سے اپنے عقیدے کو فالو کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی ان کی راہ نجات ہے۔ ہوا یوں کہ اگست کے آخری ہفتے میں ایک مسلمان لڑکے نے ادھر داخلہ لے لیا۔ ابھی اپنے سکول میں اس کا پہلا دن ہی تھا کہ ایک استاد نے اسے کلاس سے باہر نکال دیا۔ اسے کہا گیا کہ چوہڑے تمہارا یونیفارم پورا نہیں ہے (وہاں چونکہ چھوٹی موٹی صفائی کی نوکریاں وہی لوگ کرتے ہیں اس لیے انہیں چوہڑا کہا جاتا ہے۔) وہ بے چارہ سر جھکائے گھر چلا گیا۔ ماں کو سارا قصہ سنایا، ساری رات ماں روتی رہی اور لڑکا اپنے غم کا ہار ماں کے گلے میں ڈال کر نچنت سو گیا۔ صبح وہ بہت لیٹ اٹھا، ماں نے اسے جان بوجھ کر نہیں اٹھایا تھا۔ اوکھے سوکھے ہو کر اگلا پورا دن انہوں نے یونیفارم کے باقی لوازمات پورے کرنے میں گزار دیا۔ وہ اب بہت خوش تھا، اس کی ماں بھی سہانے خواب دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں سکول جانے کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی ختم کر چکے تھے۔

 

اگلے دن صبح سویرے سولہ سترہ برس کا نوجوان پوری نک سک سے تیار ہوا اور خوشی خوشی سکول چلا گیا۔ بھوٹان میں ایک مسئلہ بہت زیادہ ہے۔ وہاں چھوت چھات کا رواج اب بھی موجود ہے۔ بھوٹانی ماں باپ اپنے بچوں کو دوسرے عقائد رکھنے والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ باقی تو سب خیر ہے اگر کسی مسلمان سے ملنا پڑ جائے تو پورا ہاتھ بھی نہیں ملانا، بس دو انگلیوں سے مصافحہ کرنا ہے اور ان سے زیادہ بات چیت نہیں کرنی، وہ ناپاک لوگ ہیں، کیوں ہیں؟ اس بارے میں بچے کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ اصل میں یہ نظریہ روائتی طور پر ان کے باپ دادا کے زمانے سے وہاں چلا آ رہا ہے۔ دو تین نسلوں بعد اس سارے معاملے میں اتنی شدت آ چکی ہے کہ اب وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر کھانے پینے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ کبھی بہت زیادہ وقتا پڑ جائے تو انہیں الگ برتنوں میں کھانا پیش کر دیتے ہیں، میلے پلاسٹک یا سٹیل کے برتن ہر قابل عزت بھوٹانی اپنے گھر میں رکھتا ہے تاکہ مسلمانوں کی سیوا کر سکے۔

 

تو وہ جوان نئی یونیفارم ڈٹ کے سکول پہنچا اور خوشی خوشی استاد کا انتظار کرنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ اب اسے کوئی بھی کلاس سے باہر نہیں نکال سکتا۔ بیٹھے بیٹھے اسے تھوڑی پیاس محسوس ہوئی۔ وہ اٹھا اور پانی پینے کے لیے کولر کے پاس گیا۔ ٹھنڈا پانی تھا، دیکھ کر ویسے ہی طبیعت خوش ہو گئی، ایک دو گلاس وہیں کھڑے کھڑے پی لیے اور آرام سے واپس آ کر اپنی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ پیاسے کو پانی پلانے والے معاملے کی چونکہ ویسے بھی اس کے عقیدے میں فضیلت تھی اس لیے وہ ہمیشہ دوسروں کو پانی پلانے میں بھی آگے آگے رہتا تھا۔ ابھی وہ سیٹ پر آ کے بیٹھا ہی تھا کہ اس کا ہم جماعت ایک بدھسٹ لڑکا اس کے سر پہ آ کر کے کھڑا ہو گیا۔
لڑکے نے اس سے پوچھا کہ تم ابھی پانی پی کر آئے ہو؟ اس نے کہا ہاں، پیا ہے۔ بدھسٹ نے پوچھا گلاس کون سا تھا، کہنے لگا وہی جو وہیں پڑا تھا۔ بس یہ پیاس اس بچے کی آخری پیاس تھی اور یہ جملہ اس معصوم کا آخری جملہ تھا۔ اس کے بعد کلاس میں موجود ساٹھ ستر بدھ طالب علموں نے اسے اتنے برے طریقے سے مارا کہ وہ غریب بچ نہیں سکا۔ کچھ اچھے بدھسٹ بچے بھی وہاں موجود تھے، وہ اسے ہسپتال لے گئے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ ہسپتال والوں نے اس مسلمان بچے کو ڈیٹھ سرٹیفیکیٹ ایشو کر دیا۔ بھوٹانی اقلیتی فرقے کی ماں نے اپنے بچے کو نئی یونیفارم نہیں کفن خرید کر دیا تھا سو اس میں وہ اپنے گھر واپس آ گیا۔ بھوٹان کے میڈیا نے اس قتل کی خبر شائع کی تو معلوم ہوا کہ سکول میں آس پاس کوئی استاد موجود نہیں تھا۔ شاید وہ کئی مربعوں میں پھیلا ہوا سکول ہو گا ورنہ عام طور پر تو چوکیدار، ہیلپر، استاد، دوسری کلاسوں کے بچے، سب کے سب ٹوہ لینے کے لیے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہو اور پرنسپل تک بات پہنچائیں۔ ایک استاد نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس وقت اخبار پڑھ رہے تھے۔ شاید بھوٹان میں اخبار پڑھتے ہوئے لوگ اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کے سروں پر بم بھی گرائے جائیں تو انہیں پتہ نہیں چلتا۔ سکول انتظامیہ ویسے بھی اپنے نامعلوم کاموں میں اس قدر مصروف تھی کہ بدنصیب لڑکا جب مر گیا تو ایک گھنٹے بعد وہ لوگ وہاں جا سکے اور اس کی موت کی خبر لے کر آئے۔

 

ہے نا عجیب سا واقعہ؟ بھوٹان میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ بدھ لوگ برما میں جو مرضی کرتے پھریں لیکن بھوٹان کے بارے میں تو ایسی خبر کبھی نہیں آئی۔ خدا نہ کرے ایسی خبریں دنیا کے کسی ملک سے بھی آئیں۔ یہ پاکستان تھا۔ یہ بورے والا ہے۔ یہ وہاں کا گورنمنٹ سکول ہے۔ چوہڑے کا کردار حسب سابق اس کہانی میں شیرون مسیح نے ادا کیا اور باقی ہم جماعت اور سکول والے ہمارے ہم وطن تھے۔

 

ایک مقبول عام بیانیہ یہ ہے کہ نفرتوں کے جو بیج ہم نے ضیا دور میں بوئے تھے اب انہی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم آج بھی اپنے نصاب کی صورت وہی بیج بوئے جا رہے ہیں، اسی فصل کو پانی لگا رہے ہیں اور ہر ماہ تازہ وصولی مشال خان یا شیرون مسیح کی شکل میں ہاتھ آتی ہے۔ یہ دو واقعات تو وہ ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوئے اور سامنے آ گئے، ان جیسی ان گنت کہانیاں ہر اس گلی محلے میں موجود ہیں جہاں کوئی ہندو، کوئی مسیح، کوئی سکھ، کوئی پارسی ہمارا ہمسایہ ہوا کرتا تھا۔ شیرون مسیح اس مذہب کا نہیں تھا جو مشال خان کا تھا، جو اکثریتی فرقے کا ہے، جو ہمارا ہے، جو پورے ملک کا ہے لیکن مشال والے کیس میں بھی انصاف آج تک ہوا میں لٹک رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ کا حکومتی ٹولہ وعدہ کرنے کے باوجود اب تک کوئی وکیل اس جواں مرگ کی حمایت کے لیے نہیں تیار کر سکا۔ ۱۳ اپریل (مشال کے یوم قتل) سے لے کر آج تک اس کی بہنیں پڑھنے نہیں جا سکیں، مقدمے کی کارروائی میں جے آئی ٹی رپورٹ کی شمولیت ابھی کنفرم نہیں ہوئی، خیبر پختونخواہ میں کوئی حکومت اگر ہے تو کہاں ہے؟

 

شیرون مسیح کیس کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ قاتل اس دن سے لے کر اب تک پولیس کی تحویل میں ہے، فالو اپ کی خبر کوئی نظر نہیں آتی۔ بین الااقوامی اخباروں میں لیڈ لگ چکی ہے، “کرسچن ٹین ایجر بیٹن ٹو ڈیتھ بائے کلاس میٹس ان پاکستان۔” یہی سرخی اگر بھوٹان میں رہنے والے کسی مسلمان کے بارے میں آتی تو ہمارا ری ایکشن کیا ہوتا؟ آج، عین اپنی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو ہم میں سے کتنے ہیں جو کسی قسم کی بے چینی محسوس کرتے ہیں؟ کیونکہ نہیں کرتے اس لیے یہ سب ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ جب تک ایسی خبروں کو مثال بنا کر گھر میں بچوں کو ایسے واقعات سے نفرت نہیں دلائی جائے گی، ان کے نصاب میں ضروری تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی تب تک یہ سب کچھ ایسے ہی چلے گا۔ افغانستان، ایران، فلسطین، آذر بائیجان وغیرہ کے روٹ سے گاڑی اتار کے اپنی گلی میں لانے کی ضرورت ہے، ادھر کافی مسئلے حل طلب ہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain