ڈریم کیچر اور رین ڈانس


ایک مرتبہ یوٹیوب پر لنک دیکھا جس میں‌ ایک ڈاکٹر صاحب اردو میں‌ ذیابیطس پر لیکچر دے رہے تھے۔ قریب تیس سیکنڈ کے بعد ذیابیطس کی جگہ ڈانٹ پھٹکار اور لعن طعن نے لے لی۔ ان کے مطابق سارے مریضوں‌ کے سارے مسائل اس وجہ سے ہوئے تھے کہ ان کا اپنا قصور تھا اور اگر وہ سب خدا اور رسول کے راستے پر چلیں گے اور عبادتیں کریں گے تو ان کی زندگی میں‌ سے ساری بیماریاں اور مسائل ختم ہوجائیں گے۔ اس وقت یہ تفریق کرنا مشکل ہوگئی کہ ان کے والدین نے بچہ میڈیکل کالج بھیجا تھا یا کسی مدرسے میں۔ اس وڈیو کو دیکھ کر میں‌ نے عبرت حاصل کی۔ ہم سب پر رنگ برنگے مضامین پڑھ کر ہر کسی سے فیس بک جنگ کرنے سے کہیں میں خود ہی میڈیسن نہ بھول جاؤں۔ اس لئیے آج کے بعد جو بھی مضامین لکھے جائیں گے وہ میری اپنی فیلڈ سے جڑے ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھنا چاہئیے تھا کہ سعودی تو اتنی نمازیں پڑھتے ہیں، کتنے روزے رکھتے ہیں، اپنے ہی ملک میں‌ حج بھی ہوگیا تو وہاں اتنی ذیابیطس کیوں پھیل رہی ہے؟

کافی لوگوں‌ کو فیس بک پر اس طرح‌ بلاک کیا ہوا ہے کہ وہ جو بھی لکھیں‌ مجھے دکھائی نہ دے۔ اگر کسی کو میرا لکھا ہوا اچھا نہ لگتا ہو تو وہ بھی ایسے ہی کرسکتے ہیں۔ اس طرح‌ دوستی بھی رہی اور بلاوجہ کے ذہنی تشدد سے نجات بھی ملی۔ جن پوسٹس کے بعد ان کو بلاک کرنا پڑا ان میں‌ کچھ یوں‌ تھیں‌ کہ فلاں فلاں آیت اتنی بار پڑھیں تو گھر میں‌ سے چوہے، کیڑے مکوڑے خود بخود مر جائیں گے۔ وہ میں‌ نے اپنے بھائی کو بھی بھیجی تھی کہ پیسٹی سائڈ کا بل کم کرنے میں مدد ملے گی اور ہم مل کر ہنسے تھے۔ ایک اور میری عمر کی آنٹی ہیں جنہوں نے ایک بہتر حکومت لانے کے لئیے وظیفہ لکھا ہوا تھا۔ قارئین برائے کرم وظیفہ بعد میں‌ کریں، اس سے پہلےخود کو امیدواروں کے خیالات سے باخبر بنائیں اور پھر سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالیں! اگر کوئی اچھا امیدوار نہیں تو آپ خود بنیں۔ آج لندن میں‌ دھماکوں‌ کی خبر ملی۔ نویں کلاس سے جنگل میں‌ بھاگ کر کیموفلاج جیکٹ پہن کر بندوق کے ساتھ تصویریں کھنچوانا بہت گلیمرس لگتا ہے لیکن ان پٹاخوں سے دنیا میں‌ کیا تبدیلی آپائے گی؟ کیا وہ مثبت تبدیلی ہوگی؟

میرے نانا کے ایک دوست کہتے تھے کہ تشخیص مرض کی موت ہے۔ یہ بات کچھ بیماریوں‌ پر لاگو ہوتی ہے اور کچھ پر نہیں۔ لیکن ان کا پیغام واضح ہے کہ کسی بھی مسئلے کو سلجھانے کے لئیے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ میں‌ ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ اینڈوکرنالوجی ہارمون کی بیماریوں‌ سے متعلق سائنس کی اسٹڈی کو کہتے ہیں۔ دو مہینے پہلے ایک صاحب کو ایڈرینل گلینڈ کی بیماری کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ ان کی تشخیص آدھی ٹھیک کی گئی تھی، باقی آدھی ہم لوگوں‌ نے پہچان کر ٹھیک کردی۔ وہ اور ان کی بیگم بھی میڈیکل کی دوسری فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں اور بتا نہیں سکتی ہوں‌ کہ انہوں‌ نے کتنی بار شکریہ ادا کیا۔

ایک انسان کے دو گردے ہوتے ہیں۔ ہمارے گردوں‌ کے اوپر والے سرے کے اوپر دو ایڈرینل گلینڈز پائے جاتے ہیں جن کا نارمل فزیالوجی میں‌ ایک اہم کردار ہے۔ ایڈرینل گلینڈ کی ساخت کو سمجھنے کے لئیے آم کی مثال سامنے رکھتے ہیں۔ ایڈرینل گلینڈ کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک میڈولا اور ایک کارٹکس۔ جیسے آم کی گٹھلی میڈولا ہو اور باقی حصہ کارٹیکس۔ کارٹیکس کی بھی تین سطحیں ہیں۔ جیسے آم کے گٹھلی سے باہر والے حصے پر چھلکا ہے، پھر اندر کا حصہ ہے۔ کارٹیکس کی تینوں‌ سطحیں الگ الگ ہارمون بناتی ہیں۔ سب سے باہر والی تہہ الڈاسٹیرون ہارمون بناتی ہے جو بلڈ پریشر اور الیکٹرولائٹس کے سسٹم سے متعلق ہے، دوسری تہہ کورٹیسول بناتی ہے جس سے بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر پر اثرات ہوتے ہیں، اندر والی تہہ ٹیسٹاسٹیرون بناتی ہے۔ میڈولا “فائٹ اور فلائٹ” لڑنے یا بھاگ جانے والا ہارمون اڈرینالین بناتا ہے۔ ان ہارمون کی کمی یا زیادگی سے مختلف بیماریاں ہوتی ہیں جن کی الگ علامات ہیں۔ ایڈرینل گلینڈ کے مختلف حصے جسم کے دیگر مختلف ہارمونز کے کنٹرول میں‌ ہوتے ہیں۔ اس لئیے ان ہارمونز کو الگ الگ سمجھنا بھی ضروری ہے اور ملا کر ایک پوری تصویر کی طرح‌ بھی۔ جو بچپن میں‌ کہانیاں‌ سنی تھیں‌ کہ لڑکی خود بخود لڑکا بن گئی، ایسا واقعی میں‌ ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کو سی اے ایچ یعنی کنجینٹل اڈرینل ہائپرپلازیا کہتے ہیں۔ کچھ انٹرسیکس بچوں کی بیماریوں کا تعلق بھی ایڈرینل گلینڈ کے اینزائمز سے ہے جن کی وجہ سے کیمکل ری ایکشن کا رخ مڑ کر مختلف ہارمونز کے بننے کی طرف ہوجاتا ہے۔

پہلے زمانے میں‌ جب سی ٹی اسکین اور ایکس رے یا ایم آر آئے مشینیں‌ ایجاد نہیں‌ ہوئیں تھیں‌ تو بہت سے لوگوں‌ میں‌ ایڈرینل گلینڈ کا ٹیومر ہوتا تھا تو انہیں‌ وقت پر پتا نہیں‌ چلتا تھا۔ زیادہ تر ٹیومر بیماری پیدا نہیں‌ کرتے لیکن کچھ کر بھی سکتے ہیں۔ کچھ کے مرنے کے بعد آٹوپسی کی گئی تو ان بیماریوں‌ کو سمجھا گیا اور پرانی کتابوں میں‌ ان کو اس طرح‌ لکھا گیا۔ کشنگ بیماری کے بارے میں‌ اس طرح‌ کی کیس رپورٹس ملتی ہیں۔ ان آرٹیکلز کو پڑھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ پرانے زمانے کے ڈاکٹر اچھی ہینڈ رائٹنگ میں‌ بہت تہزیب سے لکھتے تھے اور نئی ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باوجود کافی سائنس سمجھتے تھے۔

اگر کسی شخص کا پیٹ کا سی ٹی اسکین کیا جائے یا کمر کا ایم آر آئے اور اتفاقا” ایڈرینل گلینڈ میں‌ ایک سینٹی میٹر سے بڑا ٹیومر نظر آئے تو اس کو “انسیڈینٹالوما” یعنی اتفاقا” دریافت کیا ہوا ٹیومر کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر دی ہوئی تفصیل سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس ٹیومر کی نوعیت اس بات پر منحصر ہوگی کہ وہ ایڈرینل گلینڈ کے کون سے حصے میں‌ بنا۔ اینڈرینل گلینڈ کی ساخت کے علاوہ اس کی بایوکیمسٹری کے مطالعے سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف ایک گلینڈ کس قدر پیچیدہ ہے اور صرف ایک اینزائم نہ ہونے سے اس کا پورا نظام کس طرح‌ درہم برہم ہوسکتا ہے۔

ایڈرینل گلینڈ کی ساخت کے لئیے مندرجہ ذیل لنک دیکھئیے۔

https://goo.gl/images/5WRVWC

ایڈرینل گلینڈ کی ہسٹالوجی دیکھنے کے لئیے مندرجہ ذیل لکنک دیکھئیے۔

https://goo.gl/images/pV4AXq

ایڈرینل گلینڈ میں بننے والے ہارمون کا پاتھ وے دیکھنے کے لئیے مندرجہ ذیل لنک دیکھئیے۔

https://goo.gl/images/6rwhFy

جب تک کسی بھی پیچیدہ نظام کو اچھی طرح‌ نہیں‌ سمجھا جائے گا، اس سے متعلق کسی بھی مسائل کو نہ ہی پہچانا جاسکے گا اور نہ ہی ان کو ٹھیک کرسکیں گے۔ دنیا میں‌ سب لوگ پڑھنا نہیں‌ جانتے ہیں۔ جو پڑھ بھی سکتے ہیں ان میں‌ سے بھی کافی لوگ سائنس اور سوڈو سائنس میں‌ فرق نہیں‌ بتاسکتے۔ ضروری نہیں‌ ہے کہ کوئی انگلش میں‌ لکھ رہا ہو اور بات کررہاہو یا باہر سے بہت عقلمند دکھائی دے رہا تو ان کی بات میں‌ کوئی وزن بھی ہے۔ میڈیکل سائنس سے باہر ایڈرینل گلینڈ کی خیالی بیماریوں‌ کے بارے میں‌ کافی لٹریچر موجود ہے جن میں‌ سے ایک بیماری کو “ایڈرینل فٹیگ” یعنی ایڈرینل کی تھکاوٹ کہتے ہیں۔ یا تو ایڈرینل نارمل ہوتے ہیں اور ضرورت کے مطابق نارمل ہارمون بنا سکتے ہیں یا پھر وہ بیماری یا اسٹریس سے نبٹنے کے لئیے کافی کورٹیسول نہیں‌ بناسکتے جس کو ایڈرینل فیلیر کہا جاتا ہے۔ اس کا جواب ایسے دے سکتے ہیں کہ یا تو حمل ہوتا ہے یا نہیں‌ ہوتا۔ تھوڑے بہت حمل سے کوئی نہیں‌ ہوتا۔ ایڈرینل گلینڈ کی بیماریاں‌ طرح‌ طرح‌ کی ہیں، ہر بیماری کی علامات الگ ہیں اور ان کے ٹیسٹوں‌ کا طریقہ بھی الگ ہے۔ جو لیبارٹریاں وہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں وہ بھی مختلف جگہوں‌ پر پائی جاتی ہیں۔ ان ٹیسٹوں‌ کے نتائج مختلف اوقات میں‌ واپس آتے ہیں۔ جو لوکل ہوتے ہیں، وہ اگلے دن آجائیں‌گے لیکن شہر سے باہر بھیجے گئے سیمپل زیادہ ٹائم لگائیں گے، اسی لحاظ سے اگلی اپوائنٹمنٹ کا ٹائم سیٹ کرنا ہوگا۔

ایڈرینل گلینڈ سے متعلق بیماریوں‌ کے علاج کے لئیے مریضوں کو پرائمری کئر سے اینڈوکرائن کلینک میں بھیجا جاتا ہے۔ ان مریضوں‌ کی پیچیدہ بیماری کو سمجھنے کے لئیے پڑھائی بھی کرنی پڑتی ہے، ٹیسٹ بھی پاس کرنے ہوتے ہیں اور اس کے بعد بہت سارے مریض بھی دیکھنے ہوتے ہیں اور ایک پورا سسٹم بنانا ہوتا ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جماسکتے۔

ہر فیلڈ میں‌ معلومات تیزی سے بڑھی ہیں۔ دنیا کا نظام پیچیدہ ہے۔ ہر کام کا ایک پروسیجر ہے۔ جو لوگ اپنی تعلیم میں‌ اضافہ نہیں‌ کرتے اور نظام کی پیچیدگی کو نہیں‌ سمجھتے وہ ان مسائل کو اس طرح‌ سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش میں‌ وقت ضائع کرتے ہیں جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جناح قانون اور سیاست اور اس کے نظام کو سمجھتے تھے اس طرح‌ انہوں‌ نے پاکستان بنایا۔صرف وظیفہ کرنے سے یا منت مانگنے سے وہ نہیں بننا تھا۔ ریڈ انڈین کلچر میں‌ بارش نہ ہو تو رین ڈانس یعنی کہ بارش رقص کرتے ہیں اور وہ بستر کے سرہانے ڈریم کیچر لٹکا دیتے ہیں تاکہ برے خواب پھنسا لے۔ ہمارے کلچر سے باہر ہے اس لئیے ان کا مضحکہ خیز ہونا سمجھ سکتے ہیں۔ جو باتیں‌ بچپن سے ہمارے اپنے ذہنوں میں ڈالی گئی ہیں ان کا مضحکہ خیز ہونا ہمیں‌ دکھائی نہیں دیتا۔

ڈریم کیچر کی تصویر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).