سپریم کورٹ کو کس بات کی جلدی ہے!


تین روز کی وضاحتوں کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جمعہ کی صبح 28 جولائی کو اپنے ہی دیئے گئے فیصلہ کے خلاف نواز شریف ، ان کے بیٹوں ، بیٹی اور داماد کے علاوہ اسحاق ڈار کی دائر کردہ نظر ثانی کی درخواستوں کو مسترد کردیا ہے۔ 13 ستمبر کو شروع ہونے والی اس سماعت کے دوران بنچ میں شامل جج حضرات نواز شریف کے وکیل کو یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ پوری طرح غیر جانبدار ہیں اور اگر ایک بار ان کے مؤکل کے خلاف فیصلہ دیا گیا ہے تو اگلی بار وہ انہیں ریلیف بھی دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بنچ کے ارکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے ریمارکس کا ٹرائل کورٹ میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا اور نہ ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ مستند اور حتمی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں جے آئی ٹی کے کام کی اسی طرح توصیف کردی گئی تھی جیسے وکلائے صفائی کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ ان سب کلمات خیر اور غیر جانبداری کے اعلانات کے باوجود سپریم کورٹ کے بنچ کو نہ جانے کس بات کی جلدی تھی کہ انہیں اتنی عجلت میں فیصلہ سنانا پڑا کہ اس کا جواز بعد میں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کو یہ ’بلا جواز‘ فیصلہ ۔۔۔ بلاجواز اس لئے کہ فاضل ججوں نے فوری طور پر اپنے فیصلہ کی وجوہات بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے ۔۔۔ سنانے کی اتنی جلدی تھی کہ جمعہ کو ہی ایک فقرے میں تمام درخواست دہندگان کی اپیلوں کو مسترد کرنے کا اعلان کرنا ضروری سمجھا گیا۔ عام آدمی یہ سوچے گا تو ضرور کہ آخر ملک و قوم کا کون سا ایسا کام رکا ہؤا تھا کہ پانچ رکنی بنچ کو اتنی عجلت میں یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ وہ اپنے فیصلہ کا جواز تک فراہم کرنے کے لئے ’مہلت‘ مانگ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کو اگر سیاسی بیان مان لیا جائے تو صورت حال واضح ہوجاتی ہے۔ اتوار کو لاہور کے حلقہ 120 میں ضمنی انتخاب منعقد ہونے والا ہے۔ یہ نشست نواز شریف کے نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے خالی ہوئی ہے۔ ان کی اہلیہ کلثوم نواز اس نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین رشید اور دیگر امیدواروں سے مقابلہ کررہی ہیں۔ شریف خاندان یہ نشست جیت کر واضح کرنا چاہتا ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجودعوام میں مقبول ہیں اور مسلم لیگ (ن) 2018 کے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اور خاص طور سے پاکستان تحریک انصاف کو امید ہے کہ اگر اس حلقہ میں وہ کلثوم نواز کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئی تومسلم لیگ (ن) کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور وہ آئیندہ انتخابات میں بھی اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ اس طرح تحریک انصاف پنجاب میں نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ کرکے اپنے دور کا آغاز کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔

تجزیہ نگار اور مبصرین اس بات پر تو اختلافات کا شکار ہیں کہ تحریک انصاف کس حد تک آئیندہ انتخابات میں پنجاب یا ملک میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا اتنی نشستیں حاصل کرسکتی ہے کہ وہ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے۔ لیکن اس اندازے پر اکثریت متفق دکھائی دیتی ہے کہ اگر کلثوم نواز حلقہ 120 میں کامیاب نہ ہو سکیں تو یہ نواز شریف کی سیاست کے لئے ذبردست دھچکہ ہوگا۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے اور سیاسی مستقبل کو محفوظ رکھنے کے خواہشمندگان دیگر پارٹیوں کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی کے اندر بھی دھڑے وجود میں آسکتے ہیں جو پارٹی اور ملک پر قابض ہونے کے لئے پہلے ہی پر تول رہے ہیں۔ ان میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے علاوہ نواز شریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ حلقہ 120 کا مقابلہ نواز شریف کے لئے یوں بھی ایک مشکل چیلنج بن چکا ہے کہ ان کی اہلیہ لندن میں کینسر کا علاج کروا رہی ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں انہیں اپنے ہی بھائی اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔

ایسی صورت میں اتوار کی پولنگ سے پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ کا اعلان کرنے میں عجلت اگر کسی بد نیتی کی بنیاد پر نہ بھی کی گئی ہو تو بھی اس سے شبہات کو تقویت ملے گی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار اور فیصلوں کی نوعیت اور معیار پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ یہ تاثر کسی طرح بھی ملک میں انصاف عام کرنے اور لوگوں میں یہ یقین پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکتا کہ وہ اپنے ملک کی عدالتوں پر اعتبار کرسکتے ہیں کہ وہ بہر حال ان کی دادرسی کریں گی۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ لاہور کے ضمنی انتخاب پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین اس حکم کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں گے۔ یوں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ غیر سیاسی ہوتے ہوئے بھی سیاسی ہی کہا جائے گا۔ اس کے سیاسی اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ فاضل ججوں کو یہ فیصلہ سنانے کی آخر اتنی جلدی کیوں تھی کہ وہ اتوار گزرنے کا انتظار بھی کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکے۔

پاناما کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کو آئن کی شق 184 کے تحت حاصل ہونے والے اختیارات کے تحت کیا گیا ہے۔ اس شق میں سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے حوالے سے عوامی اہمیت کے معاملات پر ازخود نوٹس لینے اور فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس شق کے تحت نمٹائے جانے والے مقدمات میں مجرم ٹھہرائے جانے والے کو اپیل کا حق بھی حاصل نہیں ہوتا ، اسی لئے صرف نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ نواز شریف اور اہل خاندان کی ایسی ہی درخواستوں پر گزشتہ ہفتہ کے دوران سہ رکنی بنچ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ منگل 12 ستمبر کو ان درخواستوں پرغور کے دوران درخواست دہندگان کے وکیلوں نے اعتراض کیا کہ 28 جولائی کا فیصلہ پانچ رکنی بنچ نے کیا تھا اس لئے اس پر نظر ثانی کے لئے بھی پانچ رکنی بنچ ہونا چاہئے۔ سہ رکنی بنچ نے اس اعتراض سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی چیف جسٹس سے پانچ رکنی بنچ بنانے کی سفارش کردی تھی۔ تاہم چیف جسٹس نے اسی سہ پہر بنچ میں دو مزید جج شامل کرتے ہوئے پانچ ججوں کا بنچ مکمل کردیا جس نے بدھ سے ہی مقدمہ کی سماعت شروع کردی ۔ تین روز کی سماعت کے بعد جمعہ کو ان درخواستوں کو مسترد کرنے کا حکم بھی سامنے آگیا۔

پاناما کیس کے حوالے سے ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم جمعہ کو جاری ہونے والے حکم کے بعد ملک کی پارلیمنٹ اور منتخب ارکان کو سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آئن کی شق 184کے تحت سپریم کورٹ کو حاصل اختیارات کس حد تک عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور کیا اس اختیار کو سیاستدانوں کے پر کاٹنے اور جمہوری عمل کو طاقور اداروں کی خواہش کا محتاج کرنے کے لئے تو استعمال نہیں کیا جارہا۔ وقت آگیا ہے کہ ملک کے سیاست دان ہوشمندی سے کام لیں اور ان معاملات کو ذاتی کامیابی یا ہزیمت کا سوال بنانے کی بجائے ملک میں متوازن نظام مروج کرنے کے لئے ضروری اقدامات کریں ۔ آئین میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جن کے ذریعے سیاسی معاملات میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کا قلع قمع ہو سکے۔

اس مقدمہ میں ملک کے قوانین اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے جو سوالات سامنے آئے ہیں، ان پر بھی غور کرنے اور ضروری ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے قوانین میں ضرور کوئی کمی ہوگی کہ سپریم کورٹ کو منتخب وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے لئے خصوصی آئینی اختیار کو استعمال کرنا پڑا ۔ اس کے باوجود عدالت عظمیٰ جب نواز شریف کو بدعنوانی کے الزام میں سزا دینے میں ناکام رہی تو اسی شق کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کو نااہل کرنا ضروری خیال کیا گیا۔ یہ صورت حال ایک طرف سپریم کورٹ کے لئے چشم کشا ہونی چاہئے کہ اگر مناسب شواہد موجود نہیں ہیں اور قانون سپریم کورٹ کو کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں دیتا تو وہ کیوں کر خصوصی آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم کے خلاف اقدام کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ججوں کی یہ لاچاری ہے کہ وہ صمیم قلب سے یہ محسوس کرنے کے باوجود کہ نواز شریف اور ان کے بیٹے بد عنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں، دستیاب قانون اور شواہد کی بنیاد پر انہیں سزا دینے کے اہل نہیں تھے۔ اس لئے مجبوری کے عالم میں خصوصی اختیارات کا استعمال کرنا پڑا۔ قانون کی یہ بے بسی پارلیمنٹ کے لئے بھی سوالیہ نشان ہونی چاہئے۔ ججوں نے سماعت کے دوران اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ کیا قانون صرف غریب کو سزا دینے کے لئے ہی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اگر قانون کسی با اختیار یا دولتمند کی گرفت کرنے میں ناکام رہتا ہے تو کیا ججوں کو غیر معمولی اقدامات کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے یا انہیں امید کرنی چاہئے کی پارلیمنٹ مناسب قانون سازی کرے گی تاکہ ملک میں  متوازن نظام عدل رواج پاسکے۔

یہ دونوں اہم سوالات ہیں۔ ان کی روشنی میں سپریم کورٹ کو بھی سیکھنے اور مستقبل میں اپنا رویہ بہتر کرنے کی ضرورت ہوگی اور پارلیمنٹ کو بھی اس ساری صورت حال پر غور کرتے ہوئے مناسب آئینی ترامیم اور قانون سازی کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ تاکہ نہ تو کوئی قصور وار قانونی سقم کی وجہ سے سزا پانے سے محفوظ رہے اور نہ ہی عدالتیں اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے پر مجبور ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali