ریٹائرڈ فوجی کا خواب


ڈاکٹر اقبال احمد مرحوم اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کہا کرتے تھے، کرنل آ رہے ہیں کرنل آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تقسیم کے وقت بچّے تھے، ایک قافلے کے ساتھ دلی سے پیدل چل کر لاہور پہنچے تھے۔

کچھ عرصہ فوج میں رہے، کشمیر کی پہلی جنگ میں زخمی ہوئے، الجزائر کی انقلابی تحریک میں پیش پیش رہے۔ ویت نام کے خلاف امریکی جارحیت پر امریکہ اور یورپ میں تحریک اٹھی تو اس کے مرکزی کردار تھے۔

پاکستان میں انھیں کم لوگ جانتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں اب ابھی انھیں اپنے وقت کا بڑا سیاسی گرو مانا جاتا ہے۔

90 کی دہائی میں اسلام آباد آ گئے تھے۔ ان کی زندگی کا آخری مشن تھا کہ یہاں خلدونیہ کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔ لیکن دنیا جہان میں مظلوموں کی تحریکوں کی قیادت کرنے والا یہ خوبرو شخص اسلام آباد کے بابوؤں سے ہار گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا وجیہہ دانشور نہیں دیکھا۔

خلدونیہ نہ بن سکی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ڈان میں کالم لکھتے تھے اور نوجوانوں سے ان کے خیالات جاننے کے لیے محفلیں جماتے تھے۔

پتہ نہیں کیوں لیکن اسلام آباد میں جو بھی رہنا شروع کرتا ہے اسے لگتا ہے کہ حکومت آج گئی یا کل گئی۔ ڈاکٹر صاحب بھی مارشل لا کی پیش گوئی کر رہے تھے جو کہ آ کر ہی رہا۔

Gen. A. A K. Niazi talks-to-a-pipe-smoking-Lt-Gen Jacob-after-the-surrender-ceremony

ڈاکٹر مرحوم کی یاد میں چند دن پہلے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور دانشور کا مضمون پڑھتے ہوئے دل کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی روح سے عرض کروں کہ کرنل تو اپنی اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں لیکن جو یہ ریٹائرڈ بریگیڈیئروں اور جرنیلوں کی ایک فوج ظفر موج دانشور بن گئی ہے اس کے بارے میں تو آپ نے خبردار کیا ہی نہیں تھا۔

بریگیڈیئر صاحب کے مضمون کا عنوان تھا ‘کیا جنگ کا وقت آ گیا ہے؟’ پہلے تو ڈرا کہ بھائی یہ کون سی نئی جنگ شروع ہو رہی ہے کیونکہ جنگ کا وقت تو ہماری جوانی کے ساتھ ہی آ گیا تھا۔ کبھی ہندوستان تو کبھی افغانستان، کبھی مشرقی پاکستان تو کبھی بلوچستان، کبھی فاٹا اور نہیں تو کورنگی اور لانڈھی میں بھی چھوٹے چھوٹے محاذ لگ چکے ہیں۔

مضمون کے دوسرے ہی پیرے میں ایک ایسا لفظ آ گیا کہ تین ڈکشنریاں کھولنی پڑیں۔ دانشور جب جناتی زبان استعمال کرتے ہیں تو یا تو وہ کوئی بہت گہری بات کر رہے ہوتے ہیں یا صاف جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔

بریگیڈیئر صاحب کو چین کی نیت پر کچھ شک تھا جس کے بعد انھوں نے نتیجہ نکالا کہ ایک حتمی جنگ کا وقت آن پہنچا ہے، اب اس جنگ میں ہمارا لیڈر کون ہوگا؟ اس سے پہلے کہ آپ کے ذہن میں کوئی شک آئے بریگیڈیئر صاحب نے واضح کر دیا کہ وہ مارشل لا کے سخت خلاف ہیں (سوائے ایوب خان کے مارشل لا کے جو کہ ایک شاندار مارشل لا تھا)۔

بریگیڈیئر صاحب جنرل ضیا کے مارشل لا کے اتنے خلاف تھے کہ جب انھوں نے ریفرینڈم کروایا تو وہ جو اس وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے، اپنے افسران کو خط لکھا کہ اگر انھیں ریفرینڈم میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا تو وہ ضیا کے خلاف ووٹ دیں گے۔

اس سے بڑا جمہوریت پسند کون ہوگا؟ لیکن انتہائی احترام کے ساتھ سر بریگیڈیئر صاحب کو یہ کیسے بتایا جائے کہ اگر جنرل ضیا کو ڈکٹیٹر بننے کے لیے لیفٹیننٹ کرنلوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی تو شاید وہ ڈی ایچ اے کا کونسلر بھی نہ بن سکتا۔ ڈکٹیٹر کو ووٹوں کی نہیں بوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

مشرف سے وہ اس لیے مایوس ہوئے کہ بقول ان کے اس نے سینیئر جرنیلوں کو کرپٹ کر دیا۔ جرنیلوں کو کرپٹ کوئی دانشور فوجی ہی کہہ سکتا ہے، یہ کسی سویلین دانشور کے کرنے کا کام نہیں ہے۔

مارشل لا سے مایوسی کے بعد سر بریگیڈیئر نے قوم کو ایسا خواب دیا ہے کہ میرے جیسے سویلین کا بھی دل کیا کہ اٹھ کر سلیوٹ مار دوں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جو علامہ اقبال کے خواب کے بعد پاکستان کے فوجی اور نیم فوجی دانشوروں میں سب سے مقبول ہے۔

اس خواب میں یہ دکھایا جاتا ہے ہمیں ایک ایسا مسیحا چاہیے جو اس جعلی جمہوریت کے پرخچے اڑا دے۔ ملک میں چونکہ ادارہ ایک ہی ہے تو اس مسیحا کو آنا فوج سے ہی ہوگا لیکن چونکہ فوجی حکمران (سوائے جنرل ایوب کے) کچھ عرصے بعد ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اس لیے ان کی مدت مقرر کی جائے یعنی ہر پانچ سال بعد ایک نیا مسیحا مقرر کیا جائے۔ مسیحاؤں کی ایک فیکٹری ہو جہاں سے ہر پانچ سال بعد ایک زورآور ڈکٹیٹر برآمد کیا جائے۔

سر بریگیڈیئر کو ایک اور سلیوٹ کر کے یہ پوچھا جائے کہ سر آپ اتنی شستہ انگریزی لکھتے ہیں تو تھوڑا بہت پڑھتے بھی ہوں گے۔ جو تخت پر اپنے زور سے آ کر بیٹھے گا وہ تخت کیوں چھوڑے گا؟

کیا اس لیے کہ کسی انگریزی روزنامے میں جناتی زبان میں دانشوری کر سکے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).