شیر خان کی ڈرائیونگ اور فرینڈلی اپوزیشن


[contact-form][contact-field label=”Name” type=”name” required=”true” /][contact-field label=”Email” type=”email” required=”true” /][contact-field label=”Website” type=”url” /][contact-field label=”Message” type=”textarea” /][/contact-form]

شیر خان سے تعلق کو سولہ برس ہو گئے۔ ان سے جھگڑا بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ شیر خان سوات سے آئے ہیں۔ لباس صاف ستھرا ، طبیعت دوست نواز، اردو ایسی صاف کہ پختونوں میں افراسیاب خٹک کو چھوڑ کر ایسی شستہ زبان کون بولے گا۔ تذکیر و تانیث کی غلطی کا امکان ہی نہیں۔ لین دین کے کھرے اور نہایت قابل اعتماد انسان۔ دل میں گرم جوشی۔ گڑبڑ یہ ہے کہ گاہے گاہے خوئے پختون جاگ اٹھتی ہے۔ اس کی کچھ نشانیاں ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے اور میں سولہ برس سے دیکھ رہا ہوں کہ سحری کھائے بغیر روزہ رکھتے ہیں۔ دستر خوان پر لحمیات دیکھ کر عربی بدو بن جاتے ہیں۔ اختلاف کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ حضرت دنیا کے ہر مسئلے کو کسی پنجابی فلم کے منظر یا مکالمے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادھر خاکسار کا یہ حال ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اپنی نسل کا شاید واحد شخص ہے جس نے زندگی بھر پاکستان چھوڑ ہندوستان کی بھی کوئی فلم نہیں دیکھی۔ یہ پارسائی کا دعویٰ نہیں۔ ابتدائی عمر میں فلموں تک رسائی نہیں تھی، جب رسائی ہوئی تو مزاج ایسا آشفتہ ہو چکا تھا کہ گھریلو اصلاحی ناول اور اردو ہندی فلم کے بارے میں رائے ایسی ہی ہو گئی جیسی مولانا ابوالکلام آزاد دودھ ملی چائے پینے والوں کے بارے میں رکھتے تھے۔ گویا شیر خان صاحب سے اختلاف کے چند در چند پہلو نکلتے ہیں۔ تاہم آئینی اختلاف کا پہلو سڑک پر نکلتا ہے۔ وہ محترم عطاالحق قاسمی کے اس ڈرائیور کے مرید بھائی ہیں جو اصولی مو ¿قف اور منطق کی روشنی میں گاڑی چلانا چاہتا ہے۔ ادھر میرا دل بید مجنوں کی طرح لرزتا ہے۔ اگلے روز ماڈل ٹاﺅن کے انڈر پاس میں داخل ہوتے ہوئے شیر خان نے ایک گاڑی والے کے ساتھ جگل بندی شروع کر دی۔ بارے خیریت رہی۔ کھلی سڑک پر آنے کے بعد میں نے پوچھا یہ آپ کیا کر رہے تھے۔ اطمینان سے بولے۔ میں ٹھیک تھا۔ وہ غلط طریقے سے میری لین میں آنا چاہتا تھا۔ خوف کے مارے سردی کی ایک لہر میرے سینے سے گزر گئی۔ کچھ رک کر میں نے شیر خان صاحب کو وہ دھمکی دی جو مولانا محمد علی جوہر نے وائسرائے ہند کو دی تھی۔ میں نے کہا شیر خان میں تمہاری ڈرائیونگ پر ایک کالم لکھوں گا۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے شان استغنا سے بولے ’آپ خدا کا شکر ادا کریں کہ میں کالم نہیں لکھتا۔ اگر میں کالم لکھتا تو آپ کیا لکھتے ہیں جو میں آپ کے بارے میں لکھتا‘۔ میں نے مدد کے لیے تنویر کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا بات تو ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا شیر خان آپ کیا لکھتے ؟ کہنے لگے ”کمال ہے! اگر دوسرا صحیح ہے تو میں غلط اور اگر دوسرا غلط جا رہا ہے تو بھی میری غلطی نکالی جاتی ہے۔“ میں نے کہا حضرت آپ جیتے۔ آپ سچے ہیں۔

بھائی یہ صرف سڑک پر گاڑی چلانے کا معاملہ نہیں۔ ہماری سیاست میں بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور اگر ہم اس کا بھلا سوچتے ہیں تو ہمیں اسی طرح چلنا پڑے گا کہ خود آئین اور قانون سے انحراف نہ کریں اور اگر دوسرا غلطی کرے تو بھی یہ سوچ لیں کہ تصادم کی صورت میں چھوٹی گاڑی کے پرخچے اڑ جاتے ہیں لیکن نقصان بڑی گاڑی کا بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں گاڑیاں اگر اپنی ہی ہیں اور سڑک بھی اپنی ہے اور ان میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اپنے ہی ہیںتو کوشش کرنی چاہیے کہ ٹکر نہ ہو۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ سڑک پر اس احساس کے ساتھ گاڑی چلانے کا تقاضا کیا جائے تو شیر خان کی حمیت گوارا نہیں کرتی اور اگر سیاست میں یہ رویہ اختیار کیا جائے تو فرینڈلی اپوزیشن کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ جدید جمہوریت کے منبع برطانیہ میں حزب اختلاف کو ’بادشاہ کی وفادار حزب اختلاف‘ کہا جاتا ہے۔ حکومت بھی ہز میجسٹی کی وفادار ہے اور حزب اختلاف کو بھی میگنا کارٹا کی پاسداری سے انکار نہیں۔ ہم جمہوریہ ہیں۔ ہمارے بندوبست میں بادشاہت کی جگہ صدر مملکت موجود ہیں۔ صدر مملکت آئین کی علامت ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن نہ ہمیں یہ حق ہے کہ ہم آئین کو چیلنج کریں اور نہ ہمیں یہ حق ہے کہ ہم کسی سیاسی مخالف کی آئین سے وابستگی پر انگلی اٹھائیں۔ ہم نے عجیب ڈھنگ اختیار کیے ہیں۔ ہم آئین کو ’نظام‘ کا ایک ڈھیلا ڈھالا نام دیتے ہیں اور پھر جوش خطابت میں نظام سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ جمہوریت میں بغاوت نہیں ہوتی ۔ بغاوت کو ریاست کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے اس کا بھی علاج ڈھونڈا ہے۔ آئینی بندوبست سے وابستگی کے اقرار کو ہم نے ’مک مکا ‘کا نام دیا ہے۔ ’مک مکا‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی گٹھ جوڑ کو کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح اسی طرح سے ناقابل قبول ہے جیسے محترم چوہدری شجاعت حسین نے چند برس پہلے ’مٹی پاﺅ‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔ چوہدری صاحب جنرل پرویز مشرف کے نفس ناطقہ تھے۔ چوہدری شجاعت کو پنجاب کی ثقافت میں تحمل، بردباری اور معاملہ فہمی جیسی خصوصیات کی تجسیم سمجھئے۔ 2004ءکا برس تھا۔ سترہویں آئینی ترمیم منظور ہو چکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے آمریت کی روایت کے عین مطابق وعدہ توڑ دیا اور وردی اتارنے سے انکار کر دیا۔ اس پر کھٹ پٹ شروع ہو گئی۔ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ حکومت کے وفد کی سربراہی چوہدری شجاعت کے پاس تھی۔ حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف وردی اتاریں۔ وردی اتارنے کا مطلب یہ کہ فوج کی سربراہی چھوڑیں۔ فوج کے شیر پر بیٹھ کر ہی پرویز مشرف ایوان صدر میں ہوا خوری کرتے تھے۔ پرویز مشرف کو معلوم تھا کہ اگر وہ وردی اتار دیتے ہیں تو اقتدار کا سرچشمہ فوج کے نئے سربراہ کو منتقل ہو جائے گا۔سیاسی قوتوں نے آمریت سے نمٹنے کا یہ حربہ ضیاءآمریت میں دریافت کیا تھا۔ محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو ضیاالحق سے وردی اتارنے کا مطالبہ شروع ہو گیا۔ ضیاالحق ایک کایاں کردار تھے۔ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وردی اتار دی تو پھر کہاں ’یہ میرے خواب کا مکاں‘۔ پرویز مشرف کے پارلیمنٹ بحال کرنے کے بعد یہ قضیہ پھر سے شروع ہو گیا۔ ان مذاکرات میں چوہدری شجاعت حسین کا یک نکاتی فارمولا یہ تھا کہ ’وردی پہ مٹی پاﺅ‘۔ حزب اختلاف کے مذاکراتی وفد میں حافظ حسین احمد بھی تھے۔ باغ و بہار شخصیت ہیں۔ ایک فقرے میں مخالف کی بیڑی ڈبو دیتے ہیں۔ چوہدری شجاعت نے بار بار کہا ’وردی پہ مٹی پاﺅ‘۔ حافظ حسین احمد چمک اٹھے۔ فرمایا ۔مٹی ڈالنے سے پہلے وردی سے اپنا بندہ تے کڈھ لو (اپنا آدمی تو نکال لو)۔ مک مکا کی اصطلاح کا مطلب ہے ’قصہ ختم‘ ۔ جمہوریت میں قصہ ختم نہیں ہوتا۔ جمہوریت مسلسل مکالمے اور مسلسل عمل کانام ہے۔ مک مکا کی اصطلاح نیک شگون نہیں۔

جمہوریت کچھ قوموں کے لیے ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت ہماری محبوبہ ہے۔ ہم نے جمہوریت کے لیے چار آمریتوں سے یدھ لڑے ہیں۔ پہاڑوں اور دریاﺅں میں سوئمبر رچائے ہیں، دنگل کیے ہیں، جیلیں کاٹی ہیں، پھانسیوں پر جھولے ہیں۔ ہم جمہوریت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں۔ پنڈت نہرو نے ہم پر پھبتی کہی تھی کہ میں نے اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کیں جتنی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ پنڈت نہرو دھوتیاں تبدیل کرتے تھے۔ بے ضرر سا شغل ہے۔ پنڈت نہرو ایک آمریت تبدیل کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ دو نسلوں کے بال کیسے سفید ہوتے ہیں۔ ہم نے عقوبت خانوں او رغربت کی گھاٹیوں سے گزر کر یہ سبق سیکھا ہے کہ جمہوریت میں بنیادی آئینی بندوبست پر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے دشمنی نہیں۔ حکومت کی مخالفت میں ریاست سے بغاوت نہیں کی جاتی۔ آئینی حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے غیر آئینی مداخلت کو دعوت نہیں دی جاتی۔ سڑک پر صحیح گاڑی چلاتے ہوئے یہ خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ دوسری گاڑی سے ٹکر کو دعوت نہ دی جائے۔ اگر ہم نے غلطی کی تو ہم سے غلطی ہوئی۔ اگر دوسرے نے غلطی کی تو اس کی غلطی کی نشان دہی کرتے ہوئے بھی گریبان پکڑنے اور پھانسی دینے کی بات کرناجمہوریت نہیں۔ آج جمہوریت کا عالمی دن ہے۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ:  16 ستمبر، 2014)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).