اٹھو، لاہوریو، اٹھو۔ گھر سے نکلو


وہ دن دور نہیں جب عمران خان ہر کسی سے پوچھتے پھر رہے ہوں گے کہ مجھے کیوں نکالا؟ کیوں نکالا مجھے؟ اور کوئی جواب دینے والا نہیں ہوگا۔ اس بات میں اب کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ عمران خان اسی گرداب میں ڈوب رہے ہیں جس میں ایک زمانے میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو غرق رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات کی سیاست ہوتی تھی۔ کرپشن کے الزامات کا مزید کرپشن کے الزامات سے مقابلہ ہوتا تھا۔ گھر کی خواتین کی اسمبلیوں میں توہین کی جاتی تھی۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کو سیاست کہا جاتا تھا۔ لانگ مارچ سے حکومتیں زمیں بوس کرنے کی سازشیں ہوتی تھیں۔ اسمبلیوں میں تماشہ لگتا تھا۔ ایک دوسرے کو بدیانت ثابت کرنے کے لئے پورا زو ر لگایا جاتا تھا۔

اسی کشمکش میں کبھی مخالف زیر دام آیا کبھی خو د دم ہار گئے کی کیفیت کئی برس رہی۔ دو، دو دفعہ ایوان اقتدار سے دھتکارے جانے کے بعد فریقین کو ادراک ہوا کہ یہ جو ہم ایک دوسرے کے سربازار کپڑے پھاڑ رہے ہیں اس تماشے کا فائدہ تو کسی اور کو ہو رہا ہے۔ اس تذلیل سے مفاد تو کسی اور کا پورا ہو رہا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ سے مقصد تو کسی اور کا حاصل ہو رہا ہے۔ برسوں کی ہزیمت کے بعد میثاق جمہوریت وجود میں آیا۔ فریقین نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہم جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔ سیاستدانوں کو رسوا نہیں کریں گے۔ ایک دوسرے پر بے بنیاد مقدمات نہیں کھڑے کریں گے۔ ووٹ کا احترام کریں گے۔ مینڈیٹ کو مقدم جانیں گے۔ الزام تراشی اور لانگ مارچ کی سیاست ترک کریں گے۔ لیکن میثاق جمہوریت ہونے سے بہت پہلے چڑیاں کھیت چگ گئی تھیں۔ ایمر جنسی نما مارشل لا نافذ ہو چکا تھا۔ پی ٹی وی فتح ہو چکا تھا۔ مشرف حکومت قائم ہو چکی تھی۔

جو کام اس زمانے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو سونپا گیا تھا اسی کی ذمہ داری اس دور میں عمران خان کے سپرد کی گئی۔ کہانی کے اسکرپٹ میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہے۔ وہی دھاندلی کے طعنے۔ وہی کرپشن کے الزامات، وہی جھوٹے مقدمات، وہی متنازع فیصلے، وہی دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیاست، وہی گالم گلوچ کا دور، وہی خواتین کی بے حرمتی کا چرچے، وہی سیاست دانوں کی بے عزتی کا سلسلہ اور وہی جمہوریت کی بے توقیری کا عالم۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس دفعہ یہ کام عمران خان سے لیاگیا۔ خان صاحب کو اس ہنگامے میں یہ بھی ادراک نہیں رہا کہ وہ تنہا رہ چکے ہیں۔ اتنا بھی احساس نہیں رہا کہ اب عمران خان سے کام لیا جا چکا ہے۔ اب مطلب پورا ہو چکا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ اب عمران خان ایک استعمال شدہ ٹشو پیپر بن چکے ہیں جس کا مستقبل صرف تاریخ کا کوڑے دان ہے۔

یہی وہ خان صاحب تھے جنہوں نے2011 میں لاہور میں ایک ایسا تاریخ ساز جلسہ کیا تھا کہ ملکی سیاست کا رخ بدل دیا تھا۔ اس جلسے کی کامیابی میں کون، کون سے عوامل تھے اس پر بحث پھر کبھی سہی۔ لیکن لوگوں نے عمران خان کو سر پر تاج کی طرح بٹھایا تھا۔ تبدیلی کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ نئے پاکستان کے خواب دیکھے تھے۔ خان صاحب کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ ا س یادگار جلسے میں سارا لاہور امڈ آیا تھا۔ اب وہی خان صاحب جب NA 120 کی انتخابی ریلی کے لئے جلسہ کرنے گئے تو اس جلسے میں کل ملا کر ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے۔ جن میں سے لاہور کے باسی چند ایک ہی تھے۔ یاسمین راشد کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے عمران خان نے ایک لمحے کو سوچا تو ہو گاکیا ان کا استعمال ہو چکا ہے؟ کیا انقلاب کے نام پر ان سے دھوکا ہو چکا ہے؟ کیا وہ اب اپنی حیثیت کھو چکے ہیں؟ کیا ان سے والہانہ محبت اب نفرت میں بدل گئی ہے؟ عمران خان کو یقیناََ صدمہ پہنچا ہوگا اور تشویش بھی ہوئی ہو گی۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

عمران خان ایک جمہوری وزیراعظم کو نا اہل قرار دینے کی سازش میں شریک جرم ہو چکے ہیں۔ اب ان کا کام ختم ہو چکا ہے۔ اب ان کے جلسے جلوسوں کی کامیابی سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ اب ان کے فرمودات سے کسی کو کوئی مطلب نہیں۔ اب ان کے خیالات لوگوں کو بور کرنے لگے ہیں۔ نئے پاکستان کا نعرہ بوسیدہ ہو چکا ہے۔ انقلاب لانے کی آوازیں تھک چکی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں مسلسل کرپشن، بیڈ گورننس، ڈینگی اور عائشہ گلالئی کی وجہ سے عمران خان کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ اس علاقے میں عمران خان کی پسند یدگی اب صفر ہو چکی ہے۔ پنجاب کے لوگوں کاعمران خان نے اپنے جنون میں اتنا مذاق اڑایا ہے، اتنی تضحیک کی ہے کہ اب اس خطے میں ان کا نام لیوا کوئی نہیں رہا۔ کراچی کے ضمنی انتخابات نے سندھ میںتحریک انصاف کی مقبولیت کی قلعی کھول دی ہے۔ بلوچستان کی سیاست کا تحریک انصاف کو کوئی ادراک ہے نہ اس میں کوئی دلچسپی دکھائی گئی ہے۔ نا اہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ فارن فنڈنگ کے کیس کی فیصلہ کن تاریخ نزدیک آ رہی ہے۔ مخصوص قوتوں کو صرف ان شخصیات میں دلچسپی ہوتی ہے جن کی عوامی مقبولیت ہو، متروک اور مستردکئے گئے لوگوں کے لئے ان کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ عمران خان اب اپنی بنیاد تلاش کر رہے ہیں مگر بہت دیر ہو گئی ہے۔ بہت سا پانی پلوں تلے گزر چکا ہے۔ جمہوریت کے خلاف جرم میں وہ شریک ہو چکے ہیں۔ اب تاریخ کا لکھا مٹایا نہیں جا سکتا۔ اب وقت کے ظالم پہیے کی رفتار کو کوئی نہیں روک سکتا۔

جلد ہی اب عمران خان پر وہ وقت آنے والا ہے جب وفادار ساتھ چھوڑ دیں گے اور اس لمحے میں عمران خان پر یہ منکشف ہو گا کہ وہ عمران خان کے کبھی بھی وفادار نہیں تھے۔ وہ صرف ان کے گرد کچھ مقاصد کی تکمیل کے لئے جمع تھے۔ ان کی وفاداریاں کہیں اور تھیں اور وہ کسی کے کہنے پر خان کے دست راست بنے تھے۔ وہ وقت دور نہیں جب عمران خان خالی ہاتھ ہر کسی سے پوچھ رہے ہوں گے کہ مجھے کیوں نکالا؟ کیوں نکالا مجھے؟ اور کوئی جواب دینے والا نہیں ہوگا۔

NA 120 کے متوقع نتائج کے بارے میں باتکیے بغیر آج کل کوئی کالم مکمل نہیں ہوتا۔ شکست اور فتح کے اپنے اپنے اندازے ہیں۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سیٹ جیتنا مسلم لیگ ن کے لئے مشکل نہیںہو گا۔ برتری کتنی ہوتی ہے اس کے بھی قیافے مختلف ہیں۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی اس ملک کے عوام کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملا ہے تو انہوں نے ہمیشہ ایسی پارٹی سے اجتناب کیا ہے جس کے تانے بانے خفیہ ہاتھوں سے ملتے ہیں۔ جس پارٹی یا شخصیت میں جمہوریت کی نفی کا شائبہ بھی ملتا ہے وہ انتخابات میں نامراد ہوتا ہے۔ اس ملک کے عوام کے پاس اس سارے سسٹم میں اظہار کا صرف ایک دن ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ ان کی سمجھ اور عقل سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس حلقے کے انتخابات میں بھی کلیدی اہمیت لوگوں کی جمہوریت میں دلچسپی کی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ٹرن آوٹ کم ہوگا۔ مجھے توقع ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالیں گے۔ اس لئے کہ میں اس ملک کے جمہوریت پسند عوام کو جانتا ہوں، میں پنجاب کو جانتا ہوں، میں لاہور کو جانتا ہوں۔ کل ان کے احتجاج کے اظہار کا دن ہے۔ جمہوریت کے انقلاب کا دن ہے۔ پنجاب کا دن ہے۔ لاہوریوں کا دن ہے۔ کل توقع ہے کہ سارا لاہور ووٹنگ کے وقت ایک دوسرے سے یک زبان ہو کر کہے گا۔ اٹھو، لاہوریو، گھر سے نکلو۔ ووٹ ڈالو اور یہ بتا دو کہ تم جمہوریت کے متوالے ہو یا آمریت کے پرکالے ہو۔ تم نواز شریف کو کرپٹ مانتے ہو یا نا اہلی کے فیصلے کو غلط گردانتے ہو۔ تم اپنے شہر کی لاج رکھتے ہو یا خفیہ ہاتھوں میں کھیلتے ہو۔ تم روشن مستقبل کودیکھنا چاہتے ہو یا تاریکی کو مقدر جانتے ہو۔ جو چاہتے ہو وہ اپنے ووٹ سے کہہ ڈالو۔ اٹھو، لاہوریو، اٹھو، ، گھر سے نکلو۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar