عورت آدھی نہیں ہے


یہ بات تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں نظر آنے والی سائنس و ٹیکنالوجی ، صنعت، طب ، عمرانیات اور فنون لطیفہ کے شعبوں کی ترقی اصل میں زمانہ قدیم میں شروع ہونیوالی زرعی سرگرمیوں کی مرہون منت ہے ۔ اس حقیقت سے شاید بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ اس زمین پر زراعت کی بنیادیں مادرانہ جذبہ کے تحت عورت ذات نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھیں۔اس پس منظر میں یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ نظر آنے والی انسانی ترقی کا بنیادی سامان صنف نازک قرار دی گئی عورت کا ہی فراہم کردہ ہے۔قدیم ترین دور میں انسانی زندگی کا تمام تر دارومدار جنگل سے حاصل ہونیوالی خوراک پر تھا ۔ انسانوں کے لیے جنگلوں سے خوراک کے حصول کے دوران خود خونخوار جانورں کی خوراک بننے کے بھی یکساں مواقع تھے۔ خوراک کی تگ و دو میں چھوٹے انسانی بچے آسانی سے جنگلی جانوروں کا شکار بن جایا کرتے تھے۔ ان دنوں انسانی خوراک کا زیادہ تر انحصار جنگلی پھلوں پر تھا۔ اپنی مادرانہ جبلت کی وجہ سے اس دور کی مائیں اپنے بچوں کی جان خطرہ میں ڈال کر جنگل سے خوراک حاصل کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ سب سے پہلے اس دور کی ماﺅں پر ہی یہ راز افشا ہوا کہ کس طرح بیج پھوٹنے کے بعد پودا اور درخت بننے کا عمل شروع ہوتا ہے اور کس طرح سے پودوں اور درختوں پر کلیاں کھل کے پہلے پھول اور پھر پھل بنتی ہیں اور بعد میں یہی پھل انسانی خوراک کے کام آتے ہیں۔ اپنے اس مشاہدے کو ماﺅں نے اپنی محفوظ پناہ گاہوں کے قریب تجربے کے طور پر آزمایا جس کے بعد دنیا پہلی مرتبہ کاشتکاری کے عمل سے روشناس ہوئی۔ اس کامیاب تجربے کے بعد ہی مائیں نسبتاً محفوظ مقامات پر اپنے بچوں کے لیے خوراک حاصل کرنے کے قابل ہوئیں۔ زمانہ قدیم کے مرد کو کیونکہ بچوں سے کچھ زیادہ سروکار نہیں تھا اس لیے ابتدا میں وہ عورتوں کے زراعت سے متعلقہ امور و افعال سے لاتعلق رہا ۔ جب مرد کو نامساعد حالات کی وجہ سے جنگل سے خوراک کے حصول میں مشکل پیش آئی تو پھروہ بھی زراعت کی طرف راغب ہونا شروع ہوا۔ زراعت کی افادیت کو دیکھتے ہوئے مرد نے طاقت کے زور پر زرعی پیداوار پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کردیا ۔ مرد کے اس عمل کی وجہ سے زرعی امور میں عورت کا کردار محدود ہوتا چلا گیا۔ یوں طاقت کے زور پر مرد کی حاکمیت اور عورت کی محکومی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔

جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کے تحت اس زمین پر عورت کو اولین غلام بنایا گیا۔ یوں عورت انسان کی حیثیت سے کم تر اور مال و متاع کے طور پر زیادہ مستحکم ہونے لگی۔ اس ڈر سے کہ کوئی دوسرا طاقتور مرد کہیں غلام عورت کو چھین نہ لے اسے جانوروں کی طرح قید کرکے اورزنجیریں پہنا کر کام لیا جانے لگا۔ عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے جن بچوں کی شناخت پہلے ماں نے نام سے ہوتی تھی ان میں سے خصوصاً بیٹوں کو اپنی وراثت منتقل کرنے کے لیے مرد باپ نے اپنی ذات کی مہر کو ان کی پہچان بنا دیا۔باپ کے نام کی مہر بچوں پر ثبت ہونے کے بعد مرد نے بیٹے کو اپنی طاقت اور بیٹی کو غیرت کا نام دے دیا۔ غیرت کے نام پر ایک طرف تو عورت کے استحصال کے ساتھ اس کا ناحق خون بہانے کا سلسلہ شروع ہو ا اور دوسری طرف شکست کی صورت میں اپنی جان اور مال و متاع بچانے کے بدلے مرد نے غیرت قراردی گئی عورت کا سوداکرنا بھی شروع کر دیا۔ یہ روایت کسی نہ کسی صورت میں ہر طبقے میں موجود پائی گئی۔ تعلیم کا حصول عورت کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔ پرورش کے دوران بیٹے کو لباس اور خوراک ہی نہیں بلکہ زندگی کی ہر ضرورت اور سہولت بیٹی کی نسبت بہتر معیار اور مقدار میں فراہم کی گئی۔ زمانہ قدیم میں عورت کو کم تر درجے کا انسان بنائے رکھنے کی جو روایت قائم ہوئی تھی وہ قبائلی دور اور پھر ریاستوں کے قیام کے آغاز سے آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود نظر آتی ہے۔

18 صدی میں انسانی شعور کے ارتقا کے نتیجے میں جب غلام داری نظام کے خلاف سوچ پیدا ہوئی تو عورت کی کم تر کردی گئی انسانی حیثیت بھی زیر بحث آئی۔ عورت کی کم تر انسانی حیثیت زیر بحث آنے کے بعد یہ سوالات اٹھے کہ اسے مر د کی طرح حصول علم کا حق کیوں حاصل نہیں ہے؟شادی کے معاہدے میں عورت برابر کی شراکت دار کیوں نہیں ہے؟ جب بچے عورت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیںتو انہیں پیدا کرنے یانہ کرنے میں اس کی اپنی رائے کی کوئی حیثیت کیوں نہیں ہے؟ زندگی گذارنے کے لیے تمام تر مذہبی، سماجی ، اخلاقی اور سیاسی پابندیاں امتیازی طور پر صرف عورت پر ہی کیوں عاید ہیں؟ان سوالات پر بحث کے بعد یہ مطالبات سامنے آئے کہ جو قوانین عورتوں پر لاگو کیے جاتے ہیں انہیں بنانے یا ان میں ترمیم کا حق عورتوں کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔ لہذا نہ صرف عورتوں کو ووٹ کا بلکہ قانون ساز اداروں میں نمائندگی کا حق بھی دیا جائے۔ عورت کو اپنی آمدن کے تصرف کا مکمل اور غیر مشروط حق حاصل ہونا چاہیے۔ عورت کو کسی بھی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے اور پیشہ اختیار کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ تمام تر اخلاقی حدود وقیود کا اطلاق عورتوں کی طرح مردوں پر بھی مساوی ہونا چاہیے۔ اس طرح کے مطالبات کے حق میں نہ صرف عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں بلکہ کئی دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بھی آوازیں بلند ہوئیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں تو عورتوں کے حقوق تسلیم کرنے اور انہیں قانونی جواز فراہم کرنے کا عمل بہت پہلے شروع ہو گیا مگر پاکستان جیسے ملکوں کی عورتیں ان سے محروم رہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ نے اپنے رکن ممالک کو مختلف کنونشنوں کے ذریعے اس بات کا پابند کیا کہ وہ وضع کردہ چارٹر کے مطابق داخلی طور پر ایسی قانون سازی کریں جو عورتوں کے تسلیم شدہ حقوق کی ضامن ہو۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور ان پر تشدد کے خاتمے کے لیے حالیہ برسوں میں جو قانون سازی ہوئی ہے اور جس پر بعض مذہبی حلقے سخت تذبذب کا شکار نظر آرہے ہیں وہ اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے مطابق ہی ہے جس کو پاکستان ریاست کے طور پر عرصہ پہلے تسلیم کر چکا ہے۔یہ قانون سازی نہ تو آئین پاکستان سے تجاوز ہے اور نہ ہی کسی طے شدہ عمرانی معاہدے سے انحراف ۔ اس طرح کی قانون سازی تو اصل میں ان انسانوں کو ان کے زمانہ قدیم سے چھین لیے گئے پیدائشی حقوق لوٹانے کی سعی ہے جن کو طاقت کے زور پر نصف اور کم تر درجے کا انسان بنا دیا گیا تھا۔ یاد رکھا جائے کہ کسی بھی قسم کا واویلاصدیوں پہلے چھین لیے گئے انسانی حقوق کو لوٹانے کے ارتقائی عمل کو متاثر نہیں کر سکے گا۔ واضح رہے کہ عورتوں کو حقوق دینے کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا کیونکہ عورتوں کے حقوق سے متعلق وہ فہرست کافی طویل ہے جس پر قانون سازی ہونا ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments