حاشر ارشاد اور وسی بابا ۔۔۔۔ یک نہ شد


عجیب قران السعدین ہے۔ یعنی 16 ستمبر کو سائنس کے عالم، فلسفے کے شناور اور تاریخ کے پارکھ حاشر ابن ارشاد کتم عدم سے دنیائے رنگ و بو میں چلے آئے۔ دلچسپ امر یہ ہے ان کے ہم عصر، مرشد دوراں، حبیب صادق وسی بابا نے بھی تہمت وجود کے لئے اسی دن کا انتخاب کیا۔ سال میں 365 دن رکھے تھے۔ ان دونوں احباب نے ایک ہی دن دنیا کو رونق بخشی۔ مقصد یہ کہ کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے۔

ان دو ہستیوں میں تاریخ پیدائش کے علاوہ کیا مشترک ہے۔ ایک زاویے سے دیکھیے تو کچھ مشترک نہیں۔ ایک بھائی مقفیٰ اور مرتب طبیعت رکھتے ہیں۔ مجال ہے جو حاشر ارشاد کو پڑھتے ہوئے مسکراہٹ کا کوئی امکان کہیں پیدا ہو۔ طنز کا نشتر البتہ اکثر آزماتے ہیں۔ اہل دل اس مقام سے گزرتے ہیں تو ایسا منہ بنائے ہوئے گویا کسی نے کلہ چیر کے لیموں نچوڑ دیا ہے۔ حاشر ارشاد اپنی افتاد میں بنے بنائے مائیکل اینجلو ہیں۔ ایک بڑا ہتھوڑا حقائق اور شواہد کا تھام رکھا ہے۔ اور اس کی پے در پے ضربوں سے دلیل کے تیشے کو اس طرح سنگین چٹانوں کے دل میں اتارتے چلے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ حاشر ارشاد نے ہم عصر اردو نثر میں جلال کا رنگ پیدا کیا ہے۔ پڑھنے والے کی مجال نہیں کہ دم مار سکے۔ سانس روک کے پڑھنا پڑتا ہے۔ نامعلوم کس قاموس المعارف سے استفادہ کیا ہے کہ حاشر ارشاد کا قلم “زکنار ما بکنار ما” طوفان اٹھاتا ہوا نکل جاتا ہے۔ اب آپ میں ہمت ہے تو سامنے آئیے۔ اور واللہ کس میں ایسا حوصلہ کہ سر پر توا باندھ کے حاشر ارشاد کے سامنے پڑے۔ فالحمدللہ۔۔۔

 فارسی کے ایک استاد نے اپنے اور قیس میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھا

ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق

او بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم

(عشق کا آموختہ پڑھنے میں تو مجنوں میاں میرے ہم سبق تھے۔ قسمت کے کھیل ہیں۔ مجنوں صاحب صحراؤں میں نکل گئے اور گوہر مقصود پا لیا۔ میں بدقسمتی سے ابھی تک شہر کے گلی کوچوں میں رسوا ہو رہا ہوں۔)

ہمارے استاد سجاد باقر رضوی نے اسی مضمون کو یوں باندھا

سن اے خرد مند، ہم جو دو بھائی تھے۔۔۔۔۔

یہاں دوسرے بھائی سے مراد آصف میاں المعروف وسی بابا ہیں۔

وسی بابا نے پنجاب کے ندی نالوں کا پانی پیا ہے۔ راولپنڈی کی پوٹھوہاری راتوں سے فیض اٹھایا ہے۔ قصہ خوانی بازار میں آوارگی کر رکھی ہے۔۔۔ رنگ نشاط دیکھا، بار الم اٹھایا، آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے رخی کے۔۔۔ زندگی کی تلخی چکھی ہے، لیل و نہار کی گردش دیکھی ہے، کامیاب ٹھہرے ہیں، ناکامی سے پنجہ لڑایا ہے، غربت آزمائی ہے، خوشحالی کا امتحان دے رکھا ہے، جوانی نبھائی ہے، تدبر کے میدان میں جواہر تراشے ہیں۔۔۔ اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے۔۔۔۔

ایسی ایسی خاک اڑا کے وسی بابا نے خود ہنسنا سیکھا ہے، خود پر ہنسنا سیکھا ہے، روتوں کو ہنسانا سیکھا ہے۔ پشتو کی جنگجو لٹک میں پنجابی لہجے کی شوخی بھر دی ہے۔ وسی بابا سیاست پر لکھیں یا گلی کوچوں کی زندہ دلی بیان کریں، ان کا ہر جملہ کھلکھلاتا ہے۔ آدھی بات کہہ کے دونا مزہ دینا وسی بابا کا خاص ہنر ہے۔ گائے بھینس کے جملہ اعضائے خفقانی سے آگاہ ہیں۔ بھیڑ بکری کی مناجات میں بھی اونٹنی کا دودھ ڈال دیتے ہیں۔ عرب قومیت پر فدا ہیں، افغانی مشران کی فراست جانتے ہیں، یورپی خواتین کے ناز نخرے، بھید بھاؤ بیان کرنا ان پر ختم ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ وسی بابا انگریزی زبان کیسی لکھتے ہیں۔ قیافہ کہے دیتا ہے کہ گورے باس کو گدگداتے گدگداتے بے حال کر دیتے ہوں گے۔

اچھا، ان دوستوں میں کچھ ایک جیسا بھی ہے۔ جی ہاں۔ انسان کا درد دونوں ایک جیسا رکھتے ہیں۔ تعصب کا جھنجھٹ دونوں نے نہیں پالا۔ دونوں نے عقل سے دوستی رکھی ہے۔ دونوں ذہانت کا پتلا ہیں۔ دونوں آنکھ جھپکنے میں بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں۔ ایک کا قلم چنگاریاں چھوڑتا ہے اور دوسرے کے قلم سے پھل جھڑیاں نکلتی ہیں۔ ایک نے دلیل اور برہان کے رہوار پر کاٹھی ڈال رکھی ہے تو دوسرے نے زعفران کے کھیت میں مزاح کا بیل جوت رکھا ہے۔

زندگی کے اتفاقات کیسے دلچسپ ہیں۔ حاشر ارشاد اور وسی بابا ایک ہی روز یعنی 16 ستمبر کو پیدا ہوئے۔ برس کونسا تھا۔ یہ تو دونوں دوستوں نے بتایا ہی نہیں۔۔۔ اور سچ یہ ہے کہ پوچھنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ ہمیں حاشر ارشاد کی حشر اٹھاتی نثر اچھی لگتی ہے، وسی بابا کی لطافت ہمارے دل کو چھوتی ہے۔ پیدائش کا برس بھی اگر ہمیں پوچھنا ہے تو بعد میں پی ایچ ڈی کرنے والے اپنے مقالہ جات کے پہلے باب میں کیا لکھیں گے، کس کا مردہ خراب کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).