سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے


سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے اسکرپٹ رائٹرز کے لیے ا سانی پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنے اسکرپٹ کو آگے بڑھا سکیں۔ عمران خان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ آصف زرداری بھی اپنے سر پر خطرات کے بادل محسوس کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر میاں نواز شریف ملک سے باہر نہ جاتے تو عمران خان اور آصف زرداری کی جان چھوٹ جاتی۔ شاید عمران خان اور آصف زرداری کو یہ احساس نہیں تھا کہ نا اہل ہونے کے بعد میاں نواز شریف ہی ان کا واحد دفاع ہیں۔ لیکن وہ شاید نواز شریف کو روکنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔

یہ بھی درست ہے کہ بیرون ملک جانے سے پہلے میاں نواز شریف نے آصف زرداری سے بہت رابطہ کیا کہ وہ ایک آئینی ترمیم پر تیا ر ہو جائیں لیکن آصف زرداری کو کچھ گلے بھی تھے۔ اور کچھ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے جب آصف زرداری تیار نہیں ہوئے تو نواز شریف کے پاس بیرون ملک جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آصف زرداری کا انکار کوئی حتمی انکار نہیں ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایسے انکار کر رہے ہیں جس کو نواز شریف حتمیٰ انکار نہیں سمجھ رہے بلکہ اس کو وقتی انکار سمجھا جا رہا ہے۔ اس لیے ذمہ دار ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ لندن میں بھی نواز شریف اسی بات کے لیے کوشاں ہیں کہ کسی طرح آصف زرداری ایک آئینی پیکیج کے لیے تیار ہو جائیں۔ جس کی وہ کوئی بھی قیمت دینے کے لیے تیار ہیں۔

اب تو نواز شریف اس حد تک بھی تیار ہیں کہ پہلے مرحلہ پر صرف اتنی آ ئینی ترمیم کرلی جائے کہ نواز شریف نا اہل ہو جانے کے بعد بھی کم از کم نون لیگ کے صدر رہ سکیں۔ چاہے انھیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہ بھی ہو لیکن پارٹی کی صدارت پاس رہ سکے۔ تاکہ نواز شریف کا ایک کردار ملکی سیاست میں باقی رہے۔ آخری خبریں آنے تک آصف زرداری نہیں مان رہے ہیں لیکن نواز شریف ان کے انکار کو انکار نہیں مان رہے ہیں۔ اور انہیں منانے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے، وہ بنی گالہ کیس میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ میں تو پانامہ کیس کے دوران بھی لکھ رہا تھا کہ نواز شریف اور عمران خان کی لڑائی کا انجام لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم ہی ہوگا۔ عمران خان کا مسٹر کلین کا امیج بھی خطرے میں ہے۔ وہ بنی گالہ میں بھی پھنس رہے ہیں اور الیکشن کمیشن بھی انہیں سزا سنانے کے لیے تیار ہے۔ شاید الیکشن کمیشن کو خود عمران خان نے ہی بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں الیکشن کمیشن کے پاس سزا سنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔

عمران خان کی نا اہلی سے بھی کوئی طوفان نہیں آئے گا بلکہ جس طرح نواز شریف کی نا اہلی سے کوئی طوفان نہیں آیا، اسی طرح عمران خان کی نا اہلی سے بھی کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں عمران خان کوئی اپ سیٹ نہیں کر سکے۔ اگر نون لیگ لمبے مارجن سے جیت گئی تو عمران خان کی نا اہلی قریب ہو جائے گی۔ اگر وہ پھر چالیس ہزار سے ہا رگئے تو ان کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی ۔ لیکن اگر وہ کوئی اپ سیٹ کر گئے تو پھر اسکرپٹ رائٹرز کا اسکرپٹ اپ سیٹ ہو سکے گا۔ ورنہ اسکرپٹ میں تو نون لیگ جیت رہی ہے اور عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہو تا جائے گا۔
120 کی جیت نواز شریف کی واپسی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ اس سے نواز شریف جن مشکلات کا شکار ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کی خبریں پیپلزپارٹی کو پیغام ہے کہ اگر انہوں نے اسکرپٹ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو ان کے لیے سیاسی مسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ عمران خان بھی ایم کیو ایم سے تعاون مانگنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ کہاں وہ عمران خان جو ایم کیو ایم کا نام سننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ وہ آج ان کے ساتھ قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اقتدار کی تلاش میں نہ جانے کہاں تک جائیں گے۔ شاید عمران خان بھول گئے ہیں کہ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس نے ابھی حال ہی میں شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیا۔ میں تو ایم کیو ایم کی سیاست پر بھی حیران ہوں کہ ایک طرف انہوں نے قائد ایوان کے لیے شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیا ہے اور دوسری طرف اب وہ قائد حزب اختلاف کے لیے شاہ محمود قریشی کو ووٹ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ کیا کوئی جماعت قومی اسمبلی میں بیک وقت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو ووٹ ڈال سکتی ہے۔ یہ کرشمہ بھی ایم کیو ایم ہی کر سکتی ہے۔

ویسے تو ایم کیو ایم اور عمران خان کی جوڑی بھی کیا خوب جوڑی ہوگی۔ سونے پر سہاگہ۔ نہلے پر دہلہ۔ محترم شاہد خاقان عباسی بھی خوب کردار نبھا رہے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مکمل فٹ ہو گئے ہیں اور کبھی کبھی نواز شریف کا نام بھی لے لیتے ہیں۔ تاکہ یہ تاثر بھی نہ ہو کہ وہ بے وفا ہو گئے ہیں۔ ملک میں قومی حکومت کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ قومی حکومت کسی اسکرپٹ کا حصہ نہیں ہے لیکن یہ پلان بی ہو سکتا ہے۔ اگر اسکرپٹ کے کسی بھی کردار نے اپنے کردار سے ہٹ کر کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو اسکرپٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے قومی حکومت بھی بنائی جا سکتی ہے۔ قومی حکومت حقیقت سے زیادہ ڈر ہے۔ یہ وہ ڈر ہے جو سب کو سیدھے راستہ پر چلنے پر مجبور کرے گا۔ کیا قومی حکومت بن سکتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ قومی حکومت صرف مارشل لا کے نفاذ سے ہی بن سکتی ہے۔ اور فوج کی فی الحال یہی کوشش ہے کہ مارشل لا کی نوبت نہ آئے۔

شاید آصف زرداری کا دل تو کرتا ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملا لیں لیکن قومی حکومت کا خوف انہیں روکتا ہے۔ وہ اس نظام کو خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ انہیں پتہ ہے کہ ایک غلطی گیم ختم کر سکتی ہے۔ اگرگیم چلتی رہی تو کسی نہ کسی موقع پر نواز شریف کی واپسی ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی اس دور سے گزر چکی ہے۔ اس لیے نواز شریف کو بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں انتظار کرنا چاہیے۔ شاید شہباز شریف کو اسکرپٹ کا پتہ ہے اسی لیے وہ جوش نہیں ہوش کی بات کر رہے ہیں۔

بشکریہ کارواں ناروے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).