آدھے سچ کا انکشاف ….!


\"karachi-violence-afp-670-7\"میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہ سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے، واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہوکرماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں لیکن گم نہیں ہوتے، موقع محل اسے واپس تحت الشعورسے شعور میں لے آتا ہے، شعورِ انسانی افق ہے جس سے جھانک کر وہ مستقبل کے آئینہ  ادراک میں دیکھتا ہے ،یہ سچ ہے پور اسچ….یو ں تو افق کے پار سب ہی دیکھتے ہیں لیکن توجہ نہیں دیتے، ہمارے ذہن کے جھروکوں میں پنہاں ایسے بے شمار واقعات خا ص کر اس وقت امڈ آتے ہیں جب وہ لوگ جو کبھی شریک جرم تھے اب اپنوں کی مخبریاں کرتے نظر آ رہے ہیں،خدا کرے ان کا یہ ” سچ اور گواہی“ اس بار کسی پار لگے، خدا کرے یہ سچ بولنے والے اب کی بار پورا سچ بولیں۔

پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے لے کر ڈاکٹر عاصم، عذیر بلوچ اور ماڈل گرل ایان علی تک اور ایم کیو ایم کے صولت مرزاسے لے کر اجمل پہاڑی اوردیگر جن میں کوئی چریا ، لنگڑا، کن کٹا، کمانڈو تک اور کراچی کے سابق مئیرمصطفی کمال سے لے کرانیس قائم خانی اور اب سابق صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد تک یہ سب وہ شخصیات ہیں جو تسلسل سے انکشاف کرتے چلے جارہے ہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ انکشاف دراصل’ آدھا سچ‘ اورآدھی حقیقت ہے۔

اور بعض کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تمام انکشافات درحقیقت اس ’ آئی واش‘ کاحصہ ہیں جس کا مقصد ممتازقادری کو دی جانے والی پھانسی پر عوام کے ممکنہ رد عمل سے بچنا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو پھراس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا، اس لیے کہ وہ غازی جسے شہید کردیا گیا، جس کا جرم توشاید اتنا بڑانہیں تھا لیکن اس کو پھانسی دے کرحکومت وقت دنیا کے سامنے تو شاید کچھ سرخرو ہوگئی لیکن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے بہت کچھ کھو دیا ، اس کا خون شاید اب کی بار اس طبقہ اشرافیہ کو چین سے بیٹھنے نہ دے ۔

میں جب یہ انکشاف سنتاہوںتو نجانے کیوں میر ے ذہن میں وہ تمام واقعات ایک ایک کرکے، تسلسل سے کسی فلم کی مانند چلنا شروع ہوجاتے ہیںجب میرا شہر ،شہرکراچی مقتل کا منظر پیش کیا کرتا تھا ،واقعات کا سلسلہ جب دراز ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ قیادت سے لے کر کارکنوں تک ہر کو ئی ان حالات کا ذمہ دار ہے لیکن کیا کریںاس وقت ہر ایک نے ہی دستانے پہن رکھے تھے،ہم آخرکس کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلا ش کرتے پھریں، لہو بھی وہ جو ا س وقت پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہوچکا تھا ، لاشیں گرنے کا سلسلہ جو شروع ہوا تو پھر طویل سے طویل تر ہوتاچلاگیا ،اتنی لاشیں اس شہر قائد میں گریںکہ انسانی لاشوں کو بھی ’اسکور‘ کا نام دیدیا گیاجو کہ درحقیقت ایک بہیمانہ مذاق تھا اور پھر یہ اسکور بڑھتاہی چلا گیا،ایک وقت اس شہر نے ایسا بھی دیکھا جب گھر سے نکلنے والوں کوان کے گھر والے ایسے دیکھا کرتے تھے جیسے وقتِ آخر کسی پہ نگاہ ڈالی جاتی ہے اور پھر ان ماو¿وں کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے جو روز صبح اپنے جگر گوشے کے گھر سے نکلتے وقت ،اس کی عافیت سے واپسی کے لیے رو ز ’دوگانہ ‘ نفل پڑھا کرتی تھیں،وہ وقت بھی سامنے آتا ہے جب اس شہر کے باسیوں کے لیے شناختی کارڈ کا جیب میںرکھنا جرم بن چکا تھا،کتنی ہی لاشیں اس شہر میں شناختی کارڈ دیکھ کر قومیتوں کی بنیا د پر گرائی گئیں کہ ان کا ’اسکور‘ بھی شمار سے تجاوز کرگیا۔یو ں تو اس شہر پر ہر مسلک ،ہر مذہب کے ماننے والے کا خون قرض ہے لیکن اس خون میں وہ خون بھی شامل ہے جو علماءدین کا بہا یا گیا ،آہ !کس کس کانام لوں،حکیم سعید سے لے کر والدماجد مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہید ؒ،مفتی عبدالسمیع شہیدؒ،مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شہید ؒ،بزرگ عالم دین مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ،مفتی جمیل خان شہیدؒ اور دیگر بے شمار علماءکرام جن کی ایک بہت طویل فہرست ہے جن کا خون ناحق اس مٹی پر آج بھی قرض ہے ،اسی طرح سانحہ¿ بلدیہ ٹاو¿ن فیکٹری کے ان 258 مسخ شدہ افراد کا خون بھی انصاف کا تقاضا کرتاہے ، سانحہ12مئی کے لواحقین کے ورثاءبھی آج تک انصاف کے منتظر ہےں،ان میں سے ہر ایک شہیدکا وارث ان سچ بولنے والوں سے آج پورا سچ سننے کا منتظر ہے ۔

اگر چہ یہ فرض قانون نافذ کرنے والے ان تمام اداروں پربھی واجب ہے،آپریشن ضربِ عضب کے شروع کرنے والوں کو بھی یہ خون ناحق پکار کر انصاف کا طالب ہے ،انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک تمام جج حضرات سے بھی ان کے لواحقیقن انصاف کے خواہاں ہیں ،سول سوسائٹی اورایوان اقتدار میں بیٹھی تما م اشرافیہ پر بھی اس خون کا قرض ہے اور خاص کر ان حکمرانوں کے دامن پر بھی ان تما م لوگوں کے خون کے چھینٹے آج بھی موجو د ہیں جن کے دورِ اقتدار میں یہ سب کچھ ہوا ۔

میری گزارش ان تمام حضرات سے صرف اتنی سی ہے کہ اگر آپ لوگوں نے سچ بولنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو خدارا….! انصاف کے ساتھ سچ بولیں اور پور ا سچ عوام کو بتائیں کہ یہ شہر قائدجو کبھی عرو س البلا د کے نام سے جانا اور پہچاناجاتا تھا اسے مقتل گاہ کس نے بنایا تھا ؟ خونِ نا حق کا حکم دینے والے کون لوگ تھے؟ کس کے اشارے پر، کن کن لوگوں نے یہ جرم کیایا کروایا؟

آج اگرآپ میں خدا خوفی آہی گئی ہے توپھراس جرم میں شریک تمام افراد کے نام سامنے لائیں تاکہ ان تمام بے قرار دلوں کو کچھ سکون حاصل ہوسکے جن کے پیارے اس دہشت و بربریت کی نذر ہوگئے۔اس لیے کہ آپ کا یہ آدھا سچ ممکن ہے آپ کے کسی کام تو آجائے لیکن یہ آدھا سچ ان بے قرار دلوں کا سکون کبھی نہیں لوٹا سکے گا ۔ اس کے ساتھ ہی وطن عزیز میں موجود سیکورٹی اداروںاور حکومت وقت کی بھی یہ قومی ذمہ داری بنتی ہے اور یہ فریضہ ان پر بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اس سچ کی کھوج لگا کر ان تمام کرداروں کو قرارِ واقعی سزا دلوائیںتاکہ عوام کو لگے کہ یہ تمام اعترافات واقعی پور ے سچ پر مبنی تھے نہ کہ آدھے سچ پر….!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments