دولت مندوں کے بارے میں تین غلط فہمیاں (مکمل کالم)


کسی زمانے میں چینی فلسفی کنفیوشس کا یہ قول میرا پسندیدہ ہوا کرتا تھا کہ زندگی میں وہ کام کرو جس کا تمہیں شوق ہے پھر تمہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ اِس بات سے قطع نظر کہ اُس مرد دانانے یہ بات کہی تھی یا نہیں، اِس قول کے ساتھ کنفیوسش کا نام جڑا تھا اِس لیے کبھی اختلاف کی جرات ہی نہیں ہوئی۔ لیکن آج جنوری کی دھوپ سینکتے ہوئے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ استاد کنفیوسش کے قول پر بھی وہی زریں اصول لاگو کرکے دیکھا جائے جس کے تحت زندگی کے باقی معاملات اور نظریات کو پرکھا جاتا ہے۔

اصول یہ ہے کہ کسی بھی بات کو محض اِس لیے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بات کسی عظیم شخص نے کہی ہے۔ کنفیوشس کی بات اِس حد تک درست ہے کہ اگر آپ کا کام ہی شوق بن جائے یا شوق کمائی کا ذریعہ بن جائے تو اِس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات کوئی نہیں۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہمیشہ اسی تلاش میں رہیں اور پوری زندگی کوئی دوسرا کام ہی نہ کر پائیں۔ یقینا کنفیوشس کی بھی یہ منشا نہیں ہوگی۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو میرے اِس اعتراض کے بعد اپنے قول کو ذرا بہتر انداز میں پیش کرتا، کنفیوشس کی کوتاہی کی وجہ سے اتنی اہم باتیں اب مجھے کرنی پڑ رہی ہیں۔

ہمارے ہاں تو یہ رواج نہیں مگر باہر کی یونیورسٹیوں میں اکثر گریجوایشن تقریب کے موقع پر کسی دولت مند اور کامیاب شخص کو بلا کر خطاب کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ طلبا کو عملی زندگی میں کامیابی کے گُر بتا سکیں۔ عموماً یہ ارب پتی لوگ نوجوانوں کو متاثر کرنے کے لیے اِس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ زندگی میں ہمیشہ اپنے جذبے اور جنون کو تلاش کرو اور دیکھو کہ تمہیں کس کام میں لطف آتا ہے اور پھر اسی کی پیروی کرو، کامیابی کے دروازے اپنے آپ کھلتے چلے جائیں گے۔ اور پھر وہ اپنی زندگی کے واقعات کو جھوٹے سچے انداز میں جوڑ کر کچھ ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ سننے والا اش اش کر اٹھتا ہے۔

اِس ’فلسفہ کامیابی‘ پر کاٹ دار تبصرہ امریکی پروفیسر، لکھاری اور مقرر سکاٹ گیلووے نے کیا، ایک محفل میں اِس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ ”ہم دو قسم کے لوگوں کو یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کے لیے مدعو کرتے ہیں، ایک وہ جن کی زندگی بہت دلچسپ اور کامیاب ہوتی ہے اور دوسرے ارب پتی حضرات۔ نہ جانے کیوں ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ ارب پتی لوگ زندگی کے بارے میں بصیرت افروز گفتگو کر سکتے ہیں اور اکثر اوقات اُن کی گفتگو اِس جملے پر ختم ہوتی ہے کہ ’اپنے شوق کی پیروی کریں‘۔ میرے خیال میں نوجوانوں کو دیا جانے والا بد ترین مشورہ ہے اور سراسر بکواس ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کو یہ کہتا ہے کہ اپنے شوق کی پیروی کرو تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ خود دولت مند ہو چکا ہے۔ خاص طور سے ایسا شخص جو اسٹیج پر چڑھ کر یہ بھاشن دے رہا ہوتا ہے اُس نے اربوں روپے لوہے کے کاروبار میں کمائے ہوتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ آپ نے ایسا کام تلاش کرنا ہے جس میں آپ مہارت حاصل کرسکیں، اُس میں ہزاروں گھنٹے لگائیں، پوری استقامت اور صبر کے ساتھ اُس میں جتے رہیں، اُس کام کے لیے قربانی دیں، اسے کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں اور اُس میں مہارت کا اعلی ٰ معیار قائم کریں۔ جب آپ اپنے کام میں ماہر ہو جائیں گے، اُس میں عزت اور نام بنالیں گے۔۔۔ تواز خود آپ کو اُس کام کا شوق اور جذبہ پیدا ہو جائے گا۔ (یاد رکھیں) کوئی بھی شخص بچپن سے ٹیکس قوانین کے متعلق سوچتے ہوئے بڑا نہیں ہوتا کہ یہ میرا شوق ہے جبکہ اِس شعبے کے ماہر نجی جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ مسئلہ کی جڑ یہ ہے کہ کام کرنے میں بہت محنت لگتی ہے، مشکلات آڑے آتی ہیں، آپ کو نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ معمول کی بات ہے، یہ ساری باتیں آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ شاید میں کوئی ایسا کام کر رہا ہوں جو مجھے پسند نہیں، یہ بات تکلیف کا باعث بنتی ہے اور آپ سوچتے ہیں کہ یقینا میں نے زندگی میں اپنے شوق اور جذبے کی پیروی نہیں کی۔ یہ درست لٹمس ٹیسٹ نہیں۔ آپ کو اگر اپنے شوق کی پیروی کرنی ہے تو ویک اینڈ پر کریں۔ کہیں جا کے ڈی جے بن جائیں اورجو دل چاہے کریں۔“

کوئی بھی شخص اگر ارب پتی بن جاتا ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زندگی کے فلسفے کے بار ے بھی میں درس دینے کا اہل ہو جاتا ہے۔ مارک زوکر برگ نے فیس بک نامی اپلیکیشن بنائی، اُس کا آئیڈیا کامیاب ہو گیا، نوجوانی میں ہی وہ ارب پتی ہو گیا، مگر اِ س کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی کے دیگر پیچیدہ معاملات پربھی اُس کی بات یوں سنی جائے جیسے اللہ کا کوئی ولی بول رہا ہو۔ یہی بات جیف بیزوز، ایلون مسک اور دوسرے ارب پتیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ مگر یہاں سے ایک دوسرے مغالطے کے جنم لینے کا اندیشہ ہے اور وہ یہ کہ دولت کمانا کوئی بری بات یا جرم ہے، ہر گز نہیں، بشرطیکہ اس کے ذرائع جائز ہوں۔

جس طر ح ہم نے ارب پتیوں کے بارے میں خواہ مخواہ فرض کر لیا ہے کہ وہ دانشور بھی ہوتے ہیں اسی طرح ہم نے دولت کے بارے میں بھی فرض کر لیا ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ضرور ہوتا ہے کیونکہ یہ بات ایک ناول میں لکھی تھی جو ہِٹ ہو گئی اور ہم اِس پر یوں ایمان لے آئے گویا پتھر پر لکیر ہو۔ آج کل کے جدید زمانے میں خوشحال تو کیا با عزت زندگی بھی خاصی مہنگی ہے۔ دنیا کی سیر کرنی ہو، پہاڑوں میں بسیرا کرنا ہو، اپنے شوق کی تکمیل کرنی ہو، کتابیں پڑھنی ہوں، جہازوں میں سفرکرنا ہو، بیماری کا بہترین علاج کروانا ہو، صحت مند زندگی کے لیے خوراک کا بندوبست کرنا ہو، اپنی مرضی کی زندگی جینی ہو۔۔۔ اِن تمام کاموں کے لیے دولت مند ہونا ضروری ہے۔

جو شخص دو وقت کی روٹی کے چکر سے ہی نہیں نکل پاتا اُس کے لیے اپنے کسی شوق کی تکمیل قریب قریب ناممکن ہو جاتی ہے۔ بقول غالب ’کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو پر اب، دیکھا تو کم ہوئے پہ غم ِروزگار تھا‘۔ یہاں سے البتہ ایک اور غلط فہمی جنم لیتی ہے اور وہ دولت اور خوشی کے باہمی تعلق کے بارے میں ہے۔ نہ جانے کیوں ہم نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ دولت کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں، دولت مند لوگ ’اندر‘ سے مطمئن نہیں ہوتے، بے سکونی اور اضطراب نے انہیں گھائل کیا ہوتا ہے اور ڈپریشن کی وجہ سے انہیں رات کو نیند نہیں آتی۔ یہ بات ہمیں ایک انجانی سی خوشی دیتی ہے اور ہم دولت پر لعن طعن کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں حالانکہ اِس سے بڑا ڈھکوسلہ کوئی نہیں۔ ممکن ہے بہت سے امیر لوگ ٹینشن میں رہتے ہوں مگر اِس میں اُن کی دولت کا نہیں، اپنا قصور ہوتا ہے۔ دولت تو زندگی گزارنے میں سہولت فراہم کرتی ہے، اگر کوئی شخص اِس سہولت کا فائدہ اٹھانا نہیں جانتا تو ایسے شخص کا ذہنی علاج کروانا چاہیے نہ کہ غربت کو رومانوی انداز میں پیش کر کے غریب کو چکی پیستے رہنے کا سبق پڑھانا چاہیے۔

کالم کی دُم: اُن ترغیبی مقرروں کی باتوں میں نہ آئیں جوسچی اور روحانی خوشی جیسی دلفریب باتوں کے جال میں الجھا تے ہیں، پہلے اپنی زندگی کوخوشحال بنانے کے لیے جائز ذرائع سے دولت کمائیں ’سچی خوشی ‘خود بخود قدموں میں آ کر بیٹھ جائے گی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada