لبرل لکھاری، میاں صاحب اور مریم نواز


گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے ایسے بیانات و مضامین اِس طالب علم کے زیر مطالعہ رہے، جو ترقی پسند و سیکولر باالفاظ دیگر لبرل کالم نگاروں یا اپنے میدانوں کے نام ور رہنمائوں کے تھے۔ حیرانی ہوتی ہے جب میاں نواز شریف کی برطرفی مخالف پلڑے میں محترمہ عاصمہ جہانگیر اور دیگر لبرل اصحاب کا وزن پڑا نظر آتا ہے۔ حالانکہ وہ کبھی لبرل دائرہ کار کے مشابہ تک دکھائی نہیں دئیے۔ یوں تو خارجہ امور کے متعلق ان کی جانی پہچانی سوچ گزشتہ دور حکومت میں بھی عین ملکی مفاد اور ترقی پسند خطوط کے قریب قریب تھی، لیکن معروف معنوں میں اور پھر ان کی جس جماعت سے وابستگی ہے اس حوالے سے وہ کسی بھی طور لبرل نہیں مانے جا سکتے تھے۔ اب بھی زاوئیے سے کوئی فرق واقعی نہیں لگتا۔ آپ جانتے ہیں کہ پرودھن انارکزم (نراجیت) کا باوا آدم تھا۔ 1864 میں ان کی اہم کتاب ’فلسفہ افلاس‘ شائع ہوئی۔ فلسفہ افلاس کے جواب میں کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’افلاس فلسفہ‘‘ لکھی ۔ کمیونسٹ مینوفسٹو میں پرودھن ازم کو ’’بورژوا سوشلزم‘‘ سے موسوم کیا گیا، جس کا مقصد ’’بغیر پرولتاریہ کے بورژوا‘‘ کو وجود میں لانا تھا۔ انسان سہل پسند واقع ہوا ہے، میاں صاحب کے پاس عرق ریزی کے ایسے فلسفوں کے لئے شایدوقت نہ ہو، نہ ہی ان کی جماعت قیام پاکستان سے آج تک کسی ایسی ’’مشقت‘‘ کے لئے خود کو آمادہ کرسکی ہے۔ کہنا یہاں یہ ہے کہ ان دِنوں ترقی پسندوں پر یہ پھبتی کَسی بلکہ برسائی جا رہی ہے کہ میاں صاحب کے سیاسی خمیر میں تو وہ سب کچھ موجود ہی نہیں، جن کی توقع یہ ترقی پسند لگائے ہوئے ہیں۔ البتہ اگر قوت میں آگئے تو وہ تو پھر ’’بورژواسوشلزم‘‘ ہی قائم کریں گے۔

ہم جیسے طالب علموں کو البتہ طمانیت یوں ہے کہ قطع نظر اس کے کہ میاں صاحب کا کل کا رول کیا ہوگا، تحقیق یہ ہے کہ لبرل دانشوروں کا آج کا رول بہر صورت وہی ہے جوگزرے کل بھی تھا اور آنے والے کل میں بھی ہوگا۔ یعنی جمہوری قدروں، انسانی حقوق اور آئینی بالادستی کے لئے آواز اٹھانا… لبرل لکھاریوں اور دانشوروں کا یہ کمال ہے اور یہ کمال ہی انہیں رجعت پسندوں سے ممتاز کرتا ہے کہ وہ حق کے ساتھ کے لئے اپنے اور غیر کے کسی امتیاز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دوسری طرف وہ ابن الوقت ہیں عرف عام میں جنہیں درباری کہا جاتا ہے، آسودگی میں ساتھ ہوتے ہیں اور مشکل میں کھسک جاتے ہیں۔ ایک مثال جس کی یہ ہے کہ ایسے درباری جو جدہ میں بھی میاں صاحب کے دسترخوان کے قصیدہ خواں تھے، اب نام نہاد افغان جہاد کی خون آلود یادوں کو زندہ کرنے کے مشن پر ہیں۔ سنگدلی اس قدر ہے کہ وہ 30لاکھ مسلمانوں کے قتل کے واقعات کو مزے مزے کے قصے بتاتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد کسی کو خوش کرنا ہے۔ یعنی ایسی قوتوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا جو اس نام نہاد جہاد کی پشت پر تھیں اور جو ان دنوں میاں صاحب کی سیاسی یتیمی کے لئے پر جوش عناصر کی پشت پر ہیں۔ یہ فنکار لکھاری بیک وقت ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہیں۔ اسلام کے اس قلعے میں ایسے ڈبل ایجنٹ شاداں و خراماں ہیں، ان کی لاعلمی کا عالم مگر یہ ہے کہ وہ اب بھی گلبدین حکمت یار کو’ مجاہدکبیر‘ جیسے القاب سے نوازتے ہیں، حالانکہ یہ مجاہد کبیر( جو بقول ایک پاکستانی وزیر خارجہ) موساد اسرائیلی ایجنٹوں سے تربیت پاتے تھے، کب کے اپنے آقا امریکہ کے یارافغان صدر اشرف غنی کے چرنوں میں جا بیٹھے ہیں۔ د وسری طرف لبرلز طعن و تشنیع سے تر تیر بھی سہتے ہیں اور ان کی حب الوطنی بھی مشکوک ٹھہرتی ہے۔ لیکن وہ لکھتے اور کہتے وہی ہیں جو ان کی سوچ و فکر کے مطابق درست اور عین وطن کے مفاد اور قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ واضح ہو کہ ہم اصل لبرلز کی بات کرتے ہیں، این جی اوز ٹائپ اُن لبرلز کی نہیں، جن کا سارا دھندہ ہی مذہب فروشوں کی طرح غیرملکی ڈالروں و ریالوں پر چلتا ہے۔

ہم اس امر پر ہر گز بضد نہیں کہ میاں صاحب یا ان کی جماعت کو چونکہ تاریخی رول کا احساس ہوگیا ہے اس لئے عصر موجود کو قیمتی بنانے کے لئے پابہ جولاں بھی چلنا پڑا توسودا برا نہیں۔ معروضی و موضوعی حالات کسی بھی اعتبار سے ایسے نہیں، اور نہ ہی مملکت خداداد پاکستان کی مٹی سے کبھی ایسی خوشبو اُٹھتی محسوس ہوئی ہے۔ پھر مسلم لیگ، جس کاریشم انداز وجود کبھی کسی انقلابی تحریک کی نشوونما کے لئے ساز گار ہی نہیں رہا، کیوں ڈھلتی عمر میں اس سے ایسی توقع عبث رکھی جائے…سو حزم و احتیاط ہی کار گر ہے. جب منبر و میڈیا زر کے رشتوں سے خود کو نتھی کرتے ہوئے طاقت وروں کی زباں و بیاں بن جائیں، پھر آسماں مہرباں ہو، تو ہو، پاکستان جیسے معاشروں میں کسی جدوجہد کا نتیجہ خیز ہونا خواب ہی رہتا ہے۔ خیر ہم عرض کررہے ہیں کہ معروضی صور ت حال کسی انقلاب سے کوسوں دور ہوتے ہوئے بھی حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور ملک کا سیاسی منظر نامہ مریم نواز کے اطراف رقص پذیر ہے۔ بایں ہمہ ہم اس بحث میں اُلجھنا نہیں چاہتے کہ میاں صاحب کی سیاست میں واپسی ممکن ہے یا نہیں اور یہ کہ ان کا خانوادہ سیاست کیلئے ناگزیر یاکس قدر نقصان دہ ہے ۔ کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت ملک میں سب سے زیادہ تذکرہ باپ بیٹی ہی کا ہے۔ شاید ہی کوئی کالم ہو جو ان کے ذکر سے عبارت نہ ہو۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ سب کچھ حمایت میں ہے ، کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جن کا نام بیان و زبانِ زد عام ہے وہ یہی دو سیاستدان ہی ہیں۔ کوئی تو وجہ ہے کہ نقاد اپنا بیشتر وقت مریم صاحبہ کی مخالف میں ضائع کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی والے تو ہلکان ہوئے جارہے ہیں کہ مریم صاحبہ ، محترمہ بے نظیر بھٹو بننے کی کوشش نہ کریں۔

صاحبو! بے نظیر یوں بے نظیر ہیں کہ انہوں نے زورآوروں کی حدود کو اپنی جرات سے تار عنکبوت بنا ڈالا ۔ آپ ہیں کہ طاقتوروں کے کہنے پر پاکستان سے جاتےہیں اور آتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمےمیں پیروی نہ کرنے اور فیصلے پر خاموشی اور میاں صاحب کی مخالفت کے عوض سارے چور آبِ زم زم سے دُھل چکے ، اب دھمال پائیں اور نعرہ لگائیں جئے بھٹو……

خلاصہ یہ ہے کہ ملک و ملت کے لئے ضرر رساں حالیہ سیاسی کشمکش میں ’’دیدہ ور‘‘ تمام سیاسی قوتیں مختلف صورتوں میں شکست کھاچکی ہیں۔ جیت صرف ’’نادیدہ‘‘ کی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے چند لٹیروں کی دولت کو محفوظ بنانے کے بدلے اپنی نظریاتی سیاست اور دیو مالائی سیکولرو جمہوری تشخص ہار دیا ہے۔

عمران خان کو ملک بھر کے عوام نے جو پذیرائی بخشی تھی۔ اس کے بل بوتے پر وہ درحقیقت تبدیلی لاسکتے تھے۔ لیکن ان کے دائیں بائیں موجود پرانے تنخواہ داروں اور ایک بزرگ صحافی نے انہیں اسٹیبلشمنٹ ’’کو گود‘‘ دے دیا۔ یوں قبل ازیںلے پالک سیاستدانوں کا جو انجام ہوا، خان صاحب کا بھی وہی ہوا چاہتا ہے۔ ’پرانے پاپی‘ پھر بھی اقتدار کے مزے تو لوٹ چکے، خان صاحب مگر شاید تشنہ لب ہی رہیں اور ان کی قسمت میں بقول بشیر بدر یہ کہنا ہی رہ جائے۔

خداکی اتنی بڑی کائنات میں، میں نے

بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

ایک اور این آر او اورایک نئی سیاسی جماعت کا بت ایستادہ کرنے کا بھی ڈھنڈورا ہے۔ پھر یہ بھی درست ہے کہ تاحال ن لیگ میں توڑ پھوڑ کا منصوبہ بہ وجوہ موقوف ہے۔ کرنا کیا ہے یہ کرنے والوں نے ابھی طے کرنا ہے۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).