تانیہ خاص خیلی کوئی ملالہ جیسی تو نہیں تھی۔۔۔


کہاں ملالہ یوسفزئی جیسی عظیم ہستی اور کہاں تانیہ خاصخیلی جیسی سندھ میں ایک غریب کی بیٹی پھر دونوں کے ظلم کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جتنا ظلم طالبان نے ملالہ جیسی علم و ہنر کے نمائندے پر کیا تھا اتنا ظلم تانیہ پر وڈیرے نے تو نہیں کیا۔ ملالہ تو تعلیم عام کرنے کا اس صدی کا عظیم نمونہ تھی جس کی بدولت نا صرف پاکستان میں تعلیم کی راہیں کھلی ہیں بلکہ دنیا کے تمام غریب اور پسماندہ خطوں میں اس کی آواز بلند ہونے پر علم کی راہیں عام ہوئی ہیں بلکہ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں جس تعلیم کے لیے ملالہ کو گولی ماری گئی تھی اسی دہشت گردی کے تسلسل نے ہمارے پشاور کے بچوں کو زبح کر دیا پھر ہوا یوں کہ ہم نے ان دہشت گردوں کے بچوں کو پڑھانے کی ٹھان لی اور وہ بچے پڑھتے پڑھتے انصارالشریعہ نامی ایک عالمی تنظیم قائم کرنے میں کامیاب ہوا نتیجہ وہی دہشت گردی۔

Tania-Khaskheli-and-suspected-murderer-Khanu-Noohani

اب دوسری جانب سندھ کے وڈیرانہ نظام میں ہلاک ہونے ماری جانے والی طالبہ تانیہ کو قتل کردیا گیا لیکن کئی دن تک تو قتل کا بھی علم نہیں ہوا جب ہوا تو پولیس یہ معلوم کرنے میں ناکام رہی کہ قتل کی وجوہات کیا ہیں اور قاتل کون ہے۔ جی ہاں اس گھٹیا خاندان کی آہویں سسکیاں سوشل میڈیا پر تو بلند ہونے لگیں لیکن ہمارے آزاد میدیا کے لیے وہ وقفے وقفے کی بریکنگ لائن بھی نہ بنی اور نہ اس کے لیے موٹے موٹے سائز کے آنسو بہائے کہ وہ بھی ایک طالبہ تھی جسے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے آبائی حلقے میں بیدردی سے ایک وڈیرے نے اس لیے قتل کیا کہ وہ اس بچی سے شادی کا خواہشمند تھا ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے آبائی حلقے میں ہونے والا غریب کی بیٹی کے قتل کا لرزہ اندام واقعہ تمام حکومتی اور سول سوسائٹی کے دعوئوں کی قلعی کھولتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہے کہ سندھ میں اصل راج بھیڑیوں سے بھی گئے گزرے اکثر غیر درندہ وڈیروں اور ان کے قانون شکن وانٹھوں کا ہے اور یہ صرف دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی سے بھی کئی قدم آگے ہیں۔ دہشت گرد تو کسی آزادی، کسی عصبیت کسی نظریے یا پیسے کے بل بوتے پر لڑتے ہیں اور بندوں کو یا مدمقابل کو مار دیتے ہیں لیکن یہ وڈیرے ، پیر ،سائیں اس قدر ظالم ہوتے ہیں نا ہی یہ خود کو انسان سمجھتے ہیں اور نہ ہی غریب لوگوں کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ ان کا ظلم انسانیت سوز ہوتا ہے یہ جب چاہیں بندوں کو مار گراتے ہیں بلکہ غلامی کی اگر بدترین مثال دیکھنی ہو تو سندھ مین کسی وڈیرے یا سائیں کے دیرے پر چلے جائیں جہاں غریب انسان جو صبح شام ان وڈیروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اگر یہ ایسا نہ کریں تو ان کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔ جملہ تو غلط ہے لیکن سندھ دیہی آبادی میں رہنے والے لوگ اپنی عزت،ذلت اور رزق کا مالک انہی ودیروں اور مخدوموں کو سمجھتے ہیں چاہے وہ بحالت مجبوری ہی کیوں نا ہو۔ صرف مسلمان ہی نہیں ہندو بیچارے تو اس لیے ان وڈیروں کی زیادہ غلامی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر انہیں قتل بھی کردیا گیا تو اس اسلامی ریاست میں ان پر کوئی گستاخی اور کفر کا فتویٰ لگا کر قتل کو آسانی سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سب سے بڑے گستاخ تو یہ وڈیرے ہیں جو خود کو ان غریبوں کو بھگوان سمجھتے ہیں۔

ملالہ پر ظلم ہوا اس کی بات میں اس لیے کرنا چاہ رہا ہوں جب اس پر حملہ ہوا تو کراچی سے خیبر تک ہمارے میڈیا، ہمارے دانشور اور سماجی اور انسانی حقوق کے مہان علمبردار سکتے میں آ گئے لیکن نویں جماعت کی یہ طالبہ بھی سندھ جیسی دھرتی پر تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وڈیرہ شاہی کو چیلنج کر رہی تھی۔ تانیہ نے بھی ظلم و جبر کے اس نظام کا انکار کردیا جس کو سندھ کے غریب لوگ بحالت مجبوری قبول کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے والدین کی حالت یہ ہے کہ اب بھی وہ انصاف کے حصول کے لیے وڈیروں کے پاؤں پکڑ رہے ہیں، میڈیا پر بھیک مانگ رہے ہیں۔ لیکن کیا کریں ان کی بیٹی ملالہ تو نہیں ہے جس کے والدین کو مع اہل وعیال اعلیٰ عہدے، اعلیٰ جہاز فراہم کیے جائیں کیونکہ ملالہ تو ایک خاص نشان تھی ۔ تانیہ کون تھی کیا تھی اس سے کسی اقوام متحدہ یا انسانی حقوق پورے کرنے والے اداروں کا کیا سروکار ہے۔

ہمارے ہاں کا این جی اوز مافیا پتہ نہیں کہاں ہے، عورتوں کے حقوق ادا کرنے والیاں کہاں ہیں۔ کون تانیہ کو بہن کہے گا ، کون تانیہ کی تصویر اپنے اشتہاروں، اپنی فیس بک اور ٹوئٹر پروفائلوں پر لگائے گا یقیناً کوئی نہیں کیونکہ اس کا تقابل ہو ہی نہیں سکتا ملالہ جیسی عظیم ہستی سے۔ اس لیے اس کے والدین سے گذارش ہے کہ وہ کسی کے پاؤں پکڑنے کی بجائے خاموشی اور صبر کا مظاہرہ کریں کیونکہ ان کو نامزد ملزمان اگر پکڑے بھی گئے تو وہ جلد کسی سیاسی آشیرباد کے تحت رہا ہوجائیں گے ۔ تانیہ ک والدین یہ بھی جان لیں کہ ان کی بیٹی ملالہ یوسفزئی نہیں تھی نا ہی اسے دہشت گردوں نے مارا ہے ۔کیونکہ سندھ کے وڈیروں کا دور دور تک دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں وہ جب بھی چاہیں کسی کی بیٹی کو اٹھا لیں یا مار دیں یہ ان کے پاس حقوق موجود ہیں۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).