سیاست، مذہب، عورت اور پاکستان


عورت، مذہب، سیاست اور پاکستان چار مختلف سمتیں ہیں لیکن زندگی کے منظر نامے کی اس جیتی جاگتی تصویر میں ایک دوسرے سے جڑی ایک دوسرے کی طرف دیکھتی یہ سمتیں آج کے عہد میں ہم پر ایک نئے معانی و مفہوم کے در کھول رہی ہیں۔ عورت تصویر کائنات ہے۔ مذہب، گفتار و کردار کی یک رنگی اور سیاست، تو میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو کہ جو جتنا بڑا شعبدہ باز وہ اتنا ہی بڑا سیاستدان، اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الللہ سے لیکر سب سے پہلے پاکستان کے نعرے تک اب تک ڈھیر سارے روپ بدل چکا ہے، اور پھر آج کل کی سیاست کسی مچھلی منڈی سے کم نہیں لگتی۔ مندرجہ بالا چاروں سمتوں کی رنگا رنگی آج کے جدید اور ترقی یافتہ عہد میں ایک نئے مکالمے کی بنیاد رکھ رہی ہے بد قسمتی سے ہماری تاریخ جرائم اور حماقتوں کی ایک فہرست کے سوا کچھ نہیں اور ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کا بھی کچھ زیادہ رواج بھی نہیں ہے۔ اج کل تو یہاں سچ بھی متنازع اور جھوٹ بھی۔

عورت کو زندہ درگور کر دینے سے لے کر پاؤں کی جوتی سمجھنے تک پدرسری سماج نے صنفی امتیاز کو بنیاد بناتے ہوئے عورت کو نازک کہہ کر اپنی سماجی برتری کا بھونڈا راگ الاپا اور مذہب و سیاست کی اپنی اپنی تشریح کی آڑ میں غلبے، اجارہ داری، تسلط اور استحصال کو فروٖغ دیا۔ تخلیق نسل انسانی کا بنیادی جزو عورت زندگی کے منظر نامے میں آج بھی اپنے درست مقام و مرتبے کا تعین کرنے میں مصروف ہے۔ عورت چراغ خانہ یا آرائش محفل نہیں، کارپوریٹ کلچر یا مارکیٹ اکانومی میں ایک پراڈکٹ نہیں، عورت اپنی طاقت اور موجودگی کے تمام تر جواز کے ساتھ عالمی آبادی میں ماضی کی شناخت، حال کی پناہ گاہ اور مستقبل کی امیدوں اور آرزووٗں کا مرکز ہے ہمیں قومی تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر مذہب و معاشرے اور سیاست و معیشت میں عورت کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرنا ہے بلکہ عورت کے حقوق احسان سمجھ کر نہیں دینے بلکہ ایک سماجی و تہذیبی، ذمہ داری کو ادا کرنا ہے، بد قستمی سے مذہب اور سیاست ہمارے ہاں ہمیشہ ہتھیار اور طاقت کے اظہار کے دو حوالوں کی صورت استعمال ہوئے اور عورت کو ایک ٹشو پیپر اور دوپہر کے اخبار کی صورت میں لیا گیا۔ استعمال کیا، پڑھا اور پھینک دیا۔

بیٹی کی پیدائش کو نحوست سمجھنا ہو یا عورت کو اُس کے ورائتی حق سے محروم کرنا ہو شادی کے فیصلوں میں عورت کو فیصلے یا مرضی کا حق نہ دینا ہو یا تن بخشی کا ڈرامہ رچانا ہو۔ ازدواجی زندگی میں مرد کی بلیک میلنگ، وٹہ سٹہ ہو یا ونی، شرعی نکاح ہو، قرآن سے شادی ہو یا کبوتر سے شادی، عورت کو بے جوڑ شادی کے بندھن میں باندھ دینا یہ سب عورت کی سماجی زندگی کی وہ بھیانک تصویریں ہیں جسے پدرسری نظام معاشرت، مذہب اور سیاست کو یکجا کرکے اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لئے سجایا جاتا ہے۔

اسلام انسان کے مذہبی ارتقاء کی فیصلہ کن منزل ہے۔ اسلام کے ظہور و عروج سے لے کر آج تک مذہبی ارتقاء کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اسلام جزیات اور فروعات کا نام نہیں بلکہ اصول و کلیات کا نام ہے ان اصول و کلیات پر ہر زمانے میں زندگی اور معاشرے کی نئی تشکیل میں عورت کے کردار کی ضرورت و اہمیت کی تشکیل بھی ازسرنو ہونا ضروری ہے اور یہ تشکیل اسلام کی صحیح اور اصل روح سے قطعی متصادم نہیں بلکہ یہی تو عین اسلام ہے، اس تاریخی صداقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جنگیں مذہب کے نام پر ہوئی ہیں اور سب سے زیادہ خون بھی مذہب کو ہتھیار بنا کر بہایا گیا۔ یہ کون سا اسلام ہے؟ اسلام تو ہر انسان کو زندہ رہنے کا پورا حق دیتا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیتا ہے لیکن شاید یہاں عورت کو انسان ہی نہیں سمبھا گیا اور مذہب و سیاست کے جال پھیلا کر اس کو سماجی جکڑ بندیوں میں اس طرح کس دیا گیا کہ وہ چاہے بھی تو فریاد نہیں کر سکتی کہ کہیں آزادیاں قید میں ہیں تو کہیں قید میں آزادیاں سجا دی گئیں۔

آزادی کے علم بردار شاید عورت کو فرد ہی نہیں سمجھتے اس لئے بہت آسانی سے اس کے خوابوں اس کی خواہشوں اور اس کی امیدوں کا قتل کر دیا جاتا ہے لیکن ضمیر کی آواز آپ کو گناہ سے روک تو نہیں سکتی پر گناہ کا مزہ ضرور خراب کردیتی ہے اور آج کی عورت پر مغرب کی اثر زدہ آزاد خیال عورت کا لیبل لگا کر تہمتوں کا اشتہار زندگی کی دیوار پر چسپاں کردیا جاتا ہے مگر عور ت کو دیکھنے اور دکھانے والی خبر سمجھنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ اب دکھانے کی باری آج کی عورت کی ہے جو آج کے معاشرے میں سر اٹھا ئے اپنی پوری طاقت سے مقام حاصل کرنا چاہتی بھی ہے اور جانتی بھی۔ مذہبی انتہا پسندی، سیاست اور پاکستان کے سامنے چٹان بن کر ڈٹی معاشرے کے سوالوں کے جواب بھی دے رہی ہے اور کچھ سوال بھی اٹھا رہی ہے۔ اس دوران کیا مناظر دیکھنے کو ملے، کتنی تہمتیں لگیں، کن خوابوں اور خوشیوں کا قتل عام ہوا کتنا لہو بکھرا، کتنی چیخیں فضا کے ماتھے پر رقم ہوئیں، کتنی آہوں نے زندگی کی حدت کو کم کرنے کا جشن کیا مگر ہاری نہیں۔ اب فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).