برائلر نسل اور زہریلی سبزیاں


پرانے گھر سے دانہ پانی اٹھا تو قسمت اس گھر میں لے آئی جہاں آج کل رہائش ہے ۔ یہاں پودے لگانے کے لیے اچھی جگہ موجود تھی۔ گھر کی پچھلی طرف بھی ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جہاں حسب ذوق کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا تھا۔ اٌس گھر میں جتنے پودے گملوں میں لگائے ہوئے تھے ان میں سے اکثر یہاں آنے پہ کیاریوں میں دبا دئیے ، باقی جو بائے نیچر گملوں میں رہنے والے تھے انہیں ویسے ہی چھوڑ دیا۔ ہوا یوں کہ دوسرے سب پودے اپنے حساب سے بڑھتے رہے لیکن ایک بیل جو تھی وہ اس رفتار سے بڑھی جیسے کہانی میں جادو کا درخت تیزی سے بڑھتے بڑھتے بادلوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ بیل تھی بھی ایسی جو عام حالات میں پھولوں کی پیش کش کافی ترسانے کے بعد کرتی ہے ۔ دو فٹ کا پودا اگلے سال پہلی منزل کی چھت تک پہنچ چکا تھا اور اوپر نیچے دونوں کمروں کی کھڑکیاں ڈھانپ چکا تھا۔ ہاتھ ہاتھ برابر کے پھول اس پر نکلتے اور ایک وقت میں اچھے خاصے بہت سارے ہوا کرتے ۔ پھر یوں ہوا کہ مالی کو ڈر لگنے لگا کہ اس میں سانپ چھپ جائیں گے ، گھر والوں کو لگا شہد کی مکھیاں چھتہ بنا لیں گی، پھر اسی بیل میں سے چوہے بھی برآمد ہو گئے جو اے سی کے اندر تک پہنچ گئے ، الغرض اس بیل نے خود اپنے پیر پہ کلہاڑی ماری اور اس کی ٹھیک ٹھاک حجامت ہو گئی۔ تین ماہ بعد وہ پھر ویسی تھی۔ حیرانی اس بات پہ تھی کہ یار مسئلہ کیا ہے ، نارمل بیل ایسے ہرگز نہیں بڑھتی۔ اگلی بار مشتاق بھائی نے جب ایسی بے دردی سے کاٹا کہ وہ بالکل ہی سوکھ گئی تو اندازہ ہوا کہ نیچے ایک جگہ گٹر لائن میں لیکیج تھی۔ جب تک وہ بیل ہری بھری تھی وہ لیکیج کا سارا پانی استعمال کر لیتی تھی۔ جب وہ سوکھی تو ادھر سے زمین نرم ہو گئی، دو تین ہفتے بعد سارا کیس سمجھ میں آیا تو مرمت کروا لی گئی۔ سبق یہ ملا کہ گندہ پانی پیسی فلورا کو بے پناہ راس آیا تھا اور وہ جو بے تحاشا قسم کے پھول تھے وہ اسی لیکیج یا چوبیس گھنٹے کی کھاد ملنے پر نکلتے تھے ۔ وہ بیل ختم ہو گئی تو ایک اور اسی جگہ لگا دی، اس برس وہ بھی فل ماحول میں ہے ۔

 

اب ایک دوست آئے ، کہنے لگے یار کیا ہے بھائی صاحب، ساری جگہ تو آپ نے ایسے ہی فالتو پودے لگا کر ضائع کر دی، ادھر آپ کچن گارڈننگ کرتے ، قسم سے گھر میں بیٹھے بیٹھے مولی، گاجر، سلاد کے پتے ، بینگن، ٹینڈے سبھی کچھ مل جاتا، تو انہیں کلیریفیکیشن دی کہ بھئی تین گاجریں، دو مولیاں، ایک بینگن اور چھ ٹینڈے جو “فصل” تیار ہونے کے بعد ہر دوسرے دن ملنے تھے ان سے کتنے بندوں کی ہانڈی پک جاتی؟ باقی جو لوازمات ہیں وہ تو پھر بھی باہر سے آنے تھے ، روزانہ پورے تیس روپے کی بچت کر کے ان سے کدو خریدنے تھے ؟ لیکن یہ اصل وجہ نہیں تھی، گھر کی اگی سبزی ایک تو کچھ زیادہ ہی “آرگینیک” ہوتی ہے پھر اسے اپنے ذاتی گٹر کا پانی لگنا تھا تو یہ چیز کچھ ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ آپ ایک پھول سونگھ سکتے ہیں جو کسی جوہڑ میں اگا ہو لیکن اسی جوہڑ میں ہاتھ گھسا کر مولی یا گاجر اکھاڑ کے کبھی کھا نہیں سکتے ، لاکھ اسے دھو لیا جائے ، طبیعت نہیں مانے گی، آزمائش شرط ہے ! تو بس یہ معاملہ تھا۔
ہماری نسل برائلر ہے ۔ ہم ہر وہ چیز کھاتے ہیں جو مصنوعی طریقے سے تیار ہوتی ہے ۔ ہمارے آٹے میں سے تمام فائبر نکالا جا چکا ہوتا ہے ، ہمارا چاول بھورے کی بجائے سفید ہوتا ہے ، ہمارے سگریٹوں میں لکڑی کا برادہ ہوتا ہے ، ہماری مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں ہوتی ہیں، ہمارے گھی میں صابن کے بقایا جات ہوتے ہیں، ہمارا گوالا جو دودھ پہنچاتا ہے اس میں یوریا اور بورک ایسڈ کی اچھی خاصی مقدار ہوتی ہے ، ہمارے نلکوں میں آرسینیک پانی کے ساتھ مفت نکلتا ہے ، ہمارے قصائی کچھ بھی حلال کر کے ہمیں چانپیں کھلا سکتے ہیں، ہم “سب سے بڑا شوارما” جو چالیس روپے کا آتا ہے اس میں تلا ہوا کچھوا بھی کھا سکتے ہیں، مرغی اس میں وہ ڈلتی ہے جو اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی، ہم سکرین کے ٹیکوں والے خربوزے کھا جاتے ہیں، ہم “تکوں” کے نام پر کچھ بھی مرچ مصالحہ لگی چیز ڈکار سکتے ہیں، ہم جو پانی پیتے ہیں اس میں سے تو بجلی بھی ڈیموں پر نکال لی جاتی ہے لیکن سبزی، جو اب تک سب سے سیف آپشن تھا وہ بھی تازہ ترین خبروں کے مطابق آلودہ ہو چکی ہے ۔

 

آلو جو تیس چالیس روپے کلو خریدا جاتا ہے یا وہ بھنڈی جس سے اکثر مہذب لوگ چڑتے ہیں، ہر ایک چیز اب گندے پانی سے اگائی جاتی ہے اور پاکستانی کسان ان ممالک کی لسٹ میں ٹاپر ہیں جو یہ غلیظ کام کر رہے ہیں۔ چین ہمارا ہمالیہ کے جیسا اونچا دوست اس معاملے میں بھی ہمارے ساتھ ہے یعنی وہ گاجریں یا پیاز جو ہم میڈ ان چائنا سمجھ کر تھوڑے مہنگے لیتے ہیں وہ بھی اسی پریکٹس پر اگائے جاتے ہیں۔ ایران، میکسکو اور بھارت بھی ٹاپ فائیو میں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ گوبر کی کھاد یا نہری پانی جس میں کوئی گٹر لائن مکس ہو اس سے کھیتوں کو پانی دیا جائے ، یہاں تک تو سمجھ میں آتا ہے ، دیکھا بھی ہے ، لیکن اس وقت جس پانی سے سبزیاں اگائی جا رہی ہیں اس میں انڈسٹریل ویسٹ (فیکٹریوں سے نکلا زہریلا پانی) بھی شامل ہو چکا ہے ۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سبز پتے والی سبزیوں میں کیڈمیئم، سیسہ اور دوسرے نقصان دہ قسم کی دھاتیں اتنی زیادہ تھیں کہ انہیں کھانا سراسر زہر کھانے والی بات تھی۔ کیڈمیئم گردوں اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے ، ہڈیوں کو بہت زیادہ کمزور کرتی ہے ، سیسہ خون کے مرض پیدا کرتا ہے ، جست دماغی اور افزائش نسل کے معاملات میں پرابلم کرتی ہے ، مطلب پوری سٹڈی اٹھا کے دیکھ لیجے ، ہر ایک چیز ایسی ہے جو آنے والے دنوں میں کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور دے گی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندہ کیا کھائے ؟ کچھ بھی تو نہیں ہے جسے بے خوف و خطر کھایا جا سکے ۔

 

بچپن میں زمین پر کوئی چیز گر جاتی تو دوسرے بچے کہتے تھے کہ اٹھاؤ، اس پہ کلمہ پڑھ کر پھونکو اور کھا جاؤ، کئی بار اسی طرح کیا (آف کورس آم یا لیکویڈز مستثنٰی ہیں) اور خدا گواہ ہے کبھی کچھ بھی نہیں ہوا۔ گورا کہتا ہے کہ جب گزارا مشکل ہو جائے تو مشکل میں گزارے کی عادت ڈال لو۔ اس وقت ملاوٹ یا آلودگی کے بغیر ہوا بھی دستیاب نہیں ہے تو خدا کے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔ وہ یوں کریں کہ کلمہ پڑھیں اور جو کچھ سامنے آئے سکون سے کھا جائیں۔ کبھی کسی ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ کے بعد معدے میں سے اینٹوں کا برادہ نکالا ہو، یا کسی حکیم نے کہا ہو کہ سکرین کے ٹیکے والے خربوزوں سے آپ کو فوڈ پوائزننگ ہوئی تھی، یا بذات خود دودھ میں یوریا کا ذائقہ محسوس ہوا ہو تب تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔ اگر آج تک ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ ستے خیراں کی رپورٹ ہے اور ہاضمے کا نظام ایک دم ٹائٹ ہے ۔ جب ایسا ہے تو گندے پانی میں پلے بڑھے آلو یا بھنڈیاں بھی کچھ نہیں اکھاڑ سکتے ، اللہ کا نام لیجیے اور زندگی کے معمولات اسی سپیڈ سے جاری رکھیے ۔

 

اصولی طور پر کالم کی اینڈنگ تھوڑی جذباتی ہونی چاہیے جیسے ، پورا ملک کرپٹ ہے ، ہر ایک بندہ اپنی جگہ پر دو نمبری ہے ، سب ملاوٹ کرتے ہیں، ہم لوگ من حیث القوم ذلت کے عمیق گڑھے میں گر چکے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کچھ نہیں ہے یار، چیئر اپ، سکون کیجیے ، یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے ، بس کبھی کبھی کوئی لکھنے والا آئے گا، مشتری ہشیار باش کا نعرہ لگائے گا اور انہیں پیروں واپس پلٹ جائے گا۔ وہ بھی مجبور ہے ، اسے بھی بیگار کاٹنی ہے !

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain